مولانااصلح الحسینی ؒ کے ساتھ ایک ملاقات
الحمدللہ ! اپنے مشاغل کا ایک بڑا حصہ اکابر علماء دیوبند سے ملاقاتیں،ان سے انٹرویوز اور مرحوم اکابرین کی آپ بیتیاں اور سوانح عمریاں پڑھنے اور جن جن سے ملاقاتیں ہوئی ہیں ان کے اوصاف حمیدہ اپنی بے بضاعتی کے باوجود لکھنے کا اہتمام کرتا ہوں۔ اس خو بصورت مشغلے سے اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے اور اکابر کی خدمات بھی کسی نہ کسی پیرائے میں عامۃ الناس تک پہنچتی ہے۔ ان ملاقاتوں میں ایک ملاقات سید الطائفہ حضرت مدنیؒ کے ایک تلمیذ رشید کے ساتھ 14 جولائی 2010ء کو بروز بدھ کراچی میں ہوئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جامعہ فاروقیہ کراچی میں دورہ حدیث میں زیر تعلیم تھا اور ساتھ ساتھ یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیش(ایم اے صحافت) بھی کررہا تھا اور سہہ ماہی خیر کثیر لاہور کے کافی سارے ادارتی کام میرے ذمے تھے، اس لیے اساتذہ کرام سے بڑی اچھی دوستانہ تھی۔
جامعہ فاروقیہ کے شعبہ تخصص فی الحدیث میں ایک نگران استاد تھے۔ ان کا نام مولانا ساجد صدوی تھا۔ میری غیر نصابی یعنی تحریری ایکٹیویٹیز پر وہ بہت خوش ہوتے تھے اور ساتھ ساتھ میری باغیانہ سوچ پر برہم بھی ۔ اکثر و بیشتر مجھے سمجھاتے اور اکابر کی یادگار باتیں بھی سنایا کرتے تھے۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں میں پٹری سے کِھسک نہ جاؤں۔ یہ عصر کا وقت تھا۔ اگلے دن وفاق المدارس العربیہ کے سالانہ امتحانات میں شمائل ترمذی کا پرچہ تھا۔ حضرت مولانا ساجد صاحب نے نماز کے بعد ہاتھ پکڑ کر کہا کہ چلیں ، آج آپ کو ایک ایسے عالم دین سے ملاتا ہوں جو بہت بڑے ادیب، شاعر اور صحافی بھی ہیں۔ حضرت مدنیؒ کے خادم خاص ہیں اور شعر و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اورماہنامہ الجمیعۃ انڈیا میں ادارتی خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ اس سب سے کربڑھ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں ، شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے افکار و نظریات کے امین ہیں اور ان کے مرید خاص بھی۔ اپنے اندر ایک نرم دل رکھتے ہیں۔ امت کے لیے درد ہے ۔ اس متعفن دور میں سیاسی آلائشوں سے اپنے آپ کو دور رکھ کر صرف دعوت و ارشاد کے لیے صرف کر رکھا اپنی زندگی کو۔ میں نے جب یہ سب کچھ سنا تو حضرت سے ملنے کے لیے بے تاب ہونے لگا مگر ظاہر ی تصنع اپناتے ہوئے کہا کہ حضرت کل پرچہ ہے کیا ہوگا ، تیاری کرنی ہے۔ مولانا نے کہا کہ آپ کے لیے کونسا مشکل ہے۔ جو ذہن میں آیا لکھ ڈالو۔ کونسا تم نے سال بھر پڑھا ہے تو آج ایک رات میں پڑھ لوگئے۔ خیر ہم ٹیکسی پکڑ کر حضرت مولانا اصلح الحسینی کی رہائش گاہ گلشن اقبال کی طرف چل پڑے۔ حضرت مدنیؒ کے جن جن تلامذہ سے ملاقاتیں ہوئی تھیں وہ بہت شاندار تھیں۔ دل میں ایک چھپا احترام تھا، اپنی ایک محبت تھی کہ حضرت مدنیؒ کے شاگرد کیسے بے نفس لوگ ہیں۔انہی خیالات میں مگن حضرت مولانا سید اصلح الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی جائے سکونت پر پہنچ گئے۔ اللہ اللہ کیا دیکھتا ہوں کہ جامعہ علوم اسلامیہ علامیہ بنوری ٹاؤں کے استاد الحدیث و نگران تخصص الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی صاحب ایک طالب علم کے ساتھ موٹر سائیکل پر تشریف لارہے ہیں۔میر ی حیرت کی انتہاء نہ رہی کے اتنے ضعیف العمر اور صاحب علم و عمل انسان ایک طالب علم کے ساتھ موٹر سائیکل میں اتنا دور کا سفر کررہے ہیں۔ دل نے گواہی دی کہ یہی اکابر دیوبند کی خصوصیات ہیں۔ علیک سلیک کے بعد ہم سب مولانا اصلح الحسینی کے حجرہِ خاص میں پہنچ گئے۔ بات چیت شروع ہوئی۔ مولانا ساجد صاحب نے حضرت سید الحسینی سے مجھ ناچیز کا اچھا تعارف کروایا اور ساتھ ساتھ دعا کی درخواست بھی کی۔ حضرت نے اپنے کانپتے ہاتھ اٹھا کر اللہ کے حضور دعا کی کہ ’’ اے اللہ ان طالب علم سے دین کا کام لیں‘‘۔ مولانا سید اصلح الحسینی نے اپنے بیتے دنوں کی یادیں معطر کرکے ہماری سامنے رکھ دیں۔ حضرت مدنیؒ کا ذکر کرکے رو پڑے۔ مجھ گناہ گار سے بھی آنسو نکلنے لگے۔ یہ مجلس بہت طویل ہوئی۔ نماز مغرب حضرت کے حجرہ میں مولاناساجد صاحب کی اقتداء میں میں ادا ہوئی۔ حضرت الحسینی صاحب دارالعلوم دیوبند میں گزرے ایام بھی رقت آمیز انداز میں سناتے۔ تحریک ریشمی رومال،جمیعۃ الانصار اور جمیعۃ علماء ہند کی حسین یادیں اب تک ان کے دل و دماغ میں محفوظ تھیں وہ ان تمام اداروں ، پارٹیوں اور شخصیات سے کٹ کر محبت کرنے والے تھے۔ ماہنامہ الجمیعۃ کے حوالے سے کافی ساری باتیں مجھے خصوصی طور پر بتائی تاکہ میں ائندہ عملی صحافتی زندگی میں اکابر کی روش اختیار کرکے راہ مستقیم سے نہ ہٹوں۔ ہمارے اکابر اور اساتذہ کو فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ ان کے پیروکار اور متعلقین دینی علوم کے حصول کے بعد دنیاوی چکا چوند دیکھ کر اپنا اصل مشن اور مطلب چھوڑ کر ،کہیں دور نکل جاتے ہیں۔ اور بسا اوقات اتنا دور نکلتے ہیں کہ واپسی ممکن نہیں ہوتی ہے۔ایک بات میں نے اس مجلس میں خاص طور پر نوٹ کی کہ مولانا سید اصلح الحسینیؒ اپنے باقیات( یعنی اولاد ) کے دنیاوی انداز زندگی اور دین سے دوری پر حد سے زیادہ شاکی تھے۔ اس کا انہیں بے حدسخت قلق تھا۔ مولانا رحمہ اللہ اتنی اچھی اردو بولتے تھے کہ دل کرتا تھا سنتے چلے جاؤ، دوران گفتگو عربی اور فارسی کے اشعار بھی پڑھتے تھے۔ کراچی میں دینی خدمات کے حوالے سے اور مدارس کے کردار کے حوا لے سے بھی بہت خوش نظر آرہے تھے۔ بے راہ روی اور بے حیائی پر دل گرفتہ تھے۔ اور چاہتے تھے کہ علماء کی کوئی زبردست جماعت بے حیائی اور بے راہ وری کے خلاف زبردست تحریک چلائے۔ وعظ و نصیحت کے ذریعے عامۃ الناس میں اس کے نقصانات بیان کریں۔
مولانا اصلح الحسینی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی صاحب ؒ کا ایک واقعہ بھی سنایا۔کہنے لگے کہ’’وہ مدینہ منوراہ میں تھے، علماء وطلباء کا بڑا ہجوم ان سے درس لیا کرتا تھا، ایک دن میں بھی عصر کے بعد ان کی مجلس میں حاضر ہوا۔ اتنے میں حضرت مولانا بنوریؒ تشریف لائے۔ حضرت میرٹھی ؒ نے حضرت بنوری ؒ کو خاص عزو شرف سے بخشا اور ان سے خلوت میں بھی لمبی بات کی۔ مجھے یہ سب کچھ ناگوار گزرا اور دل میں ارادہ کیا کہ آئندہ ان کی مجلس میں نہیں آونگا۔ خیر آخر میں ،حضرت میرٹھی ؒ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں نے آپ کا ٹایم لیا مگرآپ کو زیادہ وقت نہیں دے سکا۔ اگلے دن میں نے اپنے اوپر جبر کر کے ان کی محفل میں حاضری دی۔ وہ صاحب کشف بزرگ تھے۔ اختتام مجلس پر تمام احباب و متوسلین کو رخصت کیا اور مجھے بیٹھنے کو کہا۔ جب سب چلے گئے تو مجھے کہا کہ قریب آجاؤ۔ میں ان کے قریب گیا تو زور سے بھینچا اور اپنے سینے انور کے ساتھ میرا سینہ لگا یا اور عربی میں کوئی وظیفہ پڑھنا شروع کیا ۔ دیر تک پڑھتے رہے۔ پھر مجھ سے کہا کہ وعدہ کرو کہ حرم مبارک کا کپڑا پکڑ کر میرے لیے دعا کریں گئے۔ ان کے اصرار پر میں نے وعدہ کیا اور پھر حرم کا کپڑا پکڑ کر ان کے لیے دعا بھی کی‘‘۔
قارئین ! اس ملاقات کے تیسرے دن بعد میں کراچی سے اپنے گھر روانہ ہوا اور پھر مستقل یہی کے ہو کر رہ گیا۔ دوبارہ اب تک کراچی کا سفر نہیں ہوا ۔ اللہ کا کرنا دیکھو کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آخری آیام میں حضرت مدنیؒ کے ایک تلمیذ رشیدکے ہاتھ چومنے کو ملے اور دعائیں لینے کا موقع ملا۔مولانا سید اصلح الحسینی وہ عظیم انسان ہیں جس سے حضرت تھانویؒ اور حضرت انورشاہ کشمیری جیسے عظیم اولیاء اللہ اور اصحاب علم کی زیارت کے ساتھان کی اچھی صحبت بھی انہیں نصیب ہوئی ہے۔ الحمدللہ فی زمانہ اتباع سنت میں علماء دیوبند کا کوئی ثانی نہیں۔راہ مستقیم اور درست عقائد میں سخت جان ہیں۔زیغ و ضلالت اور نئی نئی فتنوں کا جس کاریگری سے ہمارے اکابر دفاع کرتے آئے ہیں اس کا مظہرکہیں نہیں ملتا۔دیوبند کے ایک ایک تربیت یافتہ کی اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ہرمیدان میں ناقابل فراموش خدمات ہیں۔دین اسلام کو غلبہ دین یعنی لیظہرہ علی الدین کلہ کے لیے یہ حضرات ہمہ دم میدان عمل میں رہتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کا علمی، دینی، اصلاحی ، تبلیغی اور جہادی فیضان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اس کا ہر ہر تربیت یافتہ تحریک کا درجہ رکھتا ہے۔ مولانا اصلح الحسینی ؒ بھی اسی فیضان کا ایک حصہ تھے۔ حضرت والا کا انتقال ہوچکا ہے۔ ہم جیسے گناہ گار لوگوں کے لیے حضرت اصلح الحسینی رحمہ اللہ کا وجود ایک مشعل کی طرح تھا۔ وہ اللہ کے پیارے ہوچکے ہیں۔ اللہ انہیں علین میں اپنے اخص الخاص لوگوں میں جگہ دے اورہمیں بھی ان بزرگوں کی طفیل سے معاف فرما دے۔ آمین یارب العالمین