مرحوم خلیفہ علی حرمت اور موسیقی
مرحوم خلیفہ علی حرمت کی ناگہانی موت کا سن کر میں اپنے بچپن کے ان سنہرے اور حسین لمحات میں کھو گیا جب ذکرو فکر کی روحانی محفلیں بڑے احتمام سے ہوا کرتے تھے ۔اور مرحوم جیسے خوش الحان شخیصیات کی سحر انگیز آواز سے روحانی شادمانی و فیض حاصل کرنے لوگ دور دور سے ان محفلوں میں شرکت کرتے تھے اور مجھ جیسے نادان بچے صرف پیٹ بھر کر کھانے کے لئے ہی جاتے تھے ۔
مرحوم حُضور موکھی، خلیفہ، اُستاد علی حُرمت کو خدا وند کریم جوار رحمت میں جگہ عطا فرماے, آمین، یہ ہنزہ کے ان خوش قسمت خدمت گاروں میں سے تھے جنہوں نے اپنی آواز سے لوگوں کے دلوں میں ایمان کی حرارت پیدا کرتے رہے ، شاہد ہی ہنزہ میں کوئی ایسا ہو جنہوں نے انکی پر سوزاور روحانی حلاوت سے بھر پور آواز نہ سنی ہو۔ ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ دعوت بقا کی محفلوں میں جہاں علی حرمت ، سرور اور خلیفہ ہا شم جیسے ذاکر اور خوش الحان قیصدہ خوان موجود ہوں میں شرکت باعث خیر و برکت سمجھتے تھے۔
خلیفہ حرمت، گنان خواں سرور،اور خلیفہ ہاشم سر زمین ہنزہ کی وہ نایاب آوازیں ہیں جن کو سنو تو انسان سحر میں ڈوب جاتا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ خدا و ند کریم کی جب خاص عنایت ہوتی ہے تو انسان کو اپنی آواز کی بدولت اَمر ہو جاتا ہے۔ان ہستوں کو جب بھی سنے کا موقعہ ملتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ انکی خوبصورت آواز ان کے گلے یا سینے سے نہیں، بلکہ انکی روح کی تاروں کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے۔ عصر حاضر کی ضرویات بے شک بدل چکے ہیں مگر انسانی روح کے لئے آسودگی،چین و سکون کا سامان ان پرکشش، دلفریب و دلاآویز راگوں میں ہی پنہاں ہیں ۔ نعت خوانی ، قصیدہ و گنان خوانی میں ان ہستیوں نے اپنی آواز کے زریعے جو راگ الاپا وہ آنے والے وقتوں میں شاہد ہی کوئی کر سکے ۔
دنیا کی کوئی قوم موسیقی کو فراموش نہیں کر سکتی، ہماری پیدائش سے لے کر وفات تک زندگی کے تمام تر گوشوں کا تعلق راگ ، موسیقی سے ہے ۔چاہے وہ مذہبی رسومات ہوں یا دنیاوی میل جول ، شادی پیاہ ہو یا ہجر کی راکھ، انفرادی رنج و عالم کا سماں ہو یا اجتماعی خوشگوار لمحات، موسیقی و راگ کا ہماری روح سے تعلق ہے ، مندروں میں بجھن ہو یا کلیساوں میں زبور کے گیت ،قرآن کی تلاوت ہو یا آذان کی صدا ، نعت خوانی ہو یا مرثیہ خوانی،یا گنان خوانی ۔وغیرہ شعوری یا لاشعوری طور پر ہم ہر لمحہ ، ہر وقت راگ الاپتے رہتے ہیں، اور اگر ان خوبصورت راگوں کو خلیفہ ہاشم ،یا نصرت فتح علی خان وغیرہ جیسے خوبصورت راگوں کے مالک چھیڑے تو محفل میں موجود سامعین پر سحر طاری کرتے ہیں سنے والوں پر رقت طاری کرتے ہیں اور یقینا جن کو ان ہستیوں کے ساتھ محفلوں شامل ہونے کا موقعہ ملا ہے اسکا مشاہدہ کیا ہوگا۔
وقت کے ساتھ نظریات میں تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔مگر جن بنیادوں پر معاشرے میں ہم آہنگی قائم سے ان سے بغیر کسی متبادل کے منہ پھیرنا نقصان کا باعث ہے ۔ اور نہ یہ دانشمندی ہے ہر معاشرے کی طرح ہنزہ میں بھی لوگوں کے کردار سازی ، اتفاق و اتحاد، ملی یگانگت ، اور اسلام کی سمجھ میں قصیدہ گوئی و گنان خوانی نے ایک اہم کردار ادا کیا ۔ ْقصیدہ گوئی نے نہ صرف تخلیق کار پیدا کی بلکہ لوگوں میں علم کی طرف رجہان بڑھایا۔
آج ہم جسطرح انتشار کا شکار ہے اس کی ایک اہم وجہ ان محفلوں یا سماجی و معاشی اجتماعات کا نہ ہونا ہے جسکی وجہ سے لوگوں کا مل جلنا ناپید ہوچکا ہے ، خلیفہ ہاشم مرحوم جیسے لوگوں کی شیرین آوازوں کو جب جب بھِی سنیےگے ہمیں ایسے اجتماع یا محفلوں کی شیرینی ضرور یاد آءے گی ۱