27 کروڑ روپے کا مبینہ غبن، اہلیانِ مستوج سراپا احتجاج
چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے بالائی علاقے مستوج میں علاقے کے لوگوں کا مستوج چوک میں جلسہ عام منعقد ہوا جس کی صدارت قاضی جمال الدین نے کی جبکہ رکن صوبائی اسمبلی سید سردار حسین اس موقع پر مہمان حصوصی تھے۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے 2006 میں بونی سے شندور تک سڑک کیلئے 49 کروڑ روپے کا اعلان کیا تھا مگر اس کا پتہ نہیں چلا کہ آیا وہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (C&W) نے پرواک مستوج روڈ پر 27 کروڑ روپے ٹھیکداروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے ہڑپ کیا ہے مگر سڑک آج بھی کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے اور ٹھیکدار نے ناقص اور غیر معیاری تارکول لایا ہے جو سڑک کے کنارے پڑے پڑے حراب اور زائد المیعاد ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سڑک دریائے چترال کے کنارے سے گزرا ہے جو بعض جگہہ نہایت تنگ اور بہت حطرناک ہے مگر محکمہ والوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہے حالانکہ ہر سال ان سڑکوں کی ناقص اور حراب حالت کی وجہ سے درجنوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں مگرابھی تک ان حطرناک مقامات پر محکمہ والوں نے حفاظتی دیوار یاجنگلہ نہیں لگایا۔
رکن صوبائی اسمبلی سید سردار حسین نے کہا کہ انہوں نے پہلے سے چند کرپٹ عناصر کے حلاف قومی احتساب بیورو میں درخواستیں جمع کی ہے اور اب ان کی پیروی بھی کرے گا انہوں نے کہا کہ اس علاقے کی محتلف ترقیاتی کاموں پر جن سرکاری اہلکاروں اور ٹھیکداروں نے حطیر رقم ہڑپ کیا ہے ان سے ایک ایک پائے کا حساب لیا جائے گا اور یہ پیسہ ان سے واپس لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب کسی کو عوام کے نام پر یا کسی ترقیاتی کام پر پیسہ ہڑپ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ محکمہ خوراک کے گوداموں میں ناقص، حراب اور زائدالمیعاد گندم عرصہ دراز سے پڑے ہیں اور محکمہ والے لوگوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ پہلے ان حراب گندم کو خریدے تاکہ نیا گندم منگوایا جاسکے مگر اب ایسا نہیں ہوگا ۔ تیس ہزار بوری گندم جو چترال کے محتلف گوداموں میں حراب پڑے ہیں ان کو دریا برد کرکے عوام کے سامنے ضایع کیا جائے گا اور محکمہ حوراک اور ٹھیکدار کو مزید عوام کو لوٹنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مستوج پولیس اسٹیشن تین چار سالوں سے حراب پڑی ہے اگر پولیس خود محفوظ نہ ہو تو وہ عوام کو کیا تحفظ دیں گے یہ پولیس کسی دوسری عمارت میں عارضی طور پر رہنے پر مجبور ہیں۔
جلسہ سے شجاع الدین، یحیٰ منتظر، شیر وزیر، ظفر لال، محتار لال، مرزا خان، قاضی جلال الدین، اور دیگر عمائدین نے اظہار حیال کیا،۔
یور مس قبول نے کہا کہ مستوج سڑک کیلئے 28 زمین لی گئی ہے مگر لوگوں کو 18 فٹ زمین کا پیسہ دیا جارہا ہے جو سراسر نا انصافی ہے۔ محمد نصیر نے کہا ک میرے زمین پر 86لاکھ روپے کی لاگت سے واٹر سپلائی سکیم کیلئے ٹینکی بنی ہے مگر مجھے ابھی تک کوئی نوکری نہیں ملی۔
شجاع الدین اور دیگر لوگوں نے ہمارے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس سڑک پر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو والوں نے حطیر رقم ہڑپ کی ہے اور اسے کاغزوں میں بلیک ٹاپ ظاہر کیا ہے مگر سڑک آج بھی کچا ہے اور سڑک کے بیچ میں بڑے بڑے گھڑے ہیں جو انتہائی حطرناک ہے اور کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس سلسلے میں جب محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایگزیکٹیو انجنئیر سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو بدقسمتی سے کافی انتظار کے بعد بھی XEN صاحب دفتر تشریف ہی نہ لائے بلکہ چند لوگوں نے بتایا کہ اس دفتر میں اکثر کوئی افسر موجود نہں ہوتا۔ جب متعلقہ ایس ڈی او سے اس بارے میں ریکارڈ طلب کیا گیا اور دیگر معلومات پوچھا گیا تو انہوں نے بھی ماموں بنایا ۔ ہمارے نمائندے نے ان کو صوبائی حکومت کی ایک منظور شدہ قانون معلومات تک رسائی کے تحت ان سے اس سڑک کی ریکارڈ اور معلومات طلب کیا گیا تو انہوں نے کسی قسم کی ریکارڈ اور معلومات دینے سے انکار کیا بلکہ کیمرے کے سامنے بات کرنے سے انکار بھی کیا اور یوں انہوں نے اس قانون کی دھجیاں اڑادی جسے ہمارے نمائندے نے حفیہ کیمرہ سے ریکارڈ بھی کیا۔
اس بابت محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے چیف انجنئیر محمد اعجاز یوسفزائی کے نوٹس میں بھی لایا گیا انہوں نے اس وقت تو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس میں ضرور تحقیات کریں گے مگر ابھی تک کچھی نہں ہوا اور لگتا ہے کہ کمیشن کے پیسے لینے اور قومی خزانہ لوٹنے کے اس نیک کام میں سب ملے ہوئے ہیں۔
اہلیان مستوج حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہائی کورٹ کے جج صاحب سے تحقیات کرائے کہ محکمہ والوں نے اتنی بڑی رقم کہاں حرچ کی اور سڑک کو بلیک ٹاپ ظاہر کیا ہے جبکہ سڑک آج بھی کچا ہے۔