کالمز

بے ثمر، بے معانی

جس کا ڈر تھا وہی ہوا ۔ عجلت اور بے سوچے سمجھے کاموں کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ جس مقصد کے لئے کسی کام کو شروع کیا جاتا ہے وہ کام پایہ تکمیل کے بجائے مزید خرابی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ انسان جو بھی کام کرتا ہے اس میں نیت کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور اللہ بھی ہر کام میں انسان کی نیت ہی دیکھتا ہے ۔ظاہر ہے کہ انسان کی نیت یا ارادہ نیک بھی ہو سکتا ہے اور بد بھی اور انسان جس نیت سے کام کرے گا اللہ اسے ایسا ہی اجر عطا کریگا نیک کام کا اجر اچھا اور بد کام کا صلہ عذاب کی صورت میں انسان کے سامنے ہوگا ۔۔ یہ تو اللہ کے ہاں جزا اور سزا کا حساب ہے لیکن انسانوں کی اس دنیا میں ظاہر کو دیکھ کر اندازے اور کام کے اچھا یا بد ہونے کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے ۔کچھ ایسا ہی حال گلگت بلتستان کی حکومت کی طرف سے حال ہی میں تشکیل پانے والے علماء مشاورتی بورڈ کا لگتا ہے اور اس کی تشکیل کے ساتھ ہی چاروں طرف سے مخالفت شروع ہو چکی ہے۔۔ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں یقینا انہوں نے یہ کام نیک نیتی سے شروع کیا ہے اور حکومت اپنے خلوص دل سے بنیادی مقصد امن کو جو خطے کے عوام بھی دل وجان سے چاہتے ہیں امن و امان کا قیام اور بھائی چارے کی فضاء کو برقرار رکھنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے ۔لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ علماء مشاورتی بورڈ کو تشکیل دینے میں حکومت نے بڑی عجلت کا ثبوت دیا ہے اور اس کی تشکیل کے لئے جن لوازمات کی ضرورت تھی ان کی طرف دھیان اور پورا کئے بغیر بنا کسی مشاورت کے عارضی ملازم کے تقرر نامے کی طرح بس ایک حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ اب وہ لوازمات کونسے ہیں جو حکومت کو پورے کرنے چاہئے تھے۔۔ان کا تذکرہ یاں بے معانی ہے ۔

Hidayat Ullahجہاں تک میری معلومات ہیں اس کے مطابق حکومت نے علماء مشاورتی بورڈ کی تشکیل سے پہلے مکمل ہوم ورک نہیں کیا ہے جس کا یہ بورڈ متقاضی تھا ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اس علماء بورڈ کے بارے اب انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔۔ اپنی عجلت کا جواب تو حکومت خود بہتر دے سکتی ہے لیکن حکومت کی اس عجلت کی وجہ سے جو بڑا نقصان نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ جس مقصد کے تحت اس بورڈ کی تشکیل کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی وہ مقصد پس منظر میں چلا گیا ہے اور اب اس کی جگہ مفادات کی جنگ نے لے لی ہے ۔ محسوس یہی ہو رہا ہے کہ اس بورڈ کا بھی وہی انجام ہونے جا رہا ہے جو انجام اس سے پہلے امن معاہدوں اور دیگر امن قائم کرنے والے بورڈ اور اداروں کا ہوا ہے ۔۔ یہ سب اس لئے ہوا ہے کہ حکومت نے علماء بورڈ کی تشکیل میں نہ تو اس خطے کی دو بڑی مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی اپوزیشن جماعت سے کوئی مشورہ کرنے کی زحمت گوارا کی ہے ۔۔۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بورڈ کی تشکیل دینے سے پہلے مشاورت کا ایک وسیع سلسلہ شروع کیا جاتا اور سیمنارز منعقد کئے جاتے اور تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء کی آرا سے اس بورڈ کی تزئین کاری کی جاتی لیکن حکومت نے اسے قابل تقلید نہیں سمجھا اور نہ ہی گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں کے گراں قدر مشورے اور تجاویز جو کالموں کی شکل میں مختلف اخباروں میں چھپے ان کو قابل غور سمجھا ۔۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حکومت کا علماء بورڈ کا قیام بھی علاقے میں امن سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صوبائی حکومت اپنے منظور نظر علماء یا وہ حضرات جن کے چہروں میں خیر سے رسول کی سنت بڑی زرخیز قسم کی ہو مراعات سے نوازنے اور ساتھ ہی آنے والے الیکشن کے لئے اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔

اس بات سے کسی کو انکار کیسے ہو سکتا ہے کہ خطے میں امن نہ ہو اور کون سا ایسا بد بخت ہوگا جسے اپنے خاندان اور عزیزوں کی سلامتی عزیز نہ ہو۔ امن ضروری بھی ہے اور امن ہی شرف انسانیت اور امن ہی انسانیت کی ضرورت ہے۔۔۔ جب سب کا مقصد ایک اور خطے میں امن کا قیام ہے تو پھر کیوں نہ اس کو باہمی اور اتفاق سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔۔اس لئے ہمارا مفید اور مفت مشورہ حکومت کو یہ ہے کہ حال ہی میں تشکیل پانے والے گلگت بلتستان علماء مشاورتی بورڈ کی از سر نو تشکیل بے حد ضروری ہے اور اس بورڈ کو اس کی اصل روح کے مطابق بنانے کے لئے خطے کی مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر انہیں اس کشتی کا مسافر بنانے کی کوشش کی جائے ۔تاکہ اس بورڈ کے ثمرات سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت کی یہ کوشش بے ثمر اور بے معانی ہو کر رہ جائیگی ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button