مشکوک آزادی
ایک وقت تھا جب گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پاکستان کا یوم آزادی جو ش و خروش کے ساتھ منایا جاتا تھا۔اس وقت میڈیا تک ہر عام و خاص کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام 14اگست کو آزادی کا دن سمجھتے تھے یہ وہ وقت تھا جب لوگ گھروں اور دکانوں کو سجانے کے لئے خود پاکستانی جھنڈیاں خریدتے تھے بہت کم لوگ ایسے بھی تھے جو چودہ اگست کے بجائے یکم نومبر کو آزادی کا دن تصور کرتے تھے ۔
زمانہ کے ساتھ ساتھ حالات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔میڈیا آیا لوگوں نے اپنے زاتی زندگی سے نکل کر ملکی صورتحال پر غور کرنا شروع کیا۔سوشل میڈیا میں نوجوانوں کو بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا جو اس فرسودہ تعلیمی نصاب میں پی ایچ ڈی کرنے سے بھی نہیں ملتا۔گلگت بلتستان کی عوام بالخصوص نوجوانوں نے پاکستانی ریاست اور اس کی سیاست کو بغور مطالعہ کیا قاعدہ کلاس سے لیکر ماسٹر ذ دگری حاصل کرنے تک ان کو اپنا وجود کہیں نظر نہیں آیا ۔1956سے لیکر 1973کے آئین تک ان کا نام و نشان کا وجود نہیں تھا۔پاکستان کے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔سپریم کورٹ میں ان کا کوئی بیٹا چیف جسٹس نہیں بن سکتا۔اس سارے صورتحال کے بعد گلگت بلتستان کی عوام اپنے آپکو تسلی دینے کے لئے یہ سمجھ بیٹھے کہ گلگت بلتستان کے سیاسی نمائندے نالائق ہیں جسکی وجہ سے ان کو پاکستان کے ایوان بالا اور ایون زیریں میں نمائندگی نہیں ملتی ہیں ۔جب انہوں نے دیکھا کہ پاکستان آرمی میں گلگت بلتستان کے نوجوان سے ہر سطح اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوگئے کارگل ہو یا سوات شمالی وزیرستان ہو یا جنوبی وزیرستان جنگ کے لئے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو ہر اول دستہ میں شامل کیا گیا مگر اس تمام تر صورتحال کے بعد بھی گلگت بلتستان کا کوئی فرزند آرمی چیف نہیں بن سکا یہی سے سمجھدار اور حالات پر نظر رکھنے والے حضرات کا شک یقین میں بدل گیاکہ 14اگست ہماری آزادی کا دن نہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمارا وطن نہیں ۔ایسے باشعور نوجوانوں نے 1997کو پہلی بار اعلان بغاوت کیا اور 14اگست کو بلیک ڈے مناکر گلگت بلتستان کے عوام کو حقیقی آزادی کی راہ دیکھانے میں کامیاب ہوگئے ۔بلیک ڈے منانے پر پاکستانی ریاست کے وظیفہ خوار چند پولیس آفیسران نے دھرتی ماں کے ان سپوتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بہت سارے نوجوانوں کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے بند کردیا۔عوام کو یہ تاثر دیتے رہے کہ ایسے سرگرمیاں کرنے والے عناصر معاشرے میں فساد پھیلاتے ہیں لہذا لوگ ان سے دور رہیں ۔
ان تمام حربوں کو استعمال کرنے کے بعد باوجود ریاست نے زبردستی گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا 1947کو بلیک ڈے منانے کے بعد 14اگست کو یوم آزادی منانے کے عمل میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی آرہی ہے ۔14اگست 1947ء کو پاکستانی عوام نے جوش و خروش کے ساتھ منایا اس سال ایک خبر بلوچستان سے بھی آئی کہ بلوچستان میں چودہ سال بعد پہلی بار وزیراعلیٰ ہاوس کے علاوہ چند اور مقامات پر چودہ اگست کے حوالے سے تقریبات منعقد ہوئیں اس خبر میں کتنی صداقت ہے یہ مجھے نہیں معلوم ۔پاکستانی عوام بھی چودہ اگست کے موقعے پر تقسیم نظر آئے خیر یہ انہونی بات نہیں ہیں کیونکہ پاکستان زبردستی علحیدہ کیا گیا ہے اس کی آزادی ابھی تک باقی ہے ۔جس کے لئے دائیں بازوں کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نعرہ لگارہی ہے کہ حقیقی آزادی ابھی باقی ہے ۔دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری پاکستانی نظام کو یکسر مسترد کرتا ہے اور اس کے بعد کونسا نظام دینا چاہتا ہے واضع نہیں ہے ۔خیر بات گلگت بلتستان میں 14اگست منانے کی ہورہی تھی پچھلے کچھ سالوں میں چودہ اگست منانے میں عوام میں کمی آئی تو پاکستانی ریاست نے خصوصی کرم کرکے گلگت بلتستان میں چودہ اگست منانے کے لئے خاص رقم فراہم کیا۔گلگت بلتستان میں موجودہ پاکستان کے وظیفہ خواروں نے وہ رقم ہڑپ کرکے چودہ اگست کو نمائشی آزادی مناتے رہے ۔2012کے بعد جب لوگوں نے گھروں اور دکانوں میں جھنڈیاں لگانا بند کردیا تو سرکارکی جانب سے مفت میں جھنڈیا تقسیم کئے گئے ۔تمام حربے ناکام ہوگئے تو سرکار نے حکم دیا کہ تمام سرکاری عمارتوں پر پاکستانی جھنڈیا لگائے جائے ۔سرکاری ملازمین کو بھی خصوصی ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے محکموں میں آزادی کے دن کام کئے بغیر منائے ۔سرکاری ملازمین کے لئے سپیشل پیکج بنائے گئے بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی ہے اس سال گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں نوٹس جاری کیا گیا کہ دکاندار اپنے دکانوں میں جھنڈیاں لگائے نہ لگانے والوں کو جرمانہ کیا جائے گا۔غذر میں اعلان کیا گیا کہ جو دکاندار اپنے دکانوں کو یوم آزادی پاکستان کے موقع پر خصوصی سجائے گا اس کو انعام دیا جائے گا مگر دکاندار اس کے باوجود بھی خاموش رہے ۔
ایک اطلاع کے مطابق گلگت بلتستان میں یوم آزادی پاکستان منانے کے لئے 35ہزار جھنڈیا تقسیم کئے گئے پبلک ٹرانسپورٹ والوں کو زبردستی جھنڈیا ں لگانے پر مجبور کیا گیا اور نہ لگانے والوں کو چالان کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔مگر چالان اور جرمانہ کرنے کی ہمت نہیں کرسکے ۔ان تمام صورتحال کے پیچھے عوام کی احساس محرومیاں ہیں ۔احساس محرومیوں کو ختم کئے بغیر زبردستی یا ڈرا دھمکا کے ایک سال آزادی منایا جاسکتا ہے مگر بیس لاکھ عوام کو غلام در غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔گلگت بلتستان کو پاکستان کا اٹوٹ انگ قرار دینے والے مقامی وظیفہ خور آج تک اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں خود پاکستانی سیاستدانوں نے بھی گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا ہے ۔سیلف آرڈر 2009 میں بھی گلگت بلتستان کے متنازعہ حیثیت کو یہ لکھ کر تسلیم کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے ساتوں اضلاع میں رہنے والے گلگت بلتستان کے شہری کہلائینگے آخر میں ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم گلگت بلتستان کے عوام آج تک غلام ہیں اگر یہی صورتحال رہا تو ہم مزید کئی سالوں تک غلام رہ جائینگے آج نوجوانوں کو دیکھنا ہو گا کہ سال میں دو دفعہ یوم آزادی منانے کے بعد بھی ہم غلام کیوں ہیں اگر ہم آزاد ہیں تو ہمارا آئین کیاں ہے اگر ہم پاکستانی نہیں ہیں تو 14اگست کیوں یہاں مناتے ہیں اگر بحیثیت مسلمان ہم اپنے اپ کو پاکستانی کہتے ہیں تو پھر افغانستان ایران سعودی عرب شام تاجکستان اور دیگر ممالک کے مسلمان پاکستانی کیوں نہیں ہیں ؟ میری سوچ کے مطابق ہم غلام ہیں اور آزادی ابھی باقی ہیں 14اگست پاکستان کی آزادی کا دن ہے اور یکم نومبر ایک غلامی سے دوسرے غلامی میں جانے کا دن ہے آج تک ہم مشکوک آزادی منا رہے ہیں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حقیقی آزادی کیلئے ہم علاقائی ،لسانی ،مذہبی ،گروہی و دیگر تعصبات سے بالا تر ہوکر جدوجہد شروع کریں ۔آزادی پلیٹ میں رکھ کرنہیں دی جاتی ہے اس کے لئے قربانی دینی پڑتی ہیں ۔ دوسروا4161 کے لئے بہت قربانیاں ہم نے سی ہیں ابھی بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنے کے بؤجائے اپنے حقوق میں اتحاد و اتفاق برقرار رکھ کر سیاسی ،سماجی ، معاشی آزادی کیلئے ضدوجہد کرے تا کہ ہم بھی دوسری اقوام کے صف میں کھڑ ا ہو سکیں ورنہ ہمارا دستان تک نہ ہوگا دستانو میں ۔