کالمز
جشنِ یومِ امامت
تحریر: الواعظ نزار فرمان علی
’’پاک ہے تمہارا پروردگار جو عزتوں کا پالنہار ہے ان تمام صفات سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں‘‘ (القرآن)
خدائے رحمان و رحیم کے لطف وکرم سے آج بین الاقوامی سطح پر شیعہ امامی اسماعیلی مسلم جماعت اپنے محبوب رہبر و مرشد حضرت نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام کا 57 ویں یومِ امامت عقیدت و احترام اور عشق و محبت سے منا رہے ہیں،نہایت سادگی و تواضع سے منائے جانے والے یوم مبارک کے سلسلے میں جماعت خانوں میں ایمانی و عرفانی مجالس کا انعقاد ہوتاہے،جہاں پر فرض نماز و عبادات کی ادائیگی کے ساتھ قرآنی آیات و سورتوں کی تلاوت،حمد،نعت اور منقبت گوئی، اجتماعی طور پر خصوصی تسبیحات و دعاؤں کا ورد،وعظ و نصیحت ،قرآن و سنّتِ محمد و آل محمدﷺ کی روشنی میں مرید کی زندگی میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی اہمیت خاص طور پر خاندان،معاشرے ملک و ملت اورانسانیت کیلئے خیر اندیشی و بھلائی کے اسلامی فریضے کو تروتازہ کیا جاتاہے۔نیک انسان اور بہترین مسلمان بننے کے عزم و عہد کی تجدید ہوتی ہے۔پاکستان،عالم اسلام اور پوری انسانیت کی مشکل آسان،سکھ سلامتی،آبادی اور خوشحالی کیلئے دعا بہ درگاہ ربِ ذوالجلال مانگی جاتی ہیں۔مولانا حاضر امام کے فرامین پڑھے جاتے ہیں جس میں دور جدید کے مادی ،سماجی،معاشی ،صنعتی اور اخلاقی دباؤ اور اس کے اثرات سے اپنی مسلم تشخص کی سا لمیت کے ساتھ دانشمندی،بردباری اور ملی جذبے سے نبرد آزما ہونے ،دین و دنیا کی ناقابل تقسیم اسلامی حقیقت کے ضابطوں کو اپنی پوری زندگی پر وسعت دے کراللہ کی تائید و خوشنودی کے قابل بننا ہے.
آج سے تقریباً57 سال قبل امام سلطان محمد شاہ آغاخان سوئم کی وفات کے تیسرے روز آپ کا وصیت نامہ(Will) پڑھا گیا اور باقاعدہ طور پر پرنس کریم آغاخان کی امامت کا اعلان کیاگیا ۔اس تاریخی وصیت نامے میں سر سلطان محمد شاہؑ آغاخان سوئم فرماتے ہیں ’’ہمارے جدِامجد حضرت علی ؑ ،امامِ اول کے وقت یعنی پندرہ سو سال سے لے کر یہ ہمارے خاندان کی روایت رہی ہے کہ ہر امام بغیر کسی مزاحمت اور اپنے قطعی اختیار سے اپنی اولادمیں سے خواہ وہ اُس کے فرزند ہوں یا دور کی نرینہ اولا ہو اپنا جانشین منتخب کر تا ہے ہم اپنے پوتے کریم جو ہمارے فرزند علی سلمان خان کے بیٹے ہیں ان کو آغا خان کے لقب اور اپنے شیعہ اسماعیلی مریدوں کے امام اور پیر کی حیثیت سے جانشین بننے کے لئے نامزد کرتے ہیں۔پھر فرمایا (مفہوم)تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور اس میں ہونے والی ایٹمی دریافتیں بھی شامل ہیں جماعت کو ایسی نوجوان لیڈرشب دینا چاہتا ہوں جس کی حالیہ جدید دور میں پرورش و تربیت ہوئی ہو جواپنے منصب میں بحیثیت امام زندگی کا ایک جدید نقطہ نظر لائیں‘‘۔تخت نشینی کی یہ روح پرور تقریب جینوا میں برکت وِلا میں انجام پزیر ہوئی جہاں پر مریدوں کو اپنے پیارے حاضر امام کی پہلی باربیعت کا شرف حاصل ہوا ، اس پُر وقار تقریب میں آپ کے والد پرنس علی سلمان خان اور ماتا سلامت اور دنیا کے مختلف حصوں سے جماعتی لیڈران بھی موجود تھے۔تخت نشینی کا جشن جہاں کہیں بھی منعقد ہوا ان تمام مسرت انگیز مواقعوں پر آپ کو اسماعیلی اماموں کی تاریخی روایات کے مطابق قرآن شریف، امامت کی مہر دار انگوٹھی ،تلوار اور جُبہ پیش کیا گیا تھا،گلوبل جماعت،مسلم دنیا اور عالمی شخصیات کی طرف سے اس دن کے حوالے سے مبارک بادی کے پیغامات بھیجے گئے۔
منصب امامت کے57 سال اور عمر گرانمایہ کے 78 سال اورعمر کے اس حصے میں داخل ہونے والوں کو پیش آنے والی طبعی مشکلات و مزاحمتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ماشااللہ اتنی طویل عمری میں بھی روزانہ 18 سے20 گھنٹے کام کرتے ہیں اور یہ معمول تخت امامت پر متمکن ہونے سے آج تک بلا تعطل جاری ہے ۔آپ کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ فرانس ایگلیمونٹ میں موجوداپنے (مسلم) و دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں سٹاف ممبرز،امام کی انسانیت کے بلا امتیاز فلاح و بہبود کے منصوبوں/ کامو ں میں گہری دلچسپی،انہیں نمٹانے کی غیر معمولی بصیرت اور پرو ایکٹیونس سے بے پناہ متاثر ہیں۔ان کے مطابق آپ کھاتے صرف جینے کیلئے آپکی ہر سانس آس سے بھرپور،آپ کا ہر فیصلہ اور قدم کاروان انسانیت کے لئے منشور، ملتے ہیں ملانے کیلئے،اُٹھتے ہیں سنوارنے کے لئے،جب کوئی آپ سے پہلی بار ملاقات کرتے ہیں تو آپ کے گرویدہ بن جاتے ہیں،آپ کی اپنوں پرائے ،دوست ومخالف ، جانے انجانے ایسی کوئی پریفرنس لسٹ پر یقین نہیں رکھتے ہاں البتہ کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو اگر وہ امت و انسانیت کی بلا تفریق خدمت کا جذبہ رکھنے والے مشہور و غیر معروف شخصیات/ ادارے کو داد و امداد دینے کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کو عبادت سمجھنے کا عملی مظاہرہ دیکھیں جب آپ کے سماجی بہبود کے حوالے سے گوناگوں مصروفیات کو دیکھ کر کئی مشہور شخصیات اور بین الااقوامی چینلز نے دریافت کیا کہ آپ آرام و سیر و تفریح کے لئے کہاں جانا پسند کرتے ہیں تو آپ نے مسکراتے ہوئی یہی فرمایا کہ امام کی زندگی میں کوئی ویکنڈ ، ہولی ڈے اور ویکیشن کا کوئی تصور نہیں ہے۔ میں وقت کے قیمتی سرمائے کو زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کے امور میں صرف کرنے میں مسرت و اطمینان محسوس کرتا ہوں۔بلا شبہ سادگی و میانہ روی آپ کا شعار صداقت و دیانت آپ کی پہچان،فیاضی و فراغ دلی آپ کی عادت ،علم دوستی و علم پروری آپ کا ذوق، رواداری و روشن خیالی آپ کا اپروچ ،قابلیت و اہلیت پسندی سے محبت،ایمان و عرفان آپ کا میزان اورخدمت انسانیت آپ کی زندگی کابڑا ایجنڈا ہے۔
منیجمنٹ کی دنیا میں کامیابی کے کئی رہنماء اصول بتائے گئے ہیں جن میں سے ایک اہم اصول win/win اور win/loss پالیسی کا ذکر ملتا ہے۔پہلی صورت میں ہم بھی جیتں اور آپ بھی جیتں دوسرے اصول کے مطابق آپ ہارے اور ہم جیتں گے اس پالیسی کو بہتر نہیں سمجھا جاتا ہے۔ایک تیسری قسم بھی loss/win ہے ۔شاید اس کا ایک اخلاقی پہلو یہ بھی نکل سکتا ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڈ پر امن اورمفاد عامہ کی خاطر اپنا حق چھوڑ کرنقصان بھی برداشت کرلو اور سامنے والے کو فائدہ اور راحت پہنچاؤ ۔حاضر امام نے تاریخ کے کئی اہم موڈ پر ایسے مشکل فیصلے نہایت اطمینان سے اُٹھائے ہیں یعنی جب کبھی آپ کے مریدوں کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک ،مذہب،یا مسلک کے ساتھ مفادات کا ٹکراؤ ہوا ہے تو ایسے کٹھن موقعوں پر یہی ہدایات مریدوں کو ملی ہے کہ ا پنے مفاد کو دوسرے کے مفاد کی خاطر قربان کر دو۔ یہ شاندار روایات اور اعلیٰ اخلاقی اقدار آپ کو اپنے اسلاف سے وراثتاً ملی ہیں ،بلخصوص حضرت نبی کریم ﷺ و آئمہ اطہارؑ کی روشن زندگیوں سے عیاں ہے۔جیسا کہ تاریخ اسلام میں صلح حدیبیہ،میثاقِ مدینہ اور مکی و مدنی زندگی میں کفار کے غیر انسانی رویوں پر حضرت محمدﷺ کا برداشت،عفو ودرگزر،دعائے خیر و حسن سلوک ساری انسانیت کیلئے مثالی اسباق ہیں۔ویژن کیا ہے اور قوموں کی زندگیوں میں اس کا کیا کردار ہوتاہے۔آپ مستقبل میں اپنے آپ کو کہاں دیکھتے ہیں ،جس نقطہ عروج تک آپ کو پہنچنا ہے وہاں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے آپ کا مکمل لائحہ عمل جس میں منصوبہ بندی،درکار وسائل اور اس پر عمل درآمد اور باربار جانچنا پرکھنا ویژن کے اہم پہلو ہیں۔مقاصد زندگی کا حصول ویژن سے وابسطہ ہے یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتاہے۔کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے عمل سے عاری ویژن دن کو خواب دیکھنے جیسا ہے جبکہ ویژن بِنا عمل کے فقط وقت گزاری ہے۔جب دونوں پہلو آپس میں ملتے ہیں تو زندگی کے مطلوبہ اہداف حاصل ہوتے ہیں۔لہذا کوئی بھی فرد یا معاشرہ اپنے ویژن کی بنیاد پر اپنے روشن مستقبل کو یقینی بنا سکتاہے۔ویژن ایک ایسا وعدہ یا لائن آف ایکشن ہے جو زندگی کے ہرمعاملے میں بہتر سے بہترین کی طرف بڑھنے کیلئے پُرامید،باہمت اور سراپا جدوجہد کی تصویر بننے کا تقاضا کرتا ہے۔جی ہاں عظیم روحانی پیشوا کی ا سی ویژن اور ایکشن سے لبریز تعلیم و تربیت کا اثر تھا جس نے جہالت،غربت،بھوک ،افلاس ،بیماری ،افراتفری و بے چینی کے سیاہ بادلوں میں چھپے ہوئے مریدوں کو جہانِ تازہ عطا کردیا،بکھرے ہوؤں کو یکجا،منقسم اکائیوں کو مضبوط اانتظامی و اداراجاتی ڈھانچے میں پرو دیا ،انفرادیت کے خول میں مقید لوگوں کو آنریری سروس کی راہ پر لگا دیا،انتقام کا اختتام اور مخالفت کو مسابقت میں تبدیل کر ڈالا۔عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کی تمام ناگزیر سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی جس کا عملی مظاہرہ تمام جماعتی و امامتی اداروں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کا متحرک ہونا شامل ہے۔مگر اس آزادی کو اسلامی اخلاقیات سے مشروط کر دیا،دین اسلام کے اخلاقی قدروں کو مشعل راہ بناتے ہوئے وہ اپنی صلاحیتوں کو کسی بھی پلیٹ فارم پر بروئے کار لا سکتی ہیں۔
یہ آپ کے سایہ عفت اور پیار بھری دعا و برکات کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی آپ کے مرید بستے ہیں وہاں کی حکومتیں اور معاشرے ان کی موجودگی کو نیک شگون اور اپنی سلامتی ،بقاء اور ترقی و خوشحالی کا ضامن سمجھتے ہیں۔خدا کی مہربانی سے یہ سارا کریڈٹ شفیق و مہربان روحانی پیشوا حاضر امام کو جاتا ہے جو دریا دلی میں بہت کچھ دے کر بھی خاموش رہتے ہیں،اسی لئے تو مشہور پاکستانی ادیب و دانشور نے ’’دنیائے اسلام کا خاموش شہزادہ ‘‘آپ کی شان میں تحریر کی۔
جناب جمشید خان دکھی ؔ کے خوبصورت اشعار سے اختتام کرتا ہوں
ظلمت کدوں میں شمع فروزاں ہے شاہ کریم
اہل وطن پر کتنا مہربان ہے شاہ کریم
گلشن کی ارتقاء میں بڑا اِن کا ہاتھ ہے
سچ پوچھئے تو جانِ گلستان ہے شاہ کریم