بخاری صاحب، فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں!
گزشتہ دنوں مقامی اخبارات میں اپنے محترم دوست اور نامور صحافی عبدالرحمان بخاری کا حسرت بھرا مضمون’’پانچ سالوں میں گلگت کو کیا ملا‘‘ نظروں سے گزرا تو دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی علاقے کے باسی ہونے کے ناطے طرح طرح کے مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی قوم کی آواز کو ایک بار پھر اپنے قلم کے زریعے ایوانوں تک پہنچانے کی جسارت کروں تاکہ سیاستدانوں کا نہ سہی تو کم ازکم بیوروکریسی کا ضمیر جاگ اٹھے۔
بخاری صاحب کے مضمون کا حوالہ میں نے اس لئے دیا کہ اول تو وہ میرے ان مہربان دوستوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے آج سے گیارہ سال قبل جب میں نے گلگت بلتستان کی صحافتی دنیا میں پہلا قدم رکھا تو بڑے فراخ دلی اور خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا، اپنے تجربے کی بنیاد پر میری حوصلہ افزائی فرمائیں اور مستقبل کے تعین میں میرا ہاتھ تھاما جس پر میں آج تک ان کا مشکور وممنون ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ 2003-04میں جب میں صحافت کو صرف سفید کاغذ کوٹوٹے پھوٹے الفاظ سے بھر کراخبار کے دفتر پہنچانے کی حدتک سمجھ پیٹھا تھا، ان دنوں یہی بخاری صاحب تھے جنہوں نے جولائی کی تپتی دھوپ میں پبلک چوک جوٹیال پر ایک موچی کی دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اخبار کی پیشانی سے لیکر آخر صفحے کے کونے یعنی پرنٹ لائن تک ایک ایک چیز کے بارے میں تفصیلاً اگاہ کیا اور مجھے کچھ نصیحتیں بھی کیں جن کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھنے پر میرے اندر محنت اور لگن سے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا اور وہ جذبہ میری ابھی تک کی کامیابیوں کا ذریعہ بنا۔
بخاری صاحب صوبائی دارالخلافہ کے ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جن کی خبروں اور دیگر تحریروں سے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے اور انتظامی سطح پر بھی اس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے۔ لیکن آج کل کے دور میں بعض ایسے توجہ طلب مسائل ہیں جن کی میڈیا میں باربار نشاندہی کے باوجود کسی جانب سے بھی ان مسائل کے حل کے لئے کوئی اقدام اٹھاتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ حکومتی عہدوں پر براجماں افراد کے سامنے عوامی مسائل کا ذکر کرتے کرتے اب تو میڈیا والے بھی تھک چکے ہونگے مگر حکمران اس کے باوجود بھی عوامی مسائل حل کرنے میں ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں. شاید ان کے اندر شرم وحیا ء نام کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی ہوگی تاہم انتظامی اور عوامی سطح پر بھی اس معاملے میں پراسرار خاموشی ہی نظر آرہی ہے۔
بخاری صاحب کا شکوہ اپنی جگہ بجا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اس پونے پانچ سالہ دور حکومت میں ضلع گلگت اور گلگت شہر(جوکہ خطے کا صوبائی دارالخلافہ بھی ہے) کو حکومت کی طرف سے کچھ نہیں ملا.
اسی طرح سے دوسرے اضلاع میں بھی اس حکومت نے عوام کو کچھ نہیں دیا ہے ۔باقی سب کو چھوڑ کر اگر صرف ضلع سکردو ہی کی مثال لیں جوکہ وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ کا آبائی علاقہ بھی ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہاں حکومت نے کونسی دودھ کی نہریں کھودی ہیں؟
میں نے گزشتہ ہفتے سکردو میں قیام کے دوران پورے شہر اور گردونواح کے علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں بھی کیں. لیکن میں نے وزیراعلیٰ صاحب کے حلقے میں کوئی انوکھی تبدیلی دیکھی نہ ہی کسی کے منہ سے اس حوالے سے کوئی بات سنی. بلکہ سکردو کے عوام کے منہ سے مہدی شاہ اور ان کے حواریوں کے لئے عمران خان اور ان کے کارکنوں کے نواز حکومت کیخلاف زہر اگلنے والے الفاظ ضرور سنے۔میں نے ان لوگوں کو بھی گلگت، غذر،استور،دیامر،گانچھے اور ہنزہ نگر کے لوگوں کی طرح حکومتی کارکردگی پر افسوس اور عوامی محرومیوں کا رونا روتے ہوئے دیکھا ۔
ایک دن میں نے رات کے وقت گمبہ سے سکردو شہر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں جب اپنے ڈرائیور سے سکردو شہر میں واقع سڑکوں کی پختگی اور شہر میں صفائی کی صورتحال سے متعلق پوچھا تو وہ بھی یکدم یہ کہتے ہوئے چونک اٹھے کہ یہاں پر تو سارا کام مشرف دور میں ہوا تھا. مہدی شاہ توایک پائی کا کام بھی نہیں کراسکے۔ میں نے ان سے پھر پوچھا کہ شاہ صاحب نے اگر کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا تو کیا ہوا اپنے حلقے کے نوجوانوں کو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ ملکی سطح کے اہم ترین اداروں میں ملازمتیں تو دلوائیں ناں؟ وہ پھر غصے میں آکر کہنے لگے کہ ان ملازمتوں پر غریبوں کے کون کونسے بیٹے کھپے ہیں؟ آپ مجھے کسی ایک کا نام دیں تو سہی؟ انہوں نے تو صرف اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو ہی نوکریوں سے نوازا اور علاقے کے پیسوں سے اپنے لئے بیرونی ممالک تک جائیدادیں بنائیں. خیر ہماری غربت رہے گی نہ انکی بادشاہت. یہ الیکشن میں پتا چلے گا۔ میں نے پو چھا کہ کیا تم آئندہ الیکشن میں مہدی شاہ کو ووٹ دوگے؟ وہ پھر سے آگ بگولہ ہوکر بولے ان کی تو ضمانت بھی ضبط ہونے والی ہے آپ دیکھیں گے۔ میں اور میرے ساتھیوں نے ڈرائیور کے اس غصے پر زور سے قہقہے لگائے اور ہوٹل پہنچ گئے۔
میں صوبائی حکومت کے اس پونے پانچ سالہ دور میں ماسوائے حاجی گلبر اور رحمت خالق کے تمام صوبائی وزراء اور ممبران اسمبلی کے حلقوں میں گھوما ان علاقوں کی حالت زار اور عوامی مسائل کا بغور جائزہ لیا مگر کہیں پر بھی مجھے حکومت کی اطمینان بخش کارکردگی نظر نہیں آئی بلکہ ہر طرف مسائل اور مشکلات کے انبار اورعوامی محرومیوں کی داستانیں دیکھنے کو ملیں۔ مجھے کہیں پر بھی ترقیاتی منصوبوں پرتواتر اور مستقل بنیادوں پر کام ہوتا ہوا نظر نہ آیا۔ کہیں پر تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی تعمیرات کاکام التوا ء کا شکار دیکھائی دیا تو کہیں سڑکوں کی ویرانی، کہیں پر طبی مراکز کو بھوت بنگالوں میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھا تو کہیں واٹر سپلائی کی سکیموں کے ادھورے منصبوبوں کے پائپ بکھرے ہوئے نظر آئے،کہیں پر پاورہاوسزکی زنگ آلو مشنری نظر آنے لگی تو کہیں دریا کے کنارے گرنے والازیرتعمیر پلوں کا ملبہ، کہیں قدرتی آفات کے نتیجے میں پھیلی جانے والی تباہی کے اثار تو کہیں بے یارومددگار متاثرین، کہیں گندگی اور کچرے کا ڈھیر تو کہیں بدبواور تعفن کی گرم گرم ہوائیں، کہیں پر گندم سبسڈی کی بحالی کے لئے طویل تر دھرنے تو کہیں پینے کے صاف پانی سے محروم خواتین کا احتجاج، کہیں پرڈیموں کی تعمیر کے چرچے تو کہیں اٹھارہ سے بیس گھنٹے کی لوڑشیڈنگ۔ نہ جانے ان حکمرانوں نے آخر کیونکر اپنے ہاتھوں اس علاقے کے عوام کو پھر سے پتھر کے زمانے میں جینے پر مجبور کردیا۔ اب آتے ہیں واپس بخاری صاحب کے اس سوال کی طرف کہ’’پانچ سالوں میں گلگت کو کیا ملا؟‘‘
تو جناب عرض کرتا چلوں کہ گورننس آرڈر2009کے تحت ہونے والے عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی صوبائی حکومت کی جانب سے میرے اور آپ کے شہر گلگت اور میرے اس بے چارے ڈرائیور کے شہر سکردو کو برائے نام بگ سٹی کا درجہ تومل گیا ناں کیونکہ بگ سٹی بڑا شہر ہوتا ہے چاہے وہاں کوئی کام ہو یانہ ہو۔ دوسرے نمبر پر اسی حکومت کے دور میں ہمیں کوہستان،لولوسر،چلاس،اتحاد چوک، سانحہ علی آباد ہنزہ اور نانگا پربت جیسے انسانیت سوز سانحات ملے جن کے ملزمان صوبائی حکومت کے دور اقتدار کے آخری ایام تک گرفتار نہ ہوسکے اور جو گرفتار ہوئے انہیں سزائیں نہ مل سکیں۔پھرمالی سال کے آخر میں ٹھکیدار برادری، اخباری مالکان اور دیگر افراد کو باؤنس چیک اور خود حکمرانوں کو کروڑوں کی نقدی تو ملی ناں۔ اسی طرح اسی حکومت کے دور میں ہی میرے اور آپ کے علاقے میں پہلی مرتبہ سفارش اور رشوت کلچر کے زریعے سرکاری نوکریوں کی بولیاں بھی لگ گئیں، ان ملازمتوں پرغیر قانونی طریقے سے ہونے والی بھرتیوں کی انکوائریاں بھی کی گئیں پھر من پسند بندوں کو دوبارہ اپنی نوکریوں پر بحال بھی کیا گیا۔ پھر اسی دور میں جگہ جگہ اضلاع، سب ڈویژن اور تحصیلوں کے قیام کے اعلانات بھی ہوئے اور میرے اور آپ کی انکھوں کے سامنے قانون ساز اسمبلی سے درجنوں قوانین اور بلات بھی پاس کئے گئے، چاہے ان پر عملدآمد ہو نہ ہو۔
تو محترم بخاری صاحب اگر ان پانچ سالوں صوبائی حکومت کی جانب سے اگر ہمیں کچھ بھی نہ ملا تو اب موجودہ حکمرانوں سے امیدیں وابستہ رکھنا میرے خیال میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں. اب تو ان لوگوں کے لئے پیسہ اوردولت اکھٹے کرنے کے دن شروع ہوئے ہیں کیونکہ آگے الیکشن بھی تو ہونا ہے ناں. لہذا اگر آپ اتفاق کرتے ہیں تو ہم یہ فیصلہ عوام پر ہی چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں موجودہ حکمرانوں سے کس طرح اپنی محرومیوں کا بدلہ لیتے ہیں۔