کالمز

’’دھرنا ‘‘

عدل وانصاف کے لئے جدوجہد طویل ہوا کرتی ہے بیٹا۔۔۔۔یہ اس مٹی کی آواز تھی جو بچے کے لئے اللہ کا تحفہ تھا۔یہ مٹی اس بچے ،اس کے آباواجداد اور اس کے آگے کی نسلوں کو وودیعت کی گئی تھی۔یہ بچہ مٹی پہ سررکھ کے سویا ہوا تھا۔۔۔۔آج صبح اس کو سکول کے گیٹ سے باہر نکال دیا گیا تھا۔اس کے استاد نے اس کو دھکے دے کر گیٹ سے باہر نکالا تھا۔اس کے چپل پھٹے ہوئے تھے۔کپڑے میلے تھے۔بال مٹی اور گردوغبار سے اٹھے ہوئے تھے۔دانتوں پر میل جمی تھی پیشانی پہ بَل ،آنکھوں میں معصومیت اور افسردگی اور چہرے سے حسرت ٹپکتی تھی۔وہ سراپا سوال تھاان محلوں کے سامنے ،ان چمکتی گاڑیوں ،ان خوشبوؤں میں بے ڈول بے خلوص جسموں اور ان غرور کے بتوں کے سامنے۔۔۔۔وہ استاد کو حقیقت بتاتا۔۔۔مگر کو ن سنتا۔استاد سے کہتا کہُ اس نے آج صبح اپنے بچوں کو جیب خرچ دیا ہوگا۔ان کے صاف بدن اپنے سینے سے لگاکر ان کو چوما ہوگا۔ناشتہ کرتے ہوئے ان کو دیکھا ہوگا۔۔۔۔استاد ۔۔۔۔میری ماں چاردنوں سے بیمار ہے آج ساری رات کراہتی رہی۔باپ صبح دھندلکے اس کے لئے دوائی لینے گئے۔میرے باورچی خانے میں آگ نہیں جلائی گئی۔میں خود اٹھا کسی نے مجھے نہیں اُٹھایا۔میں خود چلاآیا کس نے مجھے رخصت نہیں کیا۔استاد!میرے پاس بستہ بھی نہیں یہ کالی شاپنگ بیگ ہے اس میں ایک پرانی کاپی ہے ایک ٹوٹی پنسل۔۔۔۔استاد میں واپس کہاں جاؤں۔۔۔۔گھر۔۔۔استاد گھر کہیں نہیں ہے۔ایک جھونپڑی ہے جس کے قریب جاتے ہی ماں کے کراہنے کی آواز آتی ہے۔جس سے میرا دل پھٹا جاتا ہے۔۔۔۔استاد ۔۔۔۔ بچہ مٹی پہ سر رکھ کے سوجاتا ہے۔۔۔مٹی بچے کے کان میں کہتی ہے۔بیٹامیں تیری ماں ہوں۔۔۔۔ذرا سونگھو تجھے مان کی خوشبوآئے گی۔

محمد جاوید حیات
محمد جاوید حیات

قربانیوں کی خوشبو ،خالص محبت اورخلوص کی خوشبو ،عزم وہمت اور حوصلوں کی خوشبو،اللہ کے ساتھ وعدوں کی خوشبو،ترقی اور خوشحالی کی خوشبو،جان ومال کی حفاظت کی خوشبومگر بیٹا یہ ساری خوشبوئیں مجھ پہ سررکھ کے سونگھتا ہی نہیں ۔یہ سارے لوگ مرکے سیلوں کے اوپر چلتے ہیں ان کی سانسیں تک مجھ تک نہیں پہنچتی ہیں۔وہ یہ خوشبو کیا سونگھیں۔اگر وہ یہ سونگھ سکیں،محسوس کرسکیں تو بیٹا!تیرے باورچی خانے میں بھی چولہا جلے گا۔تیری ماں کاعلاج ہوگا۔تیرے کپڑے اجلے،تیرے بال دھلے اور تیرے جوتے صاف ہونگے۔تیرا استاد تجھے سکول کے گیٹ سے باہر نہیں نکالے گا۔بیٹا میری خوشبوکوئی سونگھتاہی نہیں میرے اوپر عدل وانصاف اورتبدیلی کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔میرے پہاڑوں سے ٹکراتے ہیں۔تو وہ ہنستے ہیں۔میرے سمندر ،میرے دریا،میرے ندی نالے وہ نعرے سنتے ہی نہیں ۔میرے پرندے ان بے خلوص نعروں کو اپنی آوازوں میں شامل ہونے نہیں دیتے۔میرے چمن اپنا حسن ان نعروں سے بچاتے ہیں۔یہ نعرے نعرے ہی رہتے ہیں۔الفاظ کے گورکھ دھندے اگر نعرے لگانے والے تیرے باورچی خانے میں جھانک جائیں تو انصاف خود آئے گا۔چمکتے محلوں سے اُٹھنے والے نعرے کیا اثر کریں گے۔بیٹا!جو میری اہمیت سمجھ سکے گاوہی کامیاب ہوگا۔

میں مایوس نہیں ہوں۔میری خوشبو سونگھنے والے بھی موجود ہیں میری سرحدیں ان کے خو ن کی چھنٹوں کے گواہ ہیں۔میرے اوپر امن قائم کرنے کے لئے جو ہاتھ ،جو زبان،جو دل،جو آنکھیں،جو سوچ استعمال ہورہی ہیں قربان جاؤن بیٹا ان پر۔۔۔۔وہ ان باوردی جوانون کا قدم چومتی ہوں جن کو تم پولیس،فوجی،پائلٹ وغیرہ کہتے ہو۔یہ دن رات میری حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔تم لوگ آرام سے سوتے ہو وہ جاگتے ہیں۔یہ زندہ دل ہیں۔ان کے دل سوتے نہیں۔وہ جب انگھڑائی لیتے ہیں تو میرے خوشبو سے ان مشام جان معطر ہوتی ہے۔تم بھی مجھے پہچانے کی کوشش کرو۔میری اہمیت سمجھو۔یہ دیکھو میں تیرا سرہانہ بھی ہوں،تکیہ بھی ہوں،اور میری بھینی بھینی خوشبومیں خوشبو میں سکون بھی ہے۔بچہ خراٹے لینے لگا تھا۔سکولوں اور کالجوں کی چھٹی ہوگئی ۔کالج لہ چند شوخ وشنگ بچیوں کے قہقہوں نے بچے کو جگادیا۔وہ قہقہامار کے کہہ رہی تھیں۔۔۔دیکھو دیکھو سڑک کنارے ’’دھرنا‘‘دیا ہے۔بچہ اُٹھا آنکھیں مَلااور اُٹھ کے روانہ ہوگیا۔ایک ماں کے قریب سے اُٹھ کے دوسری ماں کی جانب ۔۔۔۔بیمار ماں شاید ٹھیک ہوچکی پہوگی۔یہ محض اس کی’’اُمید ‘‘تھی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button