اضلاع بناؤ سرحدیں کھولو
بلتستان سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنماؤں اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات کی جانب سے پاکستان پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے اعلان کے تحت شگر اورکھرمنگ اضلاع کے قیام میں تاخیر اور سکردو اور کارگل لداخ کے مابین سرحدی راستوں کی بندش کے خلاف اضلاع بناؤ سرحدیں کھولو تحریک کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں امامیہ چوک سکردو سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں سکردو اور گرد و نواح کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ریلی کے شرکاء نے کھرمنگ اور شگر ضلع کے علامتی جنازے بھی اٹھا رکھے تھے اور نئے اضلاع کے قیام میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بھی لگا رہے تھے احتجاجی ریلی جب حسینی چوک پر پہنچی تو مقامی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی جس پر انتظامیہ اور مظاہرین کے مابین تکرار اور جھگڑا شروع ہوا ۔اسی اثناء پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر کے علامتی جنازے چھین کر توڈ ڈالنے پر مظاہرین سخت طیش میں آگئے اور دونوں فریقین کے مابین ہاتھا پائی شروع ہو گئی اس دوران پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کے نتیجے میں معروف قوم پرست رہنماسید حیدر شاہ رضوی سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ مظاہرین کی جانب سے بھی ایس ایچ او سٹی تھانہ سکردو اور تحصیلدار پر مکوں اور تھپڑوں کی بارش ہو گئی.
تا ہم انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے میں نا کامی کے بعد ریلی یاد گار شہداء چوک سکردو جا پہنچی جہاں پر ریلی عوامی اجتماع کی شکل اختیار کر گئی اور آس پاس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اجتماع میں شامل ہو گئی ۔اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کے شگر اور کھرمنگ کو اضلاع بنانے کے اعلان کے بعد ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا مگر صوبائی و وفاقی حکومت کی جانب سے تا حال نئے اضلاع کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوا اور نہ ہی اعلان پر عملدرآمد کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے گئے جس کی وجہ سے ان علاقوں کے عوام میں سخت بے چینی پھیل رہی ہے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے بعد اب مسلم لیگ ن کی حکومت بھی گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنا کر قومی اسمبلی او ر سینیٹ میں نمائندگی دینے کا شوشا چھوڑ کر علاقے کے سادہ لوح عوام کو بے قوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ لیگی رہنما بھی پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا دیکھا دیکھی عوام سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امید واروں کو ووٹ دیکر کامیاب بنائیں تو علاقے کے تمام مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ نئے اضلاع کا قیام و سرحدی راستے کھولنے اور سکردو گلگت روڈ کے توسیعی منصوبے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا ۔انہوں نے دھمکی دی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے نئے اضلاع کے قیام میں مزید تاخیری حربے استعمال کرنے کی صورت میں وہ کھرمنگ اور شگر ضلع کے علامتی جنازے لیکر بلتستان بھر میں احتجاجی جلسے منعقد کرانے کے ساتھ ساتھ کنڑول لائن کی طرف مارچ کرنے سے بھی گریز نہیں کرینگے۔
شگر اور کھرمنگ ضلع کے اعلان پر عملدرآمد اور گلگت سکردو روڈ کے توسیعی منصوبے پر کام شروع کرنے میں تاخیر کے خلاف اضلاع بناؤ سرحدیں کھولو تحریک پر امن احتجاج کرنے میں حق بجانب ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی جانب سے نئے اضلاع کے قیام کا اعلان کئے تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کو ہے مگر حکومت کی جانب سے اس اعلان پر عملدرآمد کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا اور تو کیا صوبائی حکومت کی نا اہلی یا بیوروکریسی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آج تک نئے اضلاع کے قیام کا با ضابطہ طور پر نوٹیفکیشن ہی جاری نہ ہو سکا جس کی وجہ سے یقیناًان علاقوں میں بسنے والے عوام میں احساس محرومی اور بے چینی کی کیفیت پائی جا تی ہو گی۔ گزشتہ سال وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی جانب سے نئے اضلاع کے قیام کے اعلان کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے مختلف قسم کا رد عمل سامنے آیا جس میں زیادہ تر حلقے بشمول سپیکر قانون ساز اسمبلی وزیر بیگ نئے اضلاع کے قیام کی مخالفت میں نظر آئے مگر اس کے باوجود وزیر اعلیٰ اپنے اعلان پر ڈٹے رہے کہ ان کے پاس نئے اضلا ع قائم کرنے کا مکمل اختیار ہے. تا ہم بعد ازاں مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتی مدت ختم ہونے پر وزیر اعلیٰ نے سابق چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سجاد سلیم ہوتیانہ کو نئے اضلاع کے اعلان پر عملدرآمد کرانے میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرا کر عوامی حلقوں میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کی کوشش بھی کی مگر اس کے باوجود شگر اور کھرمنگ ضلع کے قیام کیلئے کسی طرف سے بھی اقدامات نہیں کئے گئے جس کے نتیجے میں آج عوام کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آنا پڑا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے صرف کھرمنگ اور شگر کو اضلاع بنانے کا اعلان ہی اعلان کی حد تک نہیں رہا بلکہ اس حکومت کے چار سالہ دور میں پہلے سے ہی قائم ضلع ہنزہ نگر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر کیلئے جگہ کا تعین دیامر اوراستور کو ملا کر ایک ڈویثرن بنانے یا سین کو سب ڈویثرن اور پھنڈر کو تحصیل کا درجہ دینے سمیت متعدد ایسے اعلانات کئے گئے جو حکومتی مدت کے آخری سال تک بھی صرف اور صرف اعلانات کی حد تک رہ گئی دوسری اہم بات یہ کہ گلگت سکردو روڈ کے توسیعی منصوبے کا اعلان بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اس وقت کیا تھا جب وفاق میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی اور اس وقت اس اہم منصوبے پر کام کیلئے ٹینڈر کرانے کی بھی باتیں گردش کرنے لگیں مگر وفاق سے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی یہ اہم منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا اور یوں عوام کے اندر احساس محرومی بھی بڑھنے لگی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے چار سالہ دور میں علاقے اور عوام کی فلاح و بہبود اور خاص طور پر سرکاری ملازمین کی بہبود ی کیلئے بہت سے اچھے اقدامات بھی اٹھا ئے گئے مگر جتنا کام حکومت کو کرنا چاہئے تھا یا حکمرانوں کے پاس جس کام کے کرنے کا اختیار تھا وہ تا حال ادھورے رہ گئے جس کی وجہ سے عوام کے سامنے مجموعی طور پر حکومتی کارکردگی انتہائی مایوس کن نظر آرہی ہے ۔ لہذا وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ اور اس کی کابینہ کو یہ ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے یہ چند مہینے بھی پہلے کی طرح زبانی اعلانات اور جھوٹی یقین دہانیوں میں گزارنے کی بجائے پہلے کے اعلانات پرعملدرآمد کرانے میں گزارے تو آنے والے الیکشن میں بھی کسی حد تک عوامی ہمدردیاں حاصل ہو سکتی ہیں بصورت دیگر ان کا حشر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سے مختلف نہیں ہو گا ۔