پانچ سالوں میں گلگت کو کیا ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
گلگت بلتستان کا دار الحکومت ہونے کا اعزاز گلگت شہر کو حاصل ہے۔ 2لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس شہر میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاع اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بستے ہیں ،گورنر ،وزیر علی ، چیف سیکرٹری ، فورس کمانڈر ، ڈائریکٹر جنرل جی بی سکاؤٹس ،انسپکٹر جنرل آف پولیس ،سپریم اپیلٹ کورٹ ، چیف کورٹ ،قانون ساز اسمبلی سمیت سرکاری محکموں کے مرکزی دفاتر واقع ہیں۔ گلگت کے تین انتخابی حلقوں سے گلگت بلتستان کونسل اور قانون سازاسمبلی میں ارکان کی تعداد 8ہے، جبکہ 3مزید ارکان ایسے ہیں جو گلگت میں رہائش پذیر ہیں۔ یوں ان ایوانوں میں گلگت کی نمائندگی کرنے والوں کی مجموعی تعداد 11ہے۔ اسی طرح صوبائی کابینہ میں 3وزراء کا تعلق بھی گلگت سے ہے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کاعہدہ بھی اسی شہر کے حصے میں آیا ہے۔
لیکن ان سب کی موجودگی کے باوجود گلگت شہر اور مضافات کے عوام تعمیر وترقی سے محروم ہیں صوبائی حکومت 4سال 8ماہ کا عرصہ مکمل کر چکی ہے اور اب مہدی شاہ اوران کی کابینہ اقتدار سے رخصتی کیلئے پرتول رہی ہے آج گلگت کے عوام ایک دوسرے سے یہ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے دارالحکومت کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے کونسے اقدامات اٹھائے ؟قانون ساز اسمبلی و کونسل میں بھر پور نمائندگی اور کابینہ میں وزارتوں کے مزے لوٹنے والوں نے عوام کو کیا دیا ؟
سلف گورننس آرڈر 2009کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی و کونسل کے ارکان نے کبھی گلگت کے باسیوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی ہوتی تو آج گلگت شہر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ حلقہ نمبر ایک سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی سید رضی الدین رضوی نے منتخب ہونے کے بعد پلٹ کر حلقے کے عوام کی خبر تک نہیں لی ۔ان کی تمام تر توجہ عہدہ ، گاڑی ، مراعات و سہولیات حاصل کرنے اور اپنے قریبی لوگوں کو نواز نے پر مرکوز رہی۔ موصوف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین تو بنایاگیا لیکن انہوں نے یہ ذمہ داری بھی احسن طریقے سے ادا نہیں کی۔ ان کو متعداد رپورٹس اسمبلی سے دی گئی جن کا آج تک کچھ اتہ پتہ نہیں چل سکا۔
اب آتے ہیں حلقہ 2کی طرف۔ اس حلقے سے دیدار علی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، ان کی بھی کوئی قابل ذکر کارکردگی سامنے نہیں آسکی بیتے ہوئے سالوں کے دوران ان کے حلقے کے عوام بھی مسائل کے حل سے محروم رہے گلگت شہر کے ان دونوں حلقوں کے عوام پر تعمیر وترقی کے در مکمل طورپر بند رہے۔ دیدار علی برقیات کے وزیر بن گئے اورگلگت شہر کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات ملنے کی بجائے اس میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ حلقے کے عوام سے کبھی یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ آپ لوگوں نے مجھے ووٹ کیوں دئیے تھے۔ دیدار علی نے گزرے ہوئے عرصے میں اپنے حلقہ انتخاب کے اکثر علاقوں کا دورہ تک نہیں کیا حلقہ نمبر 3آفتاب حیدر کو عوام نے اسمبلی بھیجا لیکن موصوف بھی حلقے کے عوام کی توقعات کے مطابق کام نہیں کرسکے وزارت حاصل کرنے کے بعد وہ بھی اقتدر کے نشے میں دھت ہوگئے اور پلٹ کر حلقے کے عوام کی خبر گیری کی زحمت گوارا نہیں کی۔
گلگت سے قانون سازاسمبلی میں خواتین نشستوں پر سعدیہ دانش اور مہناز ولی منتخب ہوئی سعدیہ دانش کو بھی کابینہ میں جگہ ملی لیکن یہ بھی گلگت کے عوام کیلئے کچھ نہ کرسکی، البتہ اخباری بیانات اس عرصے میں اتنے جاری کیے کہ اگر ان کو اکٹھا کرکے کتابی شکل دی جائے تو اس کی کئی کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔ اہم محکموں کی قلم دان ان کو سونپے جانے کے بعد نہ تو ان اداروں کی کارکردگی میں بہتری نظر آئی اور نہ ہی مقررہ ہدف کو حاصل کرنے میں ان کو کامیابی حاصل ہوسکی بلکہ مبینہ طورپر سعدیہ دانش نے اپنے بھائیوں کو نوازنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
اسی طرح مہناز ولی بھی گلگت کے باسیوں کیلئے کچھ نہ کرسکی۔ ڈپٹی سپیکر جمیل احمد کا تعلق بھی تعمیر و ترقی سے محروم گلگت شہر ہے موصوف نے 4سال 8ماہ تک صرف مسلم لیگ ن کے رہنما حافظ حفیظ الرحمن کے خلاف اخباری بیانات جاری کرنے اور من پسندوں کو ملازمتوں سے نوازنے کے سواکچھ نہیں کیا۔ موصوف اگر اتنی توجہ ذوالفقار آباد آر سی سی برج پردیتے تو گلگت کے عوام کو درپیش مشکلات میں کمی واقع ہوتی لیکن جمیل احمد نے اس طرف توجہ نہیں دی اور تاحال یہ پل نامکمل پڑا ہے۔
اسی طرح گلگت سے جی بی کونسل میں مولانا عطاء اللہ شہاب اور امجد حسین ایڈووکیٹ کو نمائندگی کاموقع حادثاتی طورپرمل گیا لیکن ان دونوں صاحبان نے بھی گلگت کے باسیوں کے معیارزندگی کو بلند کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ گلگت میں قانون ساز اسمبلی کے ارکان مولانا سرورشاہ ، مطابعت شاہ ، سپیکر وزیر بیگ اور صوبائی وزیر تعمیرات عامہ بشیر احمد خان سمیت دیگر وزراء سیاسی شخصیات بھی رہائش پذیر ہیں، لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے بھی گلگت شہر محرومی کا شکار ہے۔
گلگت شہر میں کنوداس شہر کی سب سے بڑی رہائشی آبادی ہے لیکن یہاں کے باسی صاف پانی ، بجلی ، پختہ سٹرکوں ،سیوریج سسٹم ، صحت و تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں اسی طرح جوٹیال کے ساتھ بھی سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا گیا آج شہر اورمضافات کے عوام ہاتھوں میں چراغ لئے موجودہ حکومت کی کارکردگی کو تلاش کررہے ہیں لیکن ان کو مایوسی کے سواکچھ ہاتھ نہیں آیا کسی منتخب رکن اسمبلی و کونسل نے عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا بلکہ سب نے عوامی مسائل کو لوٹنے کی کوشش کی گلگت کے عوام 5سالہ محرومیوں کا بدلہ آنے والے انتخابات میں ان سیاسی مداریوں سے ضرور لیں گے جنہوں نے سبز باغ دیکھا کر مختلف کارڈزاستعمال کر کے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کی لیکن پلٹ کر کبھی گلگت کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے اور آج گلگت شہر اور مضافات کے عوام کو ٹوٹی پھوٹی سٹرکیں ، سیوریج کا ناقص نظام،اندھیرے میں غرق گلیاں ، محلے اور شاہراہیں ، خستہ حال پل ،ادویات اور ڈاکٹر سے خالی ہسپتال ،آلودہ پانی ،تعلیم و صحت کی ناکافی سہولیات کا سامنا ہے جس کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں جن کاذکر ہم اوپر کر چکے ہیں ان کو اگر عوام کا دکھ درد ہوتا تو 5سالوں میں گلگت ایک ماڈل سٹی بن چکا ہوتا ۔
وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ اور گورنر پیر کرم علی شاہ نے بھی گلگت شہر کو ایک مثالی شہر بنانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ آج جب باہر سے کوئی گلگت میں داخل ہوتا ہے تو باب گلگت سے سٹرک کی ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی صوبائی حکومت کی کارکردگی ثابت کردیتی ہے۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر کی دفتر اور ہائش گاہ کے آس پاس کے علاقوں میں عوام زندگی کی جن سہولتوں سے محروم ہیں ان کی فراہمی کیلئے مذکورہ شخصیات نے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا۔ آنے والے انتخابات میں موجودہ قیادت کی کامیابی مشکل نظر آرہی ہے۔ گلگت کی باسیوں کو بھی اپنی محرومیوں کے خاتمے کیلئے نئی قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا ۔دوسری صورت میں غربت بے روزگاری پسماندگی جہالت اور بد امنی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔عوام بااختیار منتخب حکومت کی 5سالہ کارکردگی دیکھ چکے ہیں ۔