کالمز

ڈیموں کی تعمیر اورخطے کا مستقبل

ہمارے حکمران بھی عجیب ہوتے ہیں جو ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں سیاسی مفادات کی خاطر دوست بدل دیتے ہیں ذاتی مفاد کی خاطر قوم کو دھاو پر لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔سیاست بڑا ہی ظالم ہے جس میں حکمران طبقے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُنہیں کونسا کام کس طرح اور کیسے کرنا ہے حاکمیت کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنی سوچ کو عوام پر جبری مسلط کر دیں عوامی ملیکت کو عوام کی مرضی کے بغیر قومیانے میں لیں اسے ظلم تو کہا جاسکتا ہے ملک اور عوام دوست حکمران کبھی نہیں۔جب ہم نے ہوش سنبھالا تومختلف جرائد اوررسالوں میں دیکھتے اور پڑھتے تھے کہ کالاباغ ڈیم بنانے کیلئے فلاں نے قراداد پیش کیا فلاں نے مخالفت کی فلاں نے اسمبلی میں جھگڑا کیا وغیرہ وغیرہ۔اُس وقت چونکہ ہم اسطرح کی خبروں کے بارے میں ذیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے لہذا خبرکی حد تک توجہ دیتے تھے لیکن جب تھوڑا عقلی طور پرشعور آیا تو معلوم ہوا کہ ایک ڈیم ہے جسے بنانے کی کوشش جاری ہے اور اُس ڈیم کے بننے سے پاکستان میں بجلی اور پانی کی قلت ختم ہوسکتا ہے لیکن صوبہ سندھ والے اس منصوبے کی مخالفت میں احتجاج کو جہاد سمجھ کر رہے ہیں کیونکہ بقول انکے اس ڈیم کی تعمیر سے سند ھ میں پانی کی قلت ہوگی حالانکہ ایسا نہیں ہوتا جب ڈیم بن جائے گا تو لازمی بات ہے کہ پانی کے مسلے پر بھی کو حکمت عملی طے ہوسکتا ہے لیکن بضد ہے کہ کبھی بھی کالا باغ ڈیم بننے نہیں دیں گے۔

my Logoبڑے عجیب حکمران اور سیاست دان ہے جو اپنے آئینی صوبے میں قومی ضرورت کے پیش نظر ذرا سی بھی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں اور پانی کی کمی کا شدت سے احساس ہے لیکن آپ سب ملکر ایک ایسے خطے کو ڈبونے کی تیاری میں ہے جو آج بھی قانونی طور پر آپکی ملکیت ثابت نہیں۔اس خطے کے عوام پچھلے 67سال سے چیخ رہے ہیں کہ ہمیں یا تو مکمل پاکستانی تسلیم کیا جائے اگر ایسا ممکن نہیں تو ہمیں 1948کی حیثیت پر بحال کریں لیکن کوئی سُننے والا نہیں۔تعجب کی بات ہے جب اس خطے کی ترقی اور تعمیر کے حوالے سے کوئی بات ہوتی ہے تو یہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان چونکہ اقوام متحدہ کے قوانیں کی روشنی میں متنازعہ ہے لہذا اس خطے کو مکمل طور پر پاکستان کا حصہ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے ہم قربان جائے ایسے دلیلوں پر جو صرف عوام کو سیاسی حقوق دینے کی بات کرنے پر یاد آتے ہیں لیکن جب یہاں کے وسائل پر قبضے کی بات آجائے تو فورا پاکستانی سمجھا جاتا ہے کیا ریاست اور عوام دو الگ چیز ہے؟ بلکل نہیں ریاست اور عوام لازم اور ملزوم ہے ۔

آج ہم حکومت پاکستان کے موقوف کی تائید کرتے ہوئے حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ کس قانون کے تحت آپ ایک متنازعہ خطے میں عوام کی مرضی کے بغیر ڈیم بنانے جا رہے ہیں؟ سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بدل چکی ہے. اب پتھرمیں رہنے والے لوگ بھی اپنے حقوق کی حدود کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس طرح کالا باغ ڈیم بننے سے سندھ کو تکلیف ہے اس سے کہیں ذیادہ دیامر اور داسو ڈیم کے بننے سے گلگت بلتستان کے عوام کو ہوگی یہاں کے عوام اس خدشات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ حیثیت کا تعین کئے بغیر کسی بھی قسم کا ڈیم بنانا گلگت بلتستان کو ڈبونے کی سازش کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم خطے کی آبادی پر نظر دوڑائیں تویہاں کی آبادی کا تقریبا پچاس فیصد حصہ دریاے سندھ اور مختلف دریاوں اور ندیوں کے کنارے آباد ہے کئی گاوں دیہات ایسے بھی ہے جو پانی کی سطح سے نیچے آباد ہونے کے سبب آج بھی گرمیوں کے موسم میں زیر آب آجاتے ہیں۔اسی طرح مختلف علاقہ جات اور جنگی محاذ کو جانے والے سارے راستے بھی عین دریا کنارے سے گزرتی ہے۔

اگر ہم دیامر کا صدر مقام چلاس اور بلتستان کا صدر مقام سکردو کی بات کریں تو یہ دو شہر دریاے سندھ کی سطح سے نیچے آباد ہے سکردو آئرپورٹ اور ملٹری ہیڈکوراٹر بھی عین دریا کنارے آباد ہے۔اسی طرح ہزاروں کنال زرعی اراضی اور لاکھوں کی تعداد میں پھل دار اور غیر پھل داردرختیں کھرمنگ اولڈینگ بارڈر سے لیکر دیامر تک عین دریا کنارے آباد ہے جوکہ ڈیم کے بننے کی صورت میں ملیامیٹ ہوسکتا ہے یوں یہاں کے عوام کبھی نہیں چاہئے گا کہ کچھ قریب کے لوگوں معاضے دیکر اگلے پچاس میں میں گلگت بلتستان کی پچاس فیصد آبادی کا نام نشان بھی باقی نہ رہے ۔ یہاں کے عوام جو کل تک اس دھرتی کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی نہ ملنے پر رو رہے تھے آج خطے کی بقاء کیلئے رونا بھی ہمارا مقدر بن جائے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں لہذا حکومت کو چاہئے کہ ڈیم بنانے سے اگر پاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے تو جہاں پر ڈیم بنایا جارہا ہے اور اس ڈیم کے بننے کے نتیجے میں جو کئی ہزار کلومیٹر متاثر ہونگے اس پر بھی جامع منصوبہ بندی بنائیں پختونخواہ کے کچھ لوگوں کو معاوضہ دیکر کر گلگت بلتستان کو ڈبونے کیلئے دیوار لگانا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔لہذا یہاں کے عوام توقع کرتے ہیں کہ صرف وسائل پر قبضہ ہونے کے بجائے اس خطے کو سیاسی حقوق اور بنیادی ضروریات کو پیش نظر رکھنا بھی حکومت وقت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے ۔ جس طرح سندھیوں کو سندھو دیش سے پیار ہے پنجابیوں کو گریٹر پنجاب پر فخر ہے تو اس دھرتی کے عوام کو بھی گلگت بلتستان کی ایک ایک انچ سے اتنا ہی پیار ہے کیونکہ اس دھرتی کو ہمارے آباو اجداد نے اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہے. لہذا یہاں کے عوام اس دھرتی کے بقاء کی ضامن ہے عوام کبھی نہیں چاہے گا کہ اس دھرتی کو جس طرح ماضی میں سازش کے تحت مسلہ کشمیر کے ساتھ جوڑ دیا تھا بعد میں کثیر رقبہ چین کو گفٹ کیا اور آج ڈیمز کے نام پر اس دھرتی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش کریں ۔جس طرح عوام کی مرضی کے خلاف یہاں کے رقبہ جات دوست ملک کو گٖفٹ کرنے کا اختیار ہے تو عوام کو سیاسی حقوق دینے کا اختیار کیوں نہیں؟

اگر کے ٹو پاکستان کی شان، سیاچن پاکستان کی پہچان، قراقرم پاکستان کی نشان ہے تو یہاں کے عوام اور عوامی مسائل پاکستانی حکمرانوں کی نظر سے کیوں اوجھل رہتے ہیں؟ سوچنے والی بات ہے۔ایسی ہیسیاسی نذراندازی کے سبب آج بلوچستان میں آذادی کی تحریک چل رہی ہے لیکن گلگت بلتستان کے عوام آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مکمل پاکستانی مان لیا جاے کیونکہ پاکستان کے بقاء کی ہر جنگ میں ہمارا خون شامل ہے ہمارے جوانوں نے ہر محاذ پر ہر لحاظ سے بہادری کے جوہر دکھاتے رہے ہیں پاکستان کو جب بھی ضرورت پڑییہاں کے عوام سب سے پہلے لبیک کہہ کرسامنے آیا ہے لہذا اب یہ ظلم کا سلسلہ بند ہونا چاہئے کیونکہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اس خطے میں بھی علحیدہ پسند قوتیں آخری اُپشن کو استعمال کرنے کیلئے حرکت میں آچکی ہے لہذا وفاق پاکستا ن کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔گلگت بلتستان کو ڈبونے کی سازش کرنے کے بجائے اس خطے کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔امید کرتے ہیں کہ ارباب اختیار اس اہم ایشوپر عوامی ضرورت ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button