سفرنامہ – شندور
تحریر: امیر جان حقانی
یہ دیکھو ! میرے سامنے شندور کا بین الاقوامی معروف پولو گراؤنڈ ایستادہ ہے۔جودنیا کی چھت (Roof of the World) سے جانا جاتا ہے جس کی بلندی سطح سمندرسے 3,719میٹر/ 12,201فٹ ہے۔ ہم نے گاڑیاں شندور میں روک لی۔ دودھ پتی چائے کا آرڈر دے کر نماز عصر کی تیاری میں لگ گئے۔دوران نماز پورا علاقہ خوش گوار فضاؤں،دماغ افروز ہواؤں اورمہکتے پھولوں کی مشک و عنبریں خوشبوؤں سے مہک رہاتھا۔پوری وادی چہک رہی تھی۔شندور کے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں تو ہر طرف قدرت کی صناعی نظرآئے گی۔پولو گر اؤنڈ کے ساتھ شندور جھیل تخلیق فطرت کا عظیم شاہکار لگتی ہے۔آج تک جتنی جھیلیں دیکھنے کو ملی ، ان میں سب سے بڑی جھیل یہی ہے۔اس کی لمبائی تین میل اور چوڑائی ایک میل ہے۔اس جھیل میں نایاب پرندے بستے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھیل کے پانی کا ظاہری خراج نہیں ہوتا یعنی پانی جھیل میں ٹھہرتا دکھائی دیتا ہے مگر ماہرین کے مطابق پانی زیر زمین راستہ بنا کر سولاسپور اور لنگر میں جانکلتا ہے۔ چار سو پہاڑیوں اور بہتے یخ پانیوں کے درمیان جھیل اور پولو گراؤنڈکمال کے خوبصور ت لگتے ہیں۔ہرپہاڑی اور ٹیلے کا رنگ دوسرے سے مختلف ہے۔شندور پولو کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ اور یہ چترال اور گلگت بلتستان کے درمیان پہاڑی پاسنگ کا ایک اہم حصہ ہے۔1936 سے ہر سال یہاں روایتی پولو کھیلوں کا ایک میلہ منعقد کیا جارہا ہے جس کو’’ شندور پولو فیسٹول‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ گلگت اور چترال کے ٹیموں میں کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے۔یہ دنیا کا بلندترین گراؤنڈ ہے ۔شندور پولو فیسٹول میں پولو کے علاوہ علاقائی لوک گیت اور مختلف روایتی مقابلوں بالخصوص ٹریکنگ، کوہ پیمائی اور گھڑ سواری کے مقابلوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔گروانڈ کے اردگرد قدرتی ٹیلے ہیں جو کھیلوں کے دوران بطور نشست گاہ کے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ اس پولوفیسٹول میں پاکستانی حکمرانوں سمیت پوری دنیا سے سیاح شرکت کرتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف یہاں پولو میچ دیکھنے خصوصی آئے تھے۔ شندور کی ہسٹری کافی طویل ہے جس کی یہاں نہ گنجائش ہے نہ ضرورت۔ ہم نے کافی ساری پکچرز بنوائی، باجماعت نماز ادا کی، اور قدرتی مناظر سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
پھنڈرمیں، چترال جانے کے لیے رخت سفر باندھنے لگے تو برادرم حماد کا گروپ گلگت روانہ ہوا۔ ہم نے ایک اورجیب رینٹ پر لے لیا۔ نماز جمعہ کے بعد ہم چترال کی طرف روانہ ہوئے۔ گلاختوری سے شندور تک ہماری گاڑیاں دوڑ رہی تھی۔ بھنورکی ڈھولتی کشتی بھی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ جو جیب ہم نے پھنڈر سے رینٹ پر لی تھی اس کی ہیئت کذائی اور ڈرائیونگ کے مختلف اسٹائل کو دیکھ کر ہمارے ہم سفر مولانا منیر انے اس کا نام بھنورکی ڈھولتی کشتی رکھا تھا۔پھنڈرسے شندورتک کہیں گول پتھروں کا علاقہ آجاتا ، کہیں سرخ اور سفید، اور مختلف رنگوں کے چھوٹے بڑے پہاڑ اور ٹیلے ہماری دید کے لیے مخصوص ہیبت میں کھڑے تھے۔یہ رنگ برنگ پہاڑ قرآن پاک کی تفسیر کا خوبصورت نقشہ پیش کررہے تھے، ’’ ومن الجبال جدد بیض و حمر مختلف الوانھا و غرابیب سود‘‘۔ان جاذب النظر مناظر کو دیکھ کر میرا دل گواہی دے رہا تھاکہ یہ خالق اکبر کی قوت تخلیق کے نرالے شاہکار ہیں۔برست میں جی بی پولیس کی چیک پوسٹ ہے۔ چیک پوسٹ سے بیس منٹ کی پیدل مسافت میں ایک چشمہ ہے جو بوتل والا چشمہ سے مشہور ہے۔ اس کے پانی کا ذائقہ کولڈرنگ جیسا ہے اور مقامی لوگوں نے بتایا کہ بہت ہاضم ہے۔موسم صیف میں لوگ برست آتے ہیں اور گھاس کاٹ کر موسم شتاء کے لیے اسٹاک کرتے ہیں اور پھر سردیوں میں ٹیرو آجاتے ہیں۔
شندور کے بعد چترال کا پہلا گاؤں سولاسپور آتا ہے۔ گلگت سے شندور تک 221میل جبکہ چترال شہر سے شندورتک ایک سو سینتالیس میل کا راستہ ہے۔شندور تقریبابیس مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔اور اس 20مربع کلومیٹر میں شندور جھیل کے علاوہ بھی جھیلیں ہیں۔ شندور پر چترال اور گلگت بلتستان کا تنازعہ ہے۔ چترال کا دعویٰ ہے کہ یہ پورا علاقہ اس کا ہے جبکہ گلگت بلتستان والوں کا دعوی ہے کہ یہ جی بی کا ہے۔ شندور پولو گراؤنڈ پر ظاہری قبضہ چترال کا نظرآیا۔ جگہ جگہ چترال بارڈر پولیس اور چترال اسکاؤٹ کی چاکنگ نظرآرہی تھی۔ پولو گراؤنڈ کی نشستوں کے اوپر ایک بڑا سائن بورڈ ہے جس میں چترال اسکاؤٹ اور مستوج پولیس لکھا ہوا ہے۔اور درمیان سائن بورڈ پرشہدائے پاکستان کو سلام مرقوم تھا اور عین وسط شندور میں چترال بارڈر پولیس کی چیک پوسٹ بھی ہے جبکہ جی بی پولیس کی چیک پوسٹ شندور سے بیس کلومیٹر کی مسافت پر برست میں ہے۔ ایک مقامی ساتھی بتارہا تھا کہ جی بی اسکاؤٹ اور چترال اسکاؤٹ کا جھگڑا بھی ہوا تھا اس لیے اب یہاں صرف چترال بارڈر پولیس کی چوکیاں قائم ہیں۔ ہمارے سفر میں سیکورٹی پر مامور ایک ایلیٹ سپاہی بتارہا تھا کہ پہلے جی بی کی چیک پوسٹ لنگر میں تھی اب اس سے بھی آرام دہ جگہ برست میں چیک پوسٹ ہے۔ اس سے گلگت بلتستان والوں کی کاہلی کا اندازہ خوب لگایا جاسکتا ہے۔ اس سرحدی تنازعہ کی وجہ سے امسال شندور پولو ٹورنامنٹ بھی نہ ہوسکا۔
برست سے پانچ کلومیٹرکی مسافت پر ایک بہت بڑی چراہ گاہ ہے جو لنگر کے نام سے معروف ہے۔ جہاں مال مویشیوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔خوش گاؤ، یاک، زوئے اور ان کے ہم نسلوں کے لیے ایک مخصوص جگہ ہے جو بہت بڑی تعداد میں اس چراگاہ میں چرتے دیکھا۔ان کے قریب گائے بیل کی چراگاہ بھی تھی۔ مولانا حق نواز کے مطابق یاک، زوئے اورخوش گاؤ اور ان کی اقسام اپنے چراگاہ میں دوسرے جانوروں کو برداشت نہیں کرتے۔ واقعتا یاک والے چراگاہ میں سینکڑوں یاک خوش گاؤ دِکھتے اور دور دور تک گائے بیل نظر نہیں آئے۔ شندور اور لنگر میں بھیڑ بکریوں کے بڑے بڑے ریوڑ چرتے دیکھا، بکریوں کی شکلیں ہرن کی طرح تھی۔ جسامت کے چھوٹے چھوٹے۔ بھیڑ چاروں پاؤں اٹھا کر ایک عجیب چھلانگ لگاتے اور بہت تیز دوڑتے۔ بکریوں اور بکروں کی ظاہری شکل و صورت پر مولانا حق نواز صاحب نے یوں تبصرہ کیا’’ چونکہ یہ پہاڑی علاقہ ہے۔ ہرنوں کی تعداد وافر ہے۔بھیڑ بکریوں کی ظاہری شباہت سے اختلاط نسل کا گمان ہوتا ہے۔سننے میں آیا ہے گوشت کے ذائقے ، چلت پھرت اور شکل و شہباہت میں ہرن اور بکریوں میں کوئی واضح تضاد نظر نہیں آتا‘‘۔ ان کی وضاحت سن کر قاضی صاحب بولے۔ لگتا ہے کہ آپ نے جنگلی جانوروں پر بڑی تحقیق کی ہے‘‘ انہوں نے سنجیدگی سے اثبات میں جواب دیاجس پر ہماری قہقہوں سے محفل زردزعفران بن گئی۔
عین وسط شندور گراؤنڈ سے تا حد نگاہ ہریالی ہی ہریالی تھی اور چوٹیوں کے ٹاپ پر برف کی سفیدی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ کسی کہنہ مشق رنگساز نے تمام چوٹیوں پر سفید رنگ سے رنگا ہے۔یہ چمکتا سفید رنگ یہاں پڑی برف کا تھا۔ اگست کے مہینے میں اتنی برف اور برفیلی ہوائیں۔ یہ خدائے ذوالجلال کاقدرتی ڈیپ فریزر ہے اور پوراشندور آٹھ مہینے برف سے ڈھکا ہوتاہے اور روڈ بند ہوجاتا ہے۔پہاڑی چوٹیوں پر پوراسال برف موجود رہتی ہے۔ فلک بوس پہاڑیاں اور دل و دماغ ماؤف کردینے والی ٹھنڈ۔ برف، گلیشیر، برفانی دراڑیں، برفانی تودے ، میٹھے پانی اور شندور جھیل کی جھلملاہٹ یہاں کی سوغات ہیں۔اتنے سخت موسم اور ٹھنڈک میں بھی جنگلی جانور یہاں موجود ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ مارخور، ہرن،بارہ سنگا،برفانی چیتا ،برفانی گیدڑاور برفانی لومڑی برفیلے پہاڑوں اور کھائیوں میں بسیرا جمائے ہوئے ہیں۔لوگ ان کا شکار بھی کرتے ہیں ۔یہ خونخوار درندے اکثر بھیڑ بکریوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور بڑا نقصان کرجاتے ہیں۔
شندور کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا، جو دوست وہاں سے ہوکر آئے تھے یا کبھی وہاں سے ان کا گزر ہوا تھا ان کی بیتیاں بھی سن کر ہم دل ہی دل میں ارمان سجائے بیٹھے تھے۔یار لوگوں سے سنا تھا کہ شندور میلے کا اپنا رنگ ہوتا ہے مگر مجھے تو یوں محسوس ہوا کہ یہ میلہ جولائی کے بجائے اگست کے اواخر میں ہو تو شاید زیادہ رنگینی ہو۔کیونکہ جولائی میں وہاں ٹھیک سے سبزہ بھی نہیں اُگتا ہوگا۔اب میں خود ا س کی ظاہری و باطنی خوبصورتی سے محظوظ ہورہاتھا۔مجھے بہار کا احساس ہوررہاتھا، کیونکہ شندور میں پھول جھوم جھوم کرمعانقہ کررہے تھے۔ ان کا یوں سرِ راہ گلے میرے لیے تکلیف دہ تھا، میں بھی کوئی گُل ہوں کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ کسی کی یاد میں ایک سرد آہ بھر لی۔اس بدیہی حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ مر د کی زندگی میں سرور، لطف اور بہار اس وقت آتی ہے جب اس کا محبوب اس کے پاس ہو۔وصالِ یار نصیب ہو تو خزاں میں بھی خزاں کی تلخیوں سے طبیعت مضمحل نہیں ہوتی ۔مرد اور عورت لازم و ملزم ہیں۔ جنت میں باوا آدم ؑ کا دل نہ لگا تو انہوں نے خالق دوجہاں کی دربار میں ایک ہم جنس کی اپیل دائر کردی، اور اللہ نے آدم ؑ کو امی حواؑ ودیعت کی۔یار لوگ تو امی حوا ؑ کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمؑ کو باغِ عدن سے نکلنا پڑا مگر یہ تو نری حماقت ہے ۔ علت وہ نہیں بنی بلکہ اللہ کو اپنی دنیا بسانی تھی۔ ایسی دنیا جہاں شندور جیسی شاہکار جگہیں ہوں۔شندور میں مجھے کوئی یاد آرہا تھا، دل میں ٹیسیں اٹھ رہی تھی ۔حق نواز صاحب تو بار بار اپنے ہم جنس کو یاد فر ماتے ۔حیلے بہانوں سے تذکرہِ یار سے محفل کشت زعفران بنا دیتے۔کسی اچھے مقام پر، ہریالی کے آغوش میں، مختلف النوع کھانوں کے دسترخوان پر،بہتے جھرنوں کے دامن میں، جھیل کنارے اورشگفتہ محفلوں میں انہیں’’وہ‘‘ یاد آتی اور آہیں بھرتے۔ اس بڑھاپے میں بھی یہ ذوق سلیم اور دریا دلی۔ ہمارے جیسے معاشروں میں ایسی روایات متروک سمجھی جاتیں ہیں۔ ہم نے خود کو ایک خول میں بند کررکھا ہے۔ہم میں ہر ایک اس مخصوص خول سے نکلنا چاہتا ہے مگر معاشرتی رویوں اور ناہمواریوں کی وجہ سے ہم نے کئی کور پہن لیے ہیں اور ایک بناوٹی تصنع سے دوسروں کو مرعوب کرتے ہیں مگر فطرت سے انکار ممکن نہیں۔اور ہم تھے کہ یاد کرنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتے ۔کیونکہ ہم سے تو سب کچھ لٹ چکا تھا یا لوٹ لیا گیا تھا۔اس معنوں میں ہم شندور سے مکمل لطف اندوز نہ ہوسکے۔
آگست کے آواخر میں ہری ہری باریک کونپلیں ، ہرطرف کھلے پھول اور سبزہ میں بہار کا اختتام نظر�آیا۔محسوس ہوتا تھا کہ نارمل موسم ختم ہوتا جارہا ہے اور سردی زور پکڑ رہی تھی۔لوگوں کو سویٹر اور اورکوٹ پہنتے پایا، چوٹیوں پر برف میں کمی آچکی ہے۔ گلیشیر سے پانی نالوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہی نالے دریا کاوجود ہے۔ برف پوش پہاڑی چوٹیوں کی سنگلاخ چٹانیں نظر آتی تھیں اور وہاں سے پانی رواں بہتادکھائی دیتا تھا۔ہماری گاڑیوں کے شیشے بھی کھلے تھے۔نظر اٹھا کر اوپر دیکھیں تو پانی گویا پہاڑ کی چوٹی سے آتا محسوس ہوتا تھا۔اور پھرشندور سڑک کے ساتھ ساتھ چند مکانات بھی نظرآتے تھے۔ چھوٹی بڑی آبادیاں بھی تھیں۔ کہی کہی پر کوئی مسافر مع فیملی خیمہ زن دکھائی دے رہے تھے۔ لوگ گوبر سکھا کر گدھوں پر لادتے روڈ کنارے چل رہے ہیں۔یہ سب دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ یہ کلمات نکلے۔’’ فبأی آلا ء ربکما تکذبان‘‘ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
چترال سولاسپوسے پھنڈر گلاغخمولی تک کے درمیانی جگہوں میں ہم کئی بار اترے، ہر چشمہ اور بہتے پانی کے پاس اترتے اور میٹھے پانی سے شکم سیر ہوتے۔ قاضی نثاراحمد صاحب جگہ جگہ وضوء کرتے ۔ وہ سفر اور حضر دونوں میں اکثر باوضو رہتے ہیں۔ قدرت کی صناعیوں پر تبصرہ کرتے۔ ہماری گاڑی کے ساتھ ڈھولتی کشتی بھی متصل چلتی ۔ مولانا منیر اور محمدنواز بھی مختلف مقامات پر اتر کر، اچھے تبصرے و تجزیے فرماتے۔حق نواز صاحب کی وجہ سے تو سفر کا مزہ دوبالا ہوتا۔ جب ہم چترال جارہے تھے تو ہمارے ساتھ عمرحسن بھی تھا مگر واپسی پر وہ نہیں آئے تھے۔ چترال سے بذریعہ سوات کراچی چلے گئے تھے۔
شندور ٹاپ پر جب مولانا منیر نے آذان دی تو بہت ہی مزہ آیا۔ یخ پانی سے وضو کیااور کھلے آسمان تلے قاضی صاحب کی اقتداء میں باجماعت نماز ادا کی۔یہاں ہمیں قبلہ کی شناخت درپیش آئی جو مقامی لوگوں نے حل کردیا۔ افسوس تب ہوا جب کچھ نوجوانوں سے قبلہ پوچھا تو وہ مبہوت ہمیں دیکھنے لگے۔ہم میں مسلمانیت کی رمق کتنی باقی رہی ہے یہ اس بات سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو قبلہ تک کا بھی علم نہیں۔ پھر بھی ہم نصرت خداوندی کے منتظر ہوتے ہیں اور نہ ملنے پر شکوہ بھی کرتے ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ علماء متشدد ہوتے ہیں۔ جائز سیر و سفر اور سیاحت کے بھی مخالف ہوتے ہیں مگر حقیقت کا اس سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ ہمارے اس سفر میں سیکورٹی کے علاوہ تمام علماء تھے مگر مجھے کہیں پر بھی ایسی کوئی بات محسوس نہیں ہوئی کہ سفری رخصتوں پر ہمیں ٹوکا گیاہو۔حق نواز صاحب اور قاضی صاحب نماز کے حوالے سے اکثر متفکر رہتے اور جہاں کہی موقع ملتا نماز کے لیے گاڑیاں رکواتے ۔ اب اگر سفر کا نام دے کر نماز بھی ترک کردی جائے اور الزام بھی علماء اور دینداروں کو دیا جائے تو یہ صریح خیانت اور ناانصافی ہے۔
ہم شندور سے خریت سے پہنچے مگر میرادل وہاں کہیں رہ گیا ہے۔میرا دل زبردستی مجھ سے نکلا اور شندور کی خوبصورت جھیل میں گم ہوا۔ میرے تمام احساسات وہاں کہی رہ گئے ہیں۔شندور سے میرا رابطہ کسی کے ساتھ نہیں ہورہا تھا اور ہوتا بھی کیسے۔ میرادھیان موبائل فون کی طرف قطعا نہیں گیاتھا ۔ مجھے کسی کی کال اور مسیج کا انتظار نہیں رہتا تھا۔ میں جہاں دیکھتا وہاں کھو جاتا ۔آج بھی مجھے وہ مناظر بڑے تنگ کرتے ہیں۔ انشاء اللہ اس خوبصورت حسین پری زاد وادی میں دوبارہ جانے کا بھی موقع ملے گا۔(جاری)