چترال، دور افتادہ وادی بروغل کے نہایت پسماندہ گاؤں چکار کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں
چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے نہایت دور افتادہ اور وادی بروغل کے نہایت پسماندہ گاؤں چکار کے لوگ اس جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ چکار بروغل کے چترال سکاؤٹس کے چھاؤنی سے تین کلومیٹر وادی یاسین کی طرف پہاڑوں کے بیچ میں آباد ہے۔
اس گاؤں تک جانے کیلئے نہ تو کوئی سڑک ہے نہ کوئی کچا راستہ۔ لوگ زیادہ تر گھوڑوں، یاک یا پھر گدھوں پر سواری کرکے اپنے منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔
یہ علاقہ سینکڑوں نفوس پر مشتمل ہیں مگر پاکستان بننے کے بعد آج تک کسی سرکاری ادارے نے یہاں کوئی ترقیاتی کام نہں کیا ہے۔
گاؤں کے خواتین دستکاری کرتے ہوئے اس سے اپنے اہل حانہ کیلئے رزق کمانے کی کو شش کرتی ہیں تاہم اس گاؤں کے آس پاس بھی کوئی سکول، ہسپتال، ڈسپنسری، کالج ، ٹیلیفون، موبائل وغیرہ کچھ بھی نہں ہے۔
ہمارے نمائندے سے اس دور افتادہ گاؤں کا دورہ کرکے مقامی لوگوں سے بات چیت کی۔ اس گاؤں میں صرف دو لڑکیاں پانچویں جماعت میں پڑھتی ہیں اور وہ بھی روزانہ دو گھنٹے پیدل سفر کرکے ایک غیر سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔
یہاں کے زیادہ تر لوگ واخی زبان بولتی ہیں بہت کم لوگوں کو کھوار (چترالی زبان) یا اردو آتی ہے ۔ چند طالبات نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس گاؤں میں کوئی سکول، کالج یا ہسپتال نہیں ہے ۔ خواتین کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حاص کر زچگی کے دوران ان کو چارپائی پر ڈال کر کئی کلومیٹر دور پیدل سفر کرکے کچے سڑک تک پہنچ جاتی ہے اس کے بعد ہزاروں روپے ٹیکسی کو ادا کرکے ان کو یارخون لشٹ میں ڈسپنسری کو لائی جاتی ہے تو اس دوران بہت کم خوش قسمت مریض زندہ بچ جاتی ہیں ورنہ اکثر خواتین اس سڑک کی حراب حالت کی وجہ سے راستے میں اللہ کو پیاری ہوجاتی ہیں کیونکہ سڑک نہایت حراب ہے۔
ان لوگوں نے بتایا کہ سیاستدان ووٹ کے وقت تو ہمارے علاقے میں یا خود آتے ہیں یا اپنے نمائندے کو بھیج دیتے ہیں مگر ووٹ لینے کے بعد آج تک کوئی نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اب بھی یقین نہیں آتا کہ ہم پاکستانی ہیں کیونکہ حکومت پاکستان نے نہ تو ان کیلئے کوئی سڑک بنایا نہ سکول یا کالج حتیٰ کہ اس پورے وادی میں کوئی ہسپتال بھی نہیں ہے۔
اس گاؤں میں زیادہ تر خواتین تھیں کیونکہ ان کے مرد حضرات محنت مزدوی کے عرض سے یہاں سے دوسرے اضلاع یا صوبوں کو جاکر اپنے اہل حانہ کیلئے پیسے کماتے ہیں۔
مقامی لوگوں میں سے اکثر نے آج تک کوئی گاڑی، کمپیوٹر، بجلی، ٹیلیویژن، یا کوئی جدید مشنری نہیں دیکھی ہے۔ انہوں نے عجیب انکشاف کیا کہ پچھلے سال جب پاک فوج کے انجنئرینگ سٹاف نے چھاؤنی تک سڑک بنایا اور اس وادی میں پہلی بار گاڑی آئی تو وادی بھر کے لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھتے رہے اور یہ بھی پوچھا گیا کہ یہ گاڑی کونی گھاس کھاتی ہے؟۔
یہاں کے باشندوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ وہ بھی پاکستانی ہیں اور ان کو بھی دیگر علاقوں کے شہریوں کی طرح بنیادی حقوق اور سہولیات فراہم کی جائے کیونکہ یہاں کے لوگ نہایت پر امن اور محب وطن پاکستانی ہیں تمام تر مشکلات کے باوجود انہوں نے آج تک اپنے حق کیلئے کوئی احتجاج نہیں کیا ہے۔