محترمہ سعدیہ دانش کی خدمت میں۔۔۔
چھٹی کا دن تھا ، دوستوں نے گورو جگلوٹ یا کارگاہ کی طرف جاکر ہوا خوری کرنے کی ٹھان لی لیکن میں جوٹیال نالہ کے حق میں بضد ہوا تو سبھی مان گئے اور چل پڑے۔ سرینہ چوک سے تھوڑا اوپر پانی کی بڑی ٹینکیوں کے پاس سے گزرتے ہوے آگے بڑھے، اور پھر …. ایک عذاب میں داخل ہوگئے وہ بھی موٹر سائیکلوں پردو دو بندوں کی سواری اور پھر سخت چڑھائی۔ ۔۔۔خیر یہ سب کچھ تو برداشت ہوا مگر آگے آگے جب تیز دھار پتھروں والی سڑک کے درمیان سے بے لگام پانی کا بہاودیکھ کر موٹر سائیکلیں بھی بے بس ہوگئیں. پھر کچھ دوستوں کو اتر کر پیدل مارچ کرنا پڑا۔ تھوڑا اور اپر جاکرجوٹیال نالے کی اصل خوبصورتی، اوپر سے نیچے کی طرف جوٹیال کی شہری آبادی اور پار دنیور اور اوشکھنداس کا نظارہ شروع ہوا تو کچھ دوستوں نے کہا بس بہت ہوگیا یہی پر ہی پکنک مناکر واپس مڑتے ہیں مگر رحمت اور ایوب چیئرمین نے سب کو لالچ دلایا کہ اصل پکنک پوئنٹ تو آگے ہے جسے دیکھے بغیر واپس مڑنا ممکن ہی نہیں۔ وہاں سے آگے راستے کی حالت مذید ناگفتہ بہہ اور کوئی خاص سڑک کا تعین بھی نہیں تھا پھر بھی سب دوست مان گئے اور اپنے لئے صاف اور محفوظ راستہ تعین کرنا شروع کردیا۔ جوں جوں ہم آگے کی طرف چل پڑ ے نالے کی خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مقامی وغیر مقامی سیاح بھی جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں نالے کے ٹھنڈے پانی، تازہ ہوا اورپرسکون ماحول سے لطف اندوز ہوئے نظر آئے۔ کوئی تازہ فروٹ، کوئی کولڈڈرنکس اور کوئی خالی ہاتھ خوش گپیوں میں مگن تو کوئی اس خوبصورتی کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے میں مصروف تھے۔ ایک جگہ قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کے اساتذہ کا ایک گروپ ہمارے ہردلعزیز استاد راجہ مشتاق صاحب کی قیادت میں دیکھائی دیا تو دوسری جگہ گوجال سے رکن قانون ساز اسمبلی جناب مطابعیت شاہ صاحب بھی اپنی فمیلی کے ہمراہ اس پرسکون ماحول اورٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں سے انجوائی کررہے تھے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے لوگ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر وہاں پر موجود تھے۔ رحمت وہ جگہ دکھانے کے لئے سب سے آگے تھا، میں درمیان میں اور اکبر آخر میں جبکہ متاخان اور ایوب خراب راستے کی وجہ سے پیچھے سے پیدل آرہے تھے۔میں راستے میں مسلسل چیختا چیلاتا رہا کہ راستہ خراب ہے اور شام ہورہی ہے مذید آگے نہیں جانا لیکن رحمت سننے کے لئے تیار نہیں تھا یوں بالاخر اس جگہ پہنچ گئے۔ جگہ تو بظاہر چھوٹی سی تھی، لیکن اردگرد کی خوبصورتی دیکھ کردل کو بہت اطمینان حاصل ہورہا تھا۔ وہاں پر موجود ایک دیسی نما بیلی پل دیکھ کر مجھے اپنا آبائی گاؤں بہت یاد آیا۔ پل سے اس طرف خوبانی کا ایک درخت تھا اور لوگ اس درخت سے خوبانی اتار کر کھا رہے تھے جبکہ پاس ہی ایک چھوٹا سا جنگل، گھاس، مکئی کی فصل اور ندی کے گنگناتے جھرنے علاقے کی خوبصورتی میں نکھار کا سبب بنے ہوئے تھے۔ ایسے میں ہم جیسے لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگوں کو وہی سے واپس لوٹنے کو دل ہی نہیں کررہا تھا.
بس بڑی مشکل سے واپسی پر بائیکس کے قریب پہنچے تو رحمت کی بائیک کا ٹائر پنکچر ہوا تھاپھر تو سب کی بولتی بند ہوگئی اور مجھے اور رحمت کو ہی کوسنا شروع کردیا کہ تم لوگوں نے ہمیں یہاں تک لے آیا اب تم جانے تمہاری بائیک کا پنکچر جانے۔یوں بے چارے رحمت کو وہاں سے موٹر سائیکل کو ڈیکس پر دھکیل کر پبلک چوک جوٹیال لے آنا پڑا اورہوسکتا ہے ہمیں جوٹیال نالے کی طرف جانے والی سڑک کی پختگی تک دوبارہ اس طرف جانا ہی نہ پڑے لیکن گرمیوں کے موسم میں ہم جیسے ہزاروں لوگ دوستوں، عزیزوں اور فیملیز کے ہمراہ اوٹنگ کے لئے وہاں کا رخ ضرور کیا کرینگے اور بہت ساروں کو ہماری طرح ان مشکلات سے گزرنا بھی پڑتا ہے لیکن کیا ان سب لوگ ایک دفعہ اس علاقے کا وزٹ کرکے آئندہ کے لئے کبھی ایسی جگہ جانے سے توبہ کرنے کا نام سیاحت کہلائیگا کیونکہ میں وہاں پر موجود بہت سے لوگوں اور خاص طورپر غیرمقامی افراد سے ملا اور ان سے سیاحت کے حوالے سے جوٹیال نالہ کی اہمیت سے متعلق متعدد سوالات پوچھے تو سب نے اس علاقے کو سیاحت کے حوالے سے منفرد قراردیتے ہوئے ذرائع آمدورفت کی سہولیات کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا۔
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف ہم گلگت بلتستان کی خوبصورتی اورقدرتی وسائل پر فخر محسوس کرتے ہوئے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو اس علاقے سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دیکرخود کو معاشی لحاظ سے مستحکم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز بننے والے مقامات کی طرف جانے والی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر خود اپنے ہاتھوں سے علاقائی سیاحت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم دیوسائی، درکوت،شگر،بابوسر، ننگاپربت، فیری میڈوز،پھنڈر،چپورسن،پھسویا اس طرح کے اور دوردراز سیاحتی مقامات کی بات نہیں کرینگے کیونکہ ان علاقوں تک سیاحوں کے لئے جدید سہولیات بہم پہنچنا اور ملکی وغیر ملکی سیاحوں کے جان مال کے تحفظ کے لئے سیکورٹی کے فول پرف انتظامات کرنا کم ازکم موجودہ صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں کیونکہ مہدی شاہ سرکار اس ازمائش میں پہلے ہی فیل ہوچکی ہے جس کی مثال سانحہ نانگاپربت، لولوسر اور دیگر دلخراش واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔لیکن جوٹیال نالہ، کارگاہ، برمس ،نلتر،راکاپوشی ویوپوائنٹ،ہینزل،ہوپر غذر، شنگریلا، استک نالہ اور دیگر ایسے پوائنٹس پر تھوڑی سی توجہ مرکوز کرکے ان پوائنٹس کو سیاحوں کا مسکن ضرور بنا یا جاسکتا ہے جو صوبائی وضلعی دارالخلافوں سے محض چند ہی فاصلے پر واقع ہیں اور اس کے لئے کوئی بھاری رقم بھی درکار نہیں متعلقہ حلقے کا ایم این اے اس طرح کی سکیمیں آسانی سے اپنے بجٹ میں رکھ سکتا یا سکتی ہے۔
ہمیں اگر سیاحت کی ترقی کے لئے کام کرنا ہے تو اس کے لئے سب سے پہلے ان علاقوں کی طرف جانے والی رابطہ سڑکوں کو شیشہ کی مانند صاف تعمیر کرنا ہوگا تاکہ ہرکوئی آسانی اور خوشی کے ساتھ ان علاقوں کی طرف جانے پر آمادہ ہوسکے۔ دوسری فرصت میں ان پوائنٹس پر چھوٹے چھوٹے ہوٹلز اور گیسٹ ہاوسز تعمیرکرکے وہاں پر اعلیٰ کوالٹی کی بنیادی ضروری اشیاء کی فراہمی اور صفائی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کویقینی بنا نے کے لئے اقدامات کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ان پوائنٹس کی ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھر پورتشہیر کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے اور علاقائی سیاحوں کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کے لئے ان پوائنٹس پر مقامی کلچر شوز،فیسٹولز اور نمائشی سٹالز کا اہتمام کرنے کے ساتھ سائن بورڈز، بل بورڈز ، سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیااوردیگر طریقوں سے ان کی بھرپور تشہیر کا بندوبست کیا جائے پھر یہ پوائنٹس ٹورسٹ ہبز کہلائیں گے اور ان معقول امدن کا حصول اور علاقائی سیاحت کی ترقی کی امیدیں وابستہ رکھی جاسکتی ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ان حکمرانوں سے ساڑھے چار سال کے اس عرصے کے دوران کرپشن اور لوٹ مارکے علاوہ اس طرح کا کوئی کام سرانجام دینے کی توفیق ہی نہ ہوئی جس سے علاقائی سیاحت پر مثبت اور دیرپا اثرات مرتب ہو سکیں۔ ایسے میں اکیلی محترمہ سعدیہ دانش صاحبہ آخر کہا تک بھاگ دوڑ کریگی۔ اس بے چاری نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے دور میں سیاحت کی ترقی کے لئے جس حد تک تگ ودو کیا وہ ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے۔جنہوں نے اہم سیاحتی مقامات کی عالمی سطح پر تشہیر، اہم ایونٹس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کیلنڈر آف ایونٹس ترتیب دینے اور انٹرنیشنل سلک روٹ فیسٹول کے کامیاب انعقاد جیسے اقدامات کئے۔ تاہم اقتدار کے ان آخری ایام میں میری محترمہ سے یہ گزارش ہے کہ وہ جوٹیال نالہ کی طرف جانے والی سڑک کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنے حلقے میں دیگر رابطہ سڑکوں کی مرمت کے لئے اقدامات کرکے مسائل کے شکار افراد کی دعائیں حاصل کریں۔
نوٹ۔ گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے میرے کالم ’’ بروشاسکی زبان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ‘‘ میں عبدالحمید خان کے خاندانی تعارف میں غلطی سے یہ تحریر ہوا تھا کہ حمید خان کے خاندان یعنی’’ غولبشیرے اور ہیلبتنگے‘‘ خاندان کی ایک نسل یاسین سے جا کر پھنڈرمیں بھی آباد ہوئی جو حلیمے کہلاتے ہیں۔ اس پر یاسین بھرکولتی اسی خاندان کے وارث و مشہور و معروف طبیب محترم سلطان حاضر صاحب اور ہندور کے نوجوان شاعر بشارت شفیع صاحب اور خود حمید خان صاحب نے یہ کہہ کر اصلاح کرائی کہ ان کے خاندان کا نہ کوئی فرد پھنڈر جاکر آباد ہوا ہے اور نہ پھنڈر میں حکیمے نام کی قومیت سے ان کا کوئی رشتہ و تعلق ہے البتہ پھنڈر کے حکیمے خاندان کے ساتھ ان کی رشتہ داریاں ضرور ہیں۔ لہذا میں اس اصلاح پر محترم سلطان حاضر صاحب، بشارت شفیع صاحب اور عبدالحمید خان صاحب کا انتہائی مشکوروممنون ہوں۔
Boht khub lala…..very nice