گلگت بلتستان

شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں ناقص مٹیریل کا استعمال

گوجال ( شرافت علی میر ) شاہراہ قراقرام کی توسیع اور تعمیر نو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ زرائع کےمطابق تقریبا شاہراہ کی تعمیر نوکا 70 فیصد کام مکمل ہوا ہے جبکہ ۳۰ فیصد باقی ہے جو 2015 تک مکمل ہوجائیگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تکمیل شدہ حصہ صرف ایک سال کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے اور بعض مقامات پر مرمت کا کام بھی جاری ہے۔  روڈ پہ دراڈیں پڑ گئی ہے اور  دوبارہ مرمت کے باوجود وہ دراڑیں بڑھ گئی ہے  اس کے علاوہ روڈ کے دونوں اطراف کے دیوار بھی جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔ روڈ کے اطراف بنائی گئی نالیاں یا تومشینوں کی وجہ سے ٹوٹ گئے ہیں، یا پھر ملبہ گرنے کی وجہ سے دوبارہ بھر گئے ہیں۔

پاکستان میں شاہراہوں کی تعمیر اور دیکھ بال کی زمہ داری  نیشنل آئی وے اتھارٹی کے پاس ہے اور پورے ملک میں جتنے بھی شاہراہ بنتے ہیں وہ ان کی نگرانی میں بنتے ہیں۔ تاہم، شاہراہ قراقرام جو دفاعی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے  پر این ۔ایچ ۔اے کے زمہ داران اپنے فرائض پورے کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اور این۔ایچ ۔اے کی غفلت اور نا اہلی کی وجہ سے اس اہم شاہراہ میں ناقص میٹریل کا استعمال ہوا ہے۔

شاہراہ قراقرم کی تعمیرومرمت کے علاوہ پاکستان میں جتنے بھی میگا پراجیکٹ ہیں وہ بھی  اس وقت چائنیز کمپنیوں کے پاس ہیں اور اسی شاہراہ سے ان کی تجارت بھی وابستہ ہے لہذا روڈ کی جلد از جلد تعمیر و مرمت کے لیے چائنیز کمپنی نے مقامی ٹھیکیداروں کو ٹھیکہ دیا ۔ اور اس دروان بہت سے ایسے لوگ ٹھیکدار بن گئے جنھوں نے اس سے پہلے کھبی یہ کام نہیں کیا تھا۔ اور پھر پیسے بنانے اور بچانے کے چکر میں انھوں نے سیمنٹ اور سریا کا بہت کم استعمال کیا ۔  اور ایسی وجہ سے ناقص مٹریل کا استعمال بھی ہوا۔جس کی وجہ سے روڈ کے مختلف حصے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور دراڈھے بھی پڑنا شروع ہوگيا ہے۔

سوست بازار میں روڈ کو کنکریٹ سے بنایا گیا تھا۔ لیکن ناقص میٹریل کے استعمال سے ایک سال کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور اب دوبارہ اسے اکھاڑا جارہا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال علی آباد بازار کا ہے جہاں پر شاہراہ قراقرم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے۔

 شاہراہ قراقرم جو پاکستان کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔دفاعی لحاظ سے بھی اور معاشی لحاظ سے اور ایک بین الاقوامی شاہراہ ہے اور یہ وہ واحد شاہراہ ہےجو گلگت بلتستان کو پاکستان کے دوسرے شہروں سے ملاتا ہے۔ امید تو یہی تھا کہ بین الاقوامی شاہراہ ہونے کے ناطے اس شاہراہ کو بین الاقوامی معیار اور طرز پہ تعمیر کرتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا اور جو امید جو آس تھا چائیز سے اور این ایچ ۔اے سے انھوں نے وہ پورا نہیں کیا اور قوم کو مایوس کیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ پانچ سال میں شاہراہ قراقرم دوباہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button