زوالِ فکرِ انسانی زوالِ زندگی ہے
زوالِ فکرِ انسانی زوالِ زندگی ہے
فروغِ عظمتِ آدم کمالِ زندگی ہے
ترا علم وہُنر، مال و متاع سارا کا سارا
بِنا ہمدردئ انساں وبالِ زندگی ہے
کرہ ء ارض پر کروڑوں اقسام کے جاندار موجود ہیں۔ ان کی مخصوص خصوصیات کے باعث ان کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جیسے حیوانات، نباتات اور حشرات۔ پھر حیوانات کو دو بڑے حصوں انسان اور جانور میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بہت سارے جبلی خصائل (Instictive Traits) ان کے مشترک ہیں اور بہت حد تک ان کی فطرت (Nature) بھی آپس میں ملتی جلتی ہے۔ نباتات کے علاوہ حیوانات اور حشرات تقریباً ایک جیسا حواسِ خمسہ رکھتے ہیں۔ انسان حیوانات کی صنف میں شامل ہے اور اسے حیوانِ ناطق بھی کہا جاتا ہے۔ اتنی زیادہ مشترکات کے باوجود انسان مذکورہ تمام جانداروں سے بالکل الگ تھلگ کیوں ہے؟ اس کا مقام اتنا اعلیٰ اور ارفع کیوں ہے؟ دیگر جانداروں اور انسان کے درمیان محض ایک لکیر اتنا بڑا فرق پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک انتہائی باریک لکیر ہے۔ بعض انسان اس لکیر کو پتھر پہ لکیر سمجھتے ہیں جبکہ بعض اسے انتہائی غیر مضبوط رکھے ہوئے ہوتے ہیں جبھی تو ایسے انسان برائے نام کے انسان کہلاتے ہیں۔ کبھی لکیر کے اُدھر جانوروں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی لکیر کے اِدھر انسانوں کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں۔
یہ لکیر اصل میں سوچ و فکر ، عقل وخرِد ، احساس، شعور ، ضمیر اور دردِ دل کی لکیر ہے۔ مختلف فلسفیوں اور ماہرینِ عمرانیات کے مطابق’’ انسان اِنہی اوصاف کے باعث ممتاز اور اعلیٰ مخلوق ہے۔ کوئی انسان اگر ان اوصاف سے عاری ہو تو وہ فقط حیوان کہلائے گا۔ اسے انسان کہنا محال ہوگا‘‘۔ جبھی تو تمام معاشروں میں یہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ’’ اُس شخص اور جانور میں کیا فرق ہے‘‘۔
تاقیامت امر ہونے والے نامور یونانی کلاسیکی فلسفی ارسطو کا یہ قول بھی اس مظہر کا عکاس ہے کہ ’’انسان معاشرتی حیوان ہے‘‘۔ یعنی انسان معاشرتی زندگی اور گروہی زندگی کی وجہ سے انسان ہے۔ یہ معاشر ے میں انسانوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، کھاتا پیتا ہے، چلتا پھرتا ہے، تفاعل کرتا ہے، عقل ، شعور، ہمدردی اور دردمندی سے کام لیتا ہے اور احساس جیسی انمول دولت اس کے اندر موجود ہوتی ہے، اگر انسان اس طرح سے کام نہ لے اور ان اوصاف کا مظاہرہ نہ کرے تو ارسطور کے اس قول کے تناظر میں’’ وہ فقط حیوان کہلائے گا معاشرتی حیوان نہیں‘‘۔ اس ضمن میں وِل ڈیورنٹ کہتا ہے ’’انسان اور پست درجے کے جانوروں میں کم فرق ہے، زیادہ تر لوگ یہ فرق بھی مٹا دیتے ہیں‘‘۔
آج پاکستان اور گلگت بلتستان میں بسنے والے انسان اس کسوٹی کے مطابق کہاں کھڑے ہیں ۔ انسان یا محض جاندار۔۔۔۔؟ معاشرتی حیوان یا صرف حیوان۔۔۔۔؟ فیصلہ آپ خود بہتر کر سکتے ہیں۔انسان کو سب مخلوقات سے ممتاز کرنے میں جہاں دیگر خصائل اور اوصاف کا اہم کردار ہے۔ وہاں در دمندی ، خدمتِ خلق اور انسانی فلاح و بہبود کا انتہائی غیر معمولی کردار ہے۔ یہ مظہر اظہرِ من الشمس ہے کہ دنیا کے جن سماجوں میں انفرادی، اجتماعی، ریاستی اور قومی سطح پر انسانوں میں درد مندی، خدمتِ خلق اور انسانی فلاح و بہبود کا جذبہ نظری ، فکری اور عملی طور پر مروج ہے وہاں انسان اور وہ معاشرہ مجموعی طور پر دن دُگنی رات چگُنی ترقی و خوشحالی کے زینے انتہائی آسانی سے چڑھ رہے ہیں۔
خدمتِ خلق اور انسانی فلاح و بہبود کا تصور تمام مذاہب میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ جبکہ غیر مذہبی معاشروں اور انسانوں میں بھی یہ جذبہ پایا جاتا ہے۔ جس کی بے شمار مثالیں دنیا بھر میں بکھری پڑی ہیں۔ مذہبِ اسلام بھی اس پر مکمل زور دیتا ہے۔ جسکے نظری اور عملی حوالے قرآن و حدیث میں واضح ہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ ’’ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے جبکہ ایک انسان کی جان لینا ساری انسانیت کی جان لینے کے برابر ہے‘‘۔ جبکہ حدیث مبارکہ ؐ کا مفہوم ہے کہ ’’بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے‘‘۔ والدین ، خیش و اقرباء ، ہمسایوں ، بیواؤں، یتیموں ، مسکینوں، گداگروں ، لاوارثوں ، معذوروں اور آفت زدگان کے حقوق کو عملی طور پر بچا لانے، اُن کی مدد کرنے اور اُن کی آہوں اور سسکیوں کو تبسم میں بدلنے کی بھر پور تعلیمات اسلام میں احسن طریقے سے واضح کی گئی ہیں،۔خیرات ، زکوٰۃ، خمس، صدقات، فطرانہ ، وقف، قرضہ حسنہ اور امداد وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔
ماہرینِ سماجی بہبود (Professional Social Workers) تحقیق، مشاہدے اور تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسانی فلاح و بہبود اور خدمتِ خلق کا عمل روایتی (Traditional)طریقے سے انجام دینے کے بجائے پیشہ ورانہ (Professional) اور سائنسی(Scientific) بنیادوں پر انجام دیا جائے۔ یعنی ضرورت مندوں ، غریبوں اور محتاجوں کو سو یا ہزار روپے دینے، کھانا، لباس وغیرہ فراہم کرنے سے کئی بہتر ہے کہ ان کی سوچ و فکر ، روئیے اور طرز عمل میں تبدیلی لائی جائے۔ ان کو عام تعلیم اور فنی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے، ان کو اپنی مدد آپ (Selfhelp) کا جذبہ سکھایا جائے، انہیں خود انصاری اور خود کفالت(Self Relience)کی طرف عملی طور پر راغب کیا جائے اور انہیں ہنر مند (Skillful) بنایا جائے۔ تاکہ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں اور وہ اپنے اور اپنے کنبے کو محتاجی کی گرداب اور دلدل سے نکال سکیں ۔یعنی اُنہیں یہ آفاقی اور موثر نسخہ کہ’’ دوسروں سے مچھلی لینے کے بجائے خود مچھلی پکڑنا سیکھ جائیں‘‘ کو ہر حال میں ذہن نشین کروانا ناگُزیر ہے۔ اس عمل سے وہ ایک ذمہ دار، کار آمد اور مہذب شہری و انسان بنے کے ساتھ ساتھ غیر پیداواری (Non Productive) سے پیداواری (Productive)بن سکیں گے۔ نتجتََا معاشرے کا بہت بڑا بوجھ کم ہوگا۔ وگر نہ یہ افراد ہمیشہ روایتی سماجی بہبود کے دلدل میں پھنستے جائیں گے، ہاتھ اور جولی پھلاتے رہیں گے اور یوں نسل در نسل محتاجی چلتی رہے گی۔
انسانی فلاح و بہبود اور خدمتِ خلق کو مکمل طور پر پیشہ وارانہ اور سائنسی خطوط پر استوا ر کرنے کے لیے پاکستان اور گلگت بلتستان سمیت دنیا بھر میں کالجوں اور جامعات کی سطح پر سماجی بہبود (Social Work) کا مضمون(Discipline) متعارف کروایا گیا ہے۔ جس کے تحت طلبا کی بہت بڑی تعداد اس مضمون میں گریجویشن، پوسٹ گریجویشن ، پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹوریٹ کر رہی ہے۔ پاکستان کے تقریباً تمام کالجوں اور جامعات میں یہ مضمون تقریباً پچھلے پچاس سالوں سے پڑھا یا جا رہا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں واحد کالج ’’گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز جوٹیال گلگت ‘‘میں گریجویشن کی سطح پر راقم یہ مضمون پچھلے دس سالوں سے پڑھا رہا ہے۔ اس مضمون کو تمام کالجوں اور قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی میں متعارف کروانا وقت کی اہم ضرورت (Need of the hour) اور نا گریز ہے۔ اس مضمون کا اطلاق جہاں سر کاری اور نیم سر کاری اداروں میں بھرپور ہوتا ہے وہاںNGOs اور INGOsمیں بھی اس کی زبردست ڈیمانڈ ہے۔ ایک عمیق مشاہدے کے مطابق گلگت بلتستان میں تقریبا 60فیصد فلاح و بہبود کی خدمات روایتی طریقے سے انجام دی جا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے محتاجی اور مسائل کی مکمل بیک کنی فی الحال ایک خواب ہی ہے۔ پاکستان اور گلگت بلتستان میں جو ادارے مکمل پیشہ ورانہ نہج پر خدمتِ خلق اور سماجی بہبود کے اُمور بجا لا رہے ہیں ان میں انجمنِ ہلالِ احمر پاکستان اس کہکشاں کے جھرمٹ میں ایک چمکتا دمکتا ستارہ ہے۔ پاکستان میں اس انجمن کا با قاعدہ قیام 20 دسمبر1947ء کو عمل میں آیا۔ جبکہ گلگت بلتستان میں اس کی صوبائی برانچ 20دسمبر2007ء کو قائم کی گئی۔ اس کے بنیادی مقاصد میں متاثرینِ قدرتی آفات کی بر وقت امداد و بحالی، عوام الناس کو بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنا، متعدی و موزی امراض جیسے ہیپا ٹائٹس اور ایچ آئی وی /ایڈز سے بچاؤ اور علاج و معالجہ سے متعلق شعور و آگہیِ پیدا کرنا ، نوجوان لڑکے، لڑکیوں کو رضاکارانہ خدمات ) (Voluntary Servicesاور سماجی بہبود (Social Work) کی جانب راغب کر نا اور ان کی فنی صلاحیتوں کو جلا بخشنا، ذہنی اور نفسیاتی مسائل میں مبتلا افراد کی کونسلنگ، حادثات کے وقت فوری طور پر امداد بہم پہنچانا، پسماندہ علاقوں میں صحت و صفائی اور پینے کے صاف پانی کے حوالے سے شعور بیدار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
گلگت بلتستان میں اپنے قیام سے لیکر اب تک انجمن کی منیجنگ باڈی کے عہدیدار وں ، باصلاحیت سٹاف اور ہزاروں نو جوان رضاکاروں کے ذریعے ان مقاصد کے حصول کیلئے دامے ، درمے ، سخنے اور قدمے مثالی کردار ادا کیا ہے۔ جس پر بجاطور پر ہم سب کو فخر ہے۔ یہ احباب معروف عوامی شاعر جمشید خان دکھیؔ کے ان اشعار کی عملی تصویر ہیں کہ :
حقیقت جو سمجھ تو دنیا ہے فانی
گزار و محبت میں یہ زندگانی
کرو غم گذیدوں کی بے لوث خدمت
یہ دولت ، یہ شہرت ہے شے آنی جانی
راقم بھی اس فلاحی انجمن کا ایک ادنیٰ رضا کار ہے اور بمصداقِ جہادِ با لقلم وقتاً فوقتاً اس مشن کو دوام بخشنے کی معمولی کوشش کر تا رہتا ہے۔ اس بنیاد پر اس کے ذمہ دار احباب راقم کو مختلف تقاریب اور پروگراموں میں مد عو کرتے رہتے ہیں۔ جس سے یقیناًانجمن کی خدمات کو سمجھنے ، انہیں پروان چڑھانے اور خاص و عام کو آگہی دلانے میں تھوڑی بہت مدد ملتی ہے۔ ایسے جیسے نارِ نمرود میں چڑیا نے اپنے چونچ سے پانی کے چند قطرے ڈالے تھے۔
ہر سال کی طرح اِمسال بھی انجمن نے 20مئی کو گلگت پریس کلب میں ’’انٹر نیشنل ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ ڈے‘‘ کی مناسبت سے ایک پُر وقار تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ دن ہر سال 8مئی کو ساری دنیا میں بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ تقریب جہاں اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی وہاں اس تقریب کے ذریعے گلگت بلتستان کے چُنیدہ چُنیدہ نو جوان رضا کاروں کو Best Volunteer Awardبھی دینا تھا۔ تقریب کے مہمان خصوصی گورنر گلگت بلتستان و صدر انجمنِ ہلال احمر پاکستان گلگت بلتستان سید پیر کرم علی شاہ صاحب تھے، جبکہ انجمن کی منیجنگ باڈی کے عہدیداروں، سرکاری و غیر سر کاری اداروں کے ذمہ داروں ، سول سوسائٹی اور این جی اوز کے احباب، پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کے نمائندوں، انجمن کے سٹاف اور نو جوان رضا کاروں کی بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی۔ تقریب کا با قاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔ خطبہ ء استقبالیہ دیتے ہوئے انجمنِ ہلالِ احمر پاکستان گلگت بلتستان کے چیئر مین آصف حسین صاحب نے گورنر صاحب اور تمام مہمانوں کو خوش آمدید اور شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس دن کے پسِ منظر کو بیاں کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا بھر میں ہر سال آٹھ مئی کوریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کامقصد ریڈکراس اینڈ ریڈکریسنٹ کی عالمگیر تحریک کے بانی ہینری ڈؤننٹ کی سوچ اورانسانیت پسندنظریے کوتسلیم کرنا،دکھی انسانیت کی خدمت کے حوالے سے لوگوں میں شعور وآگاہی اجاگرکرنا اور نوجوانوں کے اندر رضاکارانہ جذبے کو فروغ دینا ہے ۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس بننے کے بعد کئی ممالک نے ریڈ کراس اور ریڈکریسنٹ سوسائٹیز بنائیں اور سب کا مقصد ایک ہی خدمت انسانیت ہے۔ اگرچہ خدمت انسانیت کا درس چودہ سو سال قبل ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ نے ہمیں دیا ہے اور قرآن پاک کی یہ آیت ’’ جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا ۔‘‘ اس بات کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے کس قدر محبت فرماتے ہیں۔ آج دنیا بھر کے 187ممالک میں ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کام کر رہی ہیں۔ یہ تمام سوسائٹیز اپنے اپنے ممالک میں نیشنل سوسائٹیز کے طور پر جانی جاتی ہیں اور ملکی قانون کے تحت قائم کی جاتی ہیں۔ انسانی خدمت میں یہ سوسائٹیز اپنی اپنی حکومتوں کی مدد گار ہوتی ہیں اور سات بنیادی اصولوں ، انسانی ہمدردی ، غیر جانبداری ، برابری ، خودمختاری ، رضاکارانہ خدمت ، اتحاد اور عالمگیریت کے تحت کام کرنے میں مکمل آزادہیں ۔ انہوں نے مذید کہا کہ پاکستان میں ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (انجمن ہلال احمر ) 20دسمبر 1947میں قائم ہوئی اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اپنے ہاتھوں اس کی بنیاد رکھی تھی جبکہ گلگت بلتستان میں پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی صوبائی برانچ 20دسمبر 2007کو قائم کی گئی ہے۔
آصف حسین صاحب نے انجمن کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ مجھے اس بات پر انتہائی فخر محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان ریڈکریسنٹ سوسائٹی گلگت بلتستان کی جانب سے اس مختصر عرصے کے دوران علاقائی سطح پر وقوع پذیر ہونے والی مختلف نوعیت کی قدرتی آفات سے متاثرہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو خوراک اوردیگر امدادی اشیاء فراہم کردی گئیں۔ تیس ہزار سے زائدافرادکو صحت کی بنیادی سہولیات باہم پہنچائی گئیں۔قدرتی آفات کے دوران بے گھر ہونے والے 1150خاندانوں کو عارضی گھربنانے میں مدد فراہم کی گئی ۔ جبکہ قدرتی آفات کے آنے سے پھیلی جانے والی وبائی امراض سے بچاؤ کے حوالے سے عوام کوشعور وآگاہی دینے کے لئے خصوصی منصوبے شروع کئے گئے جس سے متاثرین کی مشکلات میں کمی واقع ہوئی۔ اس عرصے کے دوران آٹھ ہزار سے زائد مردوخواتین نے ادارے کے ساتھ خود رضاکار رجسٹرڈ کردیا جس سے علاقائی سطح پر رضاکاروں کاایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہوا۔ ان رضاکاروں میں سے تین ہزار سے زائدرضاکاروں کو ابتدائی طبی امداد اور دیگر شعبوں میں خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی۔ اس مقصدکیلئے ادارے کی جانب سے سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹی سطح پرکلب قائم ہیں جہاں پر ادارے کے ماہرین وقتاً فوقتاً رضاکارانہ خدمت کے حوالے سے یوتھ کلب کے ممبران کو تربیت فراہم کررہے ہیں۔ ہلال احمرگلگت بلتستان کے زیرنگرانی گلگت اور سکردو شہرمیں قائم بنیادی مراکزصحت میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مریضوں کا معائینہ کرکے مفت ادویات بھی فراہم کی جارہی ہیں جبکہ زندگی کے مختلف شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے افرادکو ایمرجنسی ریسپانس اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت بھی فراہم کی جارہی ہے جن میں گلگت بلتستان سکاؤٹس،پولیس ڈیپارٹمنٹ ،ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ،ٹرانسپورٹرزایسوسی ایشنز اور میڈیا کے نمائندے شامل ہیں ۔ اس دوران سخت نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باؤجود ادارے کو ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ادارہ اور اس کے رضاکاروں نے دکھی انسانیت کی خدمت کے کاموں میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ ادرارے کے پاس مالی وسائل کی کمی اور ڈونرز کی جانب سے فنڈنگ کی بندش پر ہمیں ہنزہ نگر اور سکردو سے اپنے دفاتر کو سمیٹنا پڑا ۔ اگرچہ ہمارے اس نیک مشن راہ میں اب بھی بہت ساری رکاؤٹیں حائل ہیں مگر ادارہ اپنے بلند حوصلے اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت ابھی بھی کسی ممکنہ آفت سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے اور ہلال احمرگلگت بلتستان کو کسی حوالے سے بھی under-esitimateنہیں کیا جاسکتا۔
آصف حسین صاحب کی تقریر کے بعد مہمان خصوصی نے اپنے دستِ مبارک سے انجمن کے 20بہترین رضا کاروں کو اُن کی غیر معمولی رضاکارانہ خدمات پر حوصلہ افزائی کے تعریفی اسناد تقسیم کئے۔ مذکورہ رضا کاروں میں احقر العباد بھی شامل تھا۔ رضا کاروں کی اس طرح سے حوصلہ افزائی خدمتِ خلق اور سماجی بہبود کی خدمات کو پر وان چڑھانے میں یقیناًبنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
تقسیمِ اسناد کے بعد مہمان خصوصی گورنر گلگت بلتستان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’دُکھی انسانیت کی خدمت ، انسان دوستی ، انسانیت پسندی اور رضا کارانہ خدمت کا جذبہ بلا شبہ خصلت و عادتِ انبیا ء و اولیا ء ہے ۔ربّ نے مختلف جاندار پیدا کئے ہیں مگر ان سب میں انسان کو اشرف المخلوقات کے اعلیٰ درجے پر فائز کیا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت اور در دمندی نے ہی انسان کو یہ معراج عطا کی ہے۔ رنج و غم میں مبتلا انسانوں کی خدمت بھی عبادت میں شامل ہے‘‘۔ انہوں نے تمام شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ آپ سب اہلِ فکر و دانش اور اہلِ علم ہیں۔ میں آپ سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ سب خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنانے والے لوگ ہیں ۔یہ ادارہ جسے ہلالِ احمر کہا جا تا ہے ،ہلال اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیز ہے جبکہ احمر اس سے بھی زیادہ اہم ہے‘‘۔ دکھ درد بانٹنے کی اہمیت اور اس سے اجر و ثواب حاصل کرنے کے تصور کو انہوں نے ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ’’ ایک فحاشہ عورت کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے بخشی گئی‘‘۔ سید پیر کرم علی شاہ صاحب نے مزید کہا کہ’’ آج ہم آفاتِ ارضی و سماوی کی زد میں زیادہ ہیں۔ اس لئے ایسی صورتِ حال میں خدمتِ خلق پہلے سے کئی گنا زیادہ ضرورت بن گئی ہے۔ ہم نے اپنا دینی اور سماجی فریضہ بھلا دیا ہے آج ہم انسانی فلاح و بہبود سے بہت دور ہیں اور انسانوں کو چڑیوں کی طرح بڑی بے دردی سے مارتے ہیں۔ خدمتِ ہر جان اسلامی فرائض میں شامل ہے لہٰذا ہر ذی روح کی فلاح و بہبود ہماری بنیادی ذمہ داری ہے‘‘۔
انہوں نے یہ مفہوم کہ ’’عبادات کے لئے تو فرشتے اور دوسری بہت ساری مخلوق ہے مگر تخلیقِ انسان کا بنیادی مقصد دردِ دل اور خدمتِ خلق ہے‘‘ کو اس شعر سے واضح کرنے کی کرشش کی۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
گورنر صاحب نے آخر میںآصف حسین صاحب اور ان کی ٹیم کی خدمات کو سراہا۔ تقریب کا اختتام انجمنِ ہلالِ احمر پاکستان گلگت بلتستان کی صوبائی سیکریٹری نو رالعین صاحبہ کے شکر یہ کے کلمات سے ہوا۔ جس میں انہوں نے منیجنگ کمیٹی اور سٹاف کی طرف سے تمام معزز مہانوں اور شرکائے تقریب کو تقریب میں بھر پور شرکت کرنے اور اسے کامیاب بنانے پر ہدیہ تبریک پیش کیا۔ نظامت کے فرائض انجمن کے کمیونیکیشن آفیسر صفدر علی صفدر نے خوبصورتی سے انجام دیے۔
نہیں ہو جس کو محبت خدا کے بندوں سے
کہاں نصیب کہ اللہ سے وہ پیار کرے
(غلام عباس نسیمؔ )