آوارہ کتے اور بھیکاری
صبح صبح اخبارات پر ایک نظر دوڑا نے پر دو دلچسپ خبریں توجہ کا مرکز بنیں، ایک اخبار نے گلگت شہر میں آوارہ کتوں کا راج ہونے کے باعث عوام خوف وحراس میں مبتلا ہونے جبکہ دوسرے اخبار نے شہر میں غیرمقامی بھیکاریوں کی تعداد میں اضافہ کے باعث عوام میں تشویش کو خاصا اجاگر کیا تھا لیکن دونوں مسائل کے تدارک کے حوالے سے مقامی انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات سے متعلق کسی بھی ذمہ دار کا موقف دیکھائی نہیں دیا۔
میں اخبارات سے فراغت کے بعد معمول کے کام میں مگن تھا کہ باہر سے ایک مہمان دفتر میں تشریف فرما گئے اور ٹیبل پر پڑے اخبارات اٹھاتے ہوئے مجھے سے پوچھنے لگے کہ اخبارات میں کیا نئی تازی ہے۔ جواب میں عرض کیا کہ بھائی صاحب سیاسی خبروں کی گرماگرمی سے ہٹ کرصوبائی دارالخلافہ میں ان دنوں آوارہ کتوں اور غیرمقامی بیکاریوں نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے جس پر وہ صاحب زور سے ہنسنے لگے تو میں نے اخبارات اٹھاکر ان دونوں خبروں کی طرف ان کا توجہ دلایا۔ وہ صاحب دونوں خبروں کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوکرکہنے لگے کہ ان دونوں خبروں کو ملانے سے آپ کو کالم لکھنے کے لئے بہترین موضوع مل سکتا ہے اور انہوں نے اصرار کیا کہ میں آئندہ کا کالم کسی سیاسی ایشو پر لکھنے کی بجائے اس طرح کے سماجی ایشو پر ہی لکھ دؤں۔میں نے عرض کیا کہ جناب میں تو اس قسم کے ایشوز پر کئی بار کالم لکھ چکا ہوں اس کے علاوہ علاقائی اخبارات میں اس طرح کی خبریں جو صحافتی زبان میں (ٹیبل سٹوری کہلاتی ہیں) آئے روز شائع ہوتی ہیں لیکن اس سے علاقے یا عوام کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس قسم کے ہزاروں ایشوز موجود ہیں جو حاکم وقت کی عدم توجہی کے باعث عوام اور علاقے کے لئے بلواسطہ یا بلاوسطہ طور پر تکلیف کا سبب بن رہے ہیں مگر کوئی بھی ان ایشوز کو حل کرنے کے لئے سنجیدیدگی سے اقدامات کرنے کو تیار نہیں نہ ہی عوام میں وہ غیرت باقی رہ گئی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی ایشوز کے حل کے لئے ذمہ دار حکام کا گریباں پکڑ سکے۔
میں نے اپنے مہمان کو چائے کی آفر کے ساتھ ساتھ آوارہ کتوں کی ہٹ دھرمی اور بھیکاریوں کی بہتات کے علاوہ علاقے میں صفائی کی ناقص صورتحال، پانی اوربجلی کا مفلوج نظام،گلی محلوں میں واقع لنک روڑز کی خستہ حالی، سیوریج سسٹم کا فقدان،تعلیمی وطبی اداروں کی مایوس کن کارکردگی،نکاسی آب اور گندگی کے ڈھیر، نوجوانوں کے اندرمنشیات کے استعمال کا بڑتا ہوا رجحان،ماحولیاتی آلودگی، مہنگائی، بیروزگاری، غربت،کرپشن، اقرباء پروری اور لاقانونیت کی داستانیں بھی بیان کیں اور ان مسائل کے ذمہ دار افراد کی بھی نشاندہی کی لیکن پھر وہی بات کہ ان مسائل کے حل کے لئے ذمہ داروں کا گریباں کون پکڑے گا؟بظاہر توپاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین کی جانب سے گلگت اور سکردو شہرکو بگ سٹیز کا درجہ دیدیا گیا مگر سہولیات اور فوائد کے حساب سے دیکھا جائے تو یہاں کے باسی اب بھی پتھر کے زمانے میں جینے پر مجبور ہیں کیونکہ پتھر کا زمانہ اسے نہیں کہا جاتا ہے کہ جہاں پر ہرجگہ پتھر ہی پتھر ہوں بلکہ درجہ بالا سہولیات جن علاقوں میں دستیاب نہ ہوں وہ پتھر دور کے علاقے ہی کہلاتے ہیں۔تعجب کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر2009کے تحت وجود میں آنے والی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے ذمہ دار اپنی بااختیاری کا دعویٰ کرکے ہروقت اپنے مرکزی قائدین کی طوطی بولتے رہتے ہیں مگر وہ اس بات پر غور کرنے سے قاصر ہیں کہ آخر ان کی اس بااختیاری سے عوام کو ان پانچ سالوں میں کیا کچھ ملا ہے۔ کیا محض چندمن پسند لوگوں کوچوردروازوں سے ملازمتیں دینے اور جھوٹے سیاسی اعلانات کرنے سے ایک عام آدمی کی زندگی میں تبدلی آسکتی ہے؟ اس کے علاوہ تو ان لوگوں نے اپنے دور حکومت میں کوئی ایسا کارہائے نمایاں سرانجام دیا
ہو جس کا اعتراف کرکے عوام آنے والے وقتوں میں بھی انہی کے دور حکومت کو یاد کرسکے۔ اس سے توسابقہ نظام ہی بہتر تھاجس میں بہت کچھ نہ سہی تو تھوڑا بہت ترقیاتی کام ہوتا ہوا دیکھائی دے رہا تھابلکہ مشرف دور میں گلگت بلتستان میں جس قدر ترقیاتی کام ہوا اس کی مثال تو تاریخ میں بھی بہت کم ملتی ہے حالانکہ اس وقت تو جمہوریت بھی نہیں تھی اس کے باوجود عوام خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ پھر جب سے ایک نام نہاد جمہوری حکومت کا دور شروع ہوا تو عوام اور علاقے کی حالت مذید بہتر ہونے کی بجائے پہلے سے بھی ابتر ہوگئی۔ اس دور میں اور تو کیا عوام کو پینے کے لئے صاف پانی کا حصول بھی ناممکن بن گیا اور علاقے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین پانی کی عدم فراہمی کے خلاف سڑکوں پر نکل آنے پر مجبور ہوئیں جو کہ نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے منہ پر تمانچہ نہیں تو اور کیا ہے۔ انہی حکمرانوں کی نااہلی کے باعث بلدیاتی انتخابات منعقد نہ ہونے سے دیہی ترقی کا عمل بھی جمود کا شکار ہوا اور سننے میں آرہا ہے کہ انہی لوگوں نے ہی بیوروکریسی کے کرپٹ آفسران کی ملی بھگت سے کاغذوں میں فرضی منصوبے ظاہر کرکے بلدیاتی سکیموں کے لئے مختص فنڈ پر بھی ہاتھ صاف کرلئے ہیں۔ اگر یہ لوگ علاقے اور عوام کے ساتھ مخلص ہوتے تو دیہی علاقوں میں واٹرچینلز، حفاظتی بند اور لنک روڑز کی تعمیر کے علاوہ شہری علاقوں میں صفائی اور دیگر چھوٹے موٹے منصوبوں کے لئے بلدیاتی فنڈ ہی کافی تھا مگر عقل کے اندھے اور اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں سے اس طرح کے فلاحی کاموں کی توفیق نہ ہوسکی نتیجاً صوبائی حکومت کے دور اقتدار کے خاتمے سے قبل ہی علاقے میں ہرطرف آوے کا آوہ بگڑ گیا۔ ایسے میں جب علاقہ مکمل طور پر لاوارث بن جائے تو یقیناشہروں میں آوارہ کتوں اور بیکاریوں کا راج ہوگا اور دیہی علاقوں میں غربت، افلاس اورلاقانونیت عروج پر ہوگی جو آہستہ آہستہ پورے معاشرے کے لئے ناسور ثابت ہوگا۔
اب آتے ہیں میرے مہمان دوست کی گزارش کی طرف تو جناب آپ کی بات بھی اپنی جگہ درست اور مقامی اخبارات کی خبروں میں بھی سو فیصد حقیقت کہ واقعتاگلگت شہر میں آوارہ کتوں اور بیکاریوں نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے ساتھ ہی ساتھ شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر بھی عوام کے لئے تکلیف کا باعث بن رہے ہیں ۔ لیکن کیا کیا جاسکتا ہے مقامی انتظامیہ ریڈیو پاکستان کے زریعے شہر میں کتا مار مہم کا اعلان تو کرتی ہے لیکن آوارہ کتے وہ اعلان سنتے ہی مین شاہراہوں سے گلی محلوں کا رخ کرلیتے ہیں تاکہ انتظامیہ کے کسی آفسر کی نظر ان پر نہ پڑ جائے اور انتظامیہ کے ذمہ داران بلدیہ کے اہلکاروں کو یہ ہدایت دینے کی زحمت نہیں کرتے کہ وہ صرف سڑکوں پر نہیں بلکہ محلہ سطح پر بھی جاکر آوارہ کتوں کا صفایا کریں۔ دوسری بات غیرمقامی بیکاریوں کی اگر کی جائے تو اس میں بھی انتظامیہ ہی کی کوتاہی صاف نظر آتی ہے کیونکہ ہمیں بحیثیت شہری کسی کے خلاف کارروائی کرنے یا کسی غیرمقامی کو علاقہ بدر کرنے کا ہرگز اختیار حاصل نہیں وہ اختیار صرف اور صرف ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ہی حاصل ہے اور یہ ان کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ علاقے میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث افراد پر نظررکھے اور مختلف روپ میں بھیک مانگ کر شہریوں کو بے جاتنگ کرنے والوں کی قانونی حیثیت کا تعین کریں۔ ہوسکتا ہے علاقے میں نقص امن بھی انہی لوگوں کی وجہ سے پیدا ہو اور ہم خواہ مخواہ میں اسے فرقہ واریت کا رنگ دیکر ایک دوسرے کے خلاف برے عزائم رکھتے ہوں۔صفائی کے حوالے سے بھی مقامی انتظامیہ نے چیف سکریٹری کے حکم پر محض ایک ریلی کا انعقاد کرکے اپنا کام تو تمام کردیا لیکن عملی طور پرکوئی صفائی مہم شروع نہ ہوسکی۔ آپ کو شہر کے چوراہوں، گلی کوچوں اور محلوں کے علاوہ ہسپتالوں اور سکولوں کے باہر پہلے سے دیادہ گندگی اور کچرا نظر آئے گا جس سے پھیلی جانے والی بدبو اور تعفن کے اثرات سے تو سب بخوبی اگاہ ہیں اور اس پر مذید بحث کرنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ فی الوقت آج کے اس کالم کے توسط سے میری ڈپٹی کمشنر گلگت سے گزارش ہوگی کہ وہ شہر میں آوارہ کتوں کے خلاف جاری اپریشن کو صرف سڑکوں کی بجائے گلی محلوں تک وسعت دیں اور بیکاریوں کی شکل میں شہر میں گھومنے پھرنے والوں کو راہ راست پر لانے کے لئے بھی اقدامات کریں۔