’’کیلاشِ ویلنٹائن ڈے ‘‘
تحریر: امیر جان حقانی
کیلاشِ مذہب اورکیلاشِ تہواروں اور ثقافت پر گفتگو جاری ہے۔ مجھے یہ جا ن کر حیرت ہوئی کہ کیلاش لوگ تہواروں کو بطور مذہبی فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ وہ تہواریں اس لیے مناتے ہیں کہ ان کے دیوتا ان سے راضی ہوجائیں۔ وہ ان تہواروں میں بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور انتہائی شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ کیلاشِ قبرستان کے دامن میں زلفیں بکھراایک نوجوان سے میری گفتگوئیں ہوئی۔ جب تہواروں کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ کیلاشیوں کے ہاں سال کے مختلف مہینوں میں مختلف چہلم یا تہواریں منائی جاتیں ہیں۔ مثلا ان کا ایک چہلم یا تہوار ’’ چہلم چوشٹ، جوشی یا جوش ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ چہلم گرمیوں میں چودہ مئی سے سولہ مئی کے دوران منایا جاتا ہے۔ اس چہلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کیلاشیوں سے زیادہ ملک اور بیرون ملک کے سیاح شرکت کرتے ہیں۔اس چہلم کے بعد کیلاشی لوگ بھیڑ بکریوں کو چراگاہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ کیلاش کی تینوں وادیوں کے لوگ بمبوریت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اس کیلاشی نوجوان کے گفتگو سے یہ اندازہ لگایا کہ آج کل یہ چہلم کیلاشیوں کی معاشی شہِ رگ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔ اس چہلم کی وجہ سے بمبوریت کے مکینوں کی سال بھر کی کمائی ہوجاتی ہے۔ ہمارے رہبربھائی نورمحمد بتارہے تھے کہ امسال بمبوریت میں اس چہلم کے دوران نارمل ہوٹلوں میں بھی ایک کمرہ دس ہزار کا بک ہوا ہے ایک رات کے لیے۔ یعنی سیاحوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ دس ہزار پر بھی کمرہ نہیں ملتا۔
چہلم جوشٹ کے لیے مئی کے ابتداء سے تیاریاں شروع کی جاتیں ہیں اور اس چہلم کو کیلاش کی تینوں وادیوں میں مذہبی تہوار کا درجہ حاصل ہے۔کئی دنوں سے دودھ جمع کیا جاتا ہے اور اس دن دودھ کی تقسیم وافر مقدار میں ہوتی ہے۔اس چہلم میں کیلاشی خواتین ڈھول کی تاپ پر رقص کرتی ہیں۔ اس چہلم کا آخری دن انتہائی اہم ہوتا ہے۔ کیلاش کی بوڑھی اور نوجوان دو شیزائیں ہر قسم کے روایتی ناچ پیش کرتی ہیں۔کیلاشی مرد اور دیگر سیاح خواتین کا رقص سے دن بھر محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور داد دیتے ہیں۔چہلم جوشٹ کے دن کیلاشی جڑی بوٹیوں کے عرق ملاپانی سے نہاتے ہیں اورزرق برق لباس میں ملبوس دوشیزائیں، موتیوں سے سجی کیلاشی ٹوپیاں ، اور ٹوپیوں پر سجے مرغ زریں کے پروں کے گچھوں سے بنے پھول ، ان پھولوں کی خوبصورتی، گلوں میں موتیوں کی مالائیں اور پیٹھ میں بندھے کمر بند اور لمبے لمبے جبے پہنے کیلاشی خواتین اور ان کا ناچنا، ٹہلنا ، مسکرانا، اِترانا، پلٹ کر دیکھنا ،دیکھ کرلجانے شرمانے اور معصوم اداؤں سے اس چہلم کو زندہ و جاوید بنا دیا جاتا ہے تب تو ایک دنیا مارے مارے یہاں پہنچتی ہے۔
کیلاشیوں کی گفتگو سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دن کیلاشیوں کا یوم محبت ہے۔ یعنی کیلاشِ ویلنٹائن ڈے۔میری خیال میں اظہار محبت کا یہ طریقہ پوری دنیا میں انوکھا ہوگا۔ چہلم جوشٹ کے تیسرے دن کیلاشی عورتیں خوب رقص کررہی ہوتی ہیں اور اسی اثنا محبتوں کا اظہار شروع ہوجاتا ہے۔ کیلاش کے نوجوان لڑکے لڑکیا ں میدان میں اتر جاتے ہیں اور سرعام اتنے بڑے مجمع کے سامنے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتے ہیں اور شادی کے بندھن میں بندھنے کا وعدہ ہوجاتا ہے۔ اور پورا میدان میدان شادی بن جاتاہے اور مبارک بادیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔بس یوں سمجھے کہ کیلاشیوں کی شادیاں ایسے ہی ہوتی ہیں۔اور شادی اور اظہار محبت کے بعد بھاگنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے جو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ جب نوجوان لڑکے لڑکیا ں میدان عشق وفا میں اتررہے ہوتے ہیں اس وقت ان کا دیہار (مذہبی پیشوا) سبز ٹہنیاں اور پھول ہاتھ میں لیے ان کا استقبال کررہا ہوتاہے اور وہ سرور ومستی کے عالم میں ہاتھوں میں ہاتھ دیے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ چہلم پاکستان کا معروف ترین چہلم ہوتا ہے۔
جہاں چہلم جوشٹ کا میلہ منعقد ہوتا ہے وہاں کھڑے ایک نوجوان سے میں نے سوال کیاکہ کیا آپ شادی شدہ ہے۔ تو اس نے کہا کہ دو ماہ پہلے میرا اظہار محبت ہوچکا ہے۔ سمجھ لو میں شادی کے بندھن میں بندھ چکا ہوں۔ اس کے ساتھ کھڑی ایک نوجوان لڑکی سے پوچھنے کی جسارت کی تو اس کا جواب تھا کہ ہمارا اظہار محبت اگلے سال ہوگا۔ ابھی ہماری درمیان انڈرسٹینڈنگ ہورہی ہے۔
چہلم جوشٹ کے علاوہ بھی کئی مذہبی تہواریں یا چہلم منائے جاتے ہیں۔ اچال کی تہوار فصلوں کی کٹائی کے لیے منعقد ہوتا ہے۔ یہ چھوٹے پیمانے میں منایا جاتا ہے۔ رقص و سرور اور قربانیاں اور دودھ کے نذر و نیاز پیش کیے جاتے ہیں۔سننے میں آیا ہے کہ ستمبر کے آواخر میں پوڑ /پورل’’Porl ‘‘ نامی چہلم بھی منایا جاتا ہے۔ جس میں ایک نوجوان بڈلاک کے نام سے کیلاشیوں کا ہیرو ہوتا ہے۔ یہ تہوار چرواہوں کی پہاڑی چراگاہوں سے خریت سے واپس پر منایا جاتا ہے۔ اس تہوار میں بہت کچھ کے ساتھ اہم بات یہ ہوتی ہے شراب کا استعمال عام ہوتا ہے۔ اس بڈلاک نوجوا ن کو پہلے سے منتخب کرکے سال بھر پالا جاتا ہے اور اس کی خوب خاطر مدارت اور تواضع کی جاتی ہے اور اس تہوار میں عورتیں اس کے سامنے بچھ بچھ جاتیں ہیں اور بے اولاد خواتین اس نوجوان سے خصوصی طور پر متمتع ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کی مذہبی روایات کے مطابق یہ ان کے لیے خیر کا باعث بن جاتا ہے۔کیلاشیوں کا ایک اور مشہور چہلم یا جشن چڈماس بھی ہے جو دسمبر میں منایا جاتا ہے۔
میں نے شہزادہ خان کے گھر میں شہتوت کھائے تھے اور ان سے بہت ساری باتیں بھی کی تھی۔ شہزادہ خانے کے بیٹے کے ساتھ اس کے گھر کے اندرونی منظر بھی دیکھا تھا، اس کانام خان باچا ہے خان باچا انٹرپارٹ ون کا طالب علم ہے اس نے سال 2014ء کو نوعمری میں شادی کی ہے۔ چہلم جوشٹ کے آخری دن خان باچا نے ماریہ سے اظہار محبت کیا، ہاتھ پکڑا اور رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ ماریہ بھی کلاس دہم کی طالبہ تھی۔وہ برون کے معتبر شخص کامران خان کیلاش کی بیٹی ہیں ۔شادی کے وقت خان باچا اور ماریہ میٹرک کا امتحان دے چکے تھے اب دونوں گیارہویں کے اسٹوڈنٹ ہیں۔وہ انتہائی نو عمری میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے اورنئی زندگی کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ اس چہلم یامیلے کو خان باچا اور ماریہ نے لوٹ لیا اور تمام کیلاشی اور مسلمانوں نے ان دونوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ کیلاشیوں کے ہاں بھی ان شادیوں میں زیادہ تر ایسی شادیاں ہوتی ہیں ۔کہ ان میں ہر دو طرف والدین کی مرضی اور منشاء شامل نہیں ہوتی ۔ اس کے باوجود والدین اولاد کے اس پسند کو دل سے قبول کرتے ہیں ۔ اور ان کی خوشی کو کسی بھی صورت متاثر ہونے نہیں دیتے ۔ یعنی کیلاشی بوڑھے بھی اس ویلنٹائن ڈے کا احترام کرتے ہوئے آئندہ ان نوبیاہتا جوڑوں کی خوشی اور شادی کودل سے قبول کرلیتے ہیں۔بقول شہزادہ خان کے باچا خان اور ماریہ کی شادی ہوئی مگرجوشی کے دن سے قبل مجھے اور ماریہ خان کے گھر والوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔انہوں نے انڈرسٹینڈنگ کی اوراظہار محبت کرکے شادی کے بندھن میں بند ھ گئے اب دونوں خوش ہیں‘‘۔ماریہ اور خان باچا بھی یہی کہتے ہیں کہ ان کی محبت کاپہلے سے کسی کو معلوم نہیں تھا۔سو جیتے رہو ماریہ اور خان باچا۔