کالمز

سندھ کی سیاست

پیپلزپارٹی کے جلسے کی تیاریاں عروج پر ،مگر لیاری کا جیالا ناراض 

فاطمہ بھٹو کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کی کوشش ،لیکن وڈیروں کی وجہ سے پارٹی تقسیم 

پیپلزپارٹی 18اکتوبر کو مزار قائد کے قریب باغ قائد کراچی میں اپنی بھر پور سیاسی قوت کے مظاہرے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنماشرجیل انعام میمن کا دعویٰ ہے کہ 18اکتوبرکوہونے والا جلسہ ملکی تاریخ کے تمام جلسہ اور جلوسوں کاریکارڈ توڑدے گا اور جس طرح پیپلزپارٹی کوششیں کررہی ہیں اس سے بھی یہی اندازہ ہوتاکہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتی کہ پیپلزپارٹی اب بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے ۔

عبدالجبار ناصر
عبدالجبار ناصر

دیہی سندھ کی طرف آج کل سفر ہو تو جیالوں میں ایک نعرہ سنائی دیتاہے’’ھلو کراچی ھلو بی بی جا قاتل گولن ھلو(چلو چلو کراچی چلو ، بی بی کے قاتلوں کو تلاش کرنے چلو)‘‘اس نعرے سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ مزار قائد کے گنبد تلے قائد کی آخری آرام گاہ میں بے نظیر بھٹو کے قاتل چھپے ہوئے ہیں۔در اصل پیپلز پارٹی بینظیر بھٹو کے کی موت کے7سال بعد بھی ان کے خون اور عوامی جذبات سے کھیل رہی ہے ،لیکن سندھ کے مختلف حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جارہاہے کہ 2008سے 2013ء وفاق اور صوبے(سندھ) جبکہ 2013سے تاحال سندھ میں حکومت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت نے بے نظیر بھٹو کے حقیقی قاتلوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کیلئے کیا ؟ مختلف اوقات میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت مختلف رہنماجلد قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا اعلان تو کرچکے مگر ان کی یہ جلد اب تک نہیں آئی۔

دیہی(اندرون) سندھ کی حدتک 18اکتوبر کے جلسے کے حوالے سے سرگرمیاں تو عروج پر ہیں لیکن کراچی میں پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری میں وہ جوش وخروش دیکھا ئی نہیں دے رہاہے جو کبھی ہوتاتھا۔ پیپلزپارٹی کے بعض رہنماؤں کے مطابق لیاری کے جیالوں کی جلسے میں بھرپور شرکت ایک مشکل ٹاسک ہے ،شاید اس کو بلاول نے بھی محسوس کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شدید خطرات کے خدشات کے باوجود 14اکتوبر کو لیاری کا دورہ کیا اور جیالوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی ۔ سچ یہ ہے کہ لیاری کے لوگ اس وقت سخت امتحان میں ہیں، لیاری گینگ واردو واضح گروپوں میں تقسیم ہے، ایک گروپ کلی طور پر پیپلزپارٹی کا حامی اور دوسرا ناراض ہے اورکسی بھی گروپ کو ناراض کرنے کا مطلب’’ آبیل مجھے مار‘‘ کے مصداق ہے یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے لیاری میں پیپلزپارٹی کے وہ نغمے سنائی نہیں دے رہے ہیں جن کو لیاری کی شان سمجھا جاتاتھا۔

جلسے کیلئے جس جگہ کا انتخاب ہواہے اس گراؤنڈ کا مکمل رقبہ ایک لاکھ 20ہزار مربع میٹر ہے اور اگر قرب وجوار کی سڑکوں کو بھی ملائیں تو تقریباًدو لاکھ مربع میٹر کے قریب بنتاہے،اس گراؤنڈ پر 25دسمبر 2011ء کو عمران خان ایک تاریخی ،27جنوری 2012کو مولانا فضل الرحمن اس سے بھی بڑا اور متحدہ قومی مؤومنٹ خواتین کا تاریخی جلسہ کر چکی ہے ۔ دوسری جانب ان خدشات کا بھی اظہار کیاجارہاہے کہ پیپلزپارٹی کے کے چیئرمین بلاول کو شدید خطرات ہیں جنہوں نے کارسازسے ایک جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ تک پہنچنا ہے، بلاول اسی ٹرک پر سفر کرینگے جس پر 18اکتوبر2007ء کو بے نظیر بھٹو نے ایئر پورٹ سے کارسازتک سفر کیاتھا۔ 18اکتوبرکا جلسہ پیپلزپارٹی کیلئے سیاسی موت وحیات کا مسئلہ بن چکاہے شاید یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان سے کشمیر،خیبر پختونخواسے بلوچستان اور پنجاب سے سندھ تک ہر جگہ قیادت کو متحرک کیاگیاہے اور مرکزی قائدین کی آمد شروع ہوچکی ہے ۔گلگت بلتستا ن اور آزاد کشمیر کے وہ حکمران جنہیں 5سالوں میں ایک بار بھی کراچی میں موجود اپنے عام تو خواص سے بھی ملنے کی توفیق نہیں ہوئی اب کراچی کے گلی کوچوں میں جلسے میں شرکت کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔

پیپلزپارٹی کیلئے ایک بری خبر بھی زیر گردش ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی حقیقی پوتی اور میر مرتضیٰ بھٹو کی نوجوان بیٹی فاطمہ بھٹوکو تحریک انصاف میں شامل کرنے کیلئے بعض قوتیں انتہائی سرگرم ہیں اگرچہ پیپلزپارٹی( شہید بھٹو) سخت تردید کررہی ہے لیکن تحریک انصاف کے بعض ذرائع بات چیت اور رابطوں کی تصدیق کررہے ہیں اور بعض تو یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ 21نومبر کو لاڑکانہ میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں فاطمہ بھٹو شمولیت کا اعلان کرینگی ۔اس حوالے سے بعض دیگر لوگوں کے نام بھی لئے جارہے ہیں تاہم اس ضمن میں تحریک انصاف سندھ میں شدیداختلاف ہے جس کی تصدیق تحریک انصاف کے مرکزی رہنماڈاکٹر عاف علوی نے9اکتوبرکو پریس کانفرنس میں یہ کہکر کی کہ ’’بعض وڈیروں اور سرداروں کی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبروں پر نظریاتی لوگوں اور پارٹی کے رہنماؤں میں شدید تحفظات ہیں‘‘ اسی روز تحریک انصاف لیبر ونگ کے مرکزی صدر زبیر خان نے کراچی پریس کلب میں واضح طور پر کہاکہ’’ تحریک انصاف اس وقت مافیا کا قبضے میں ہے اور یہ مافیا نظریاتی لوگوں کو سامنے آنے نہیں دے رہی ہے،ڈاکٹرعارف علوی اور صوبائی صدر نادراکمل لغاری بھی اسی کاس حصہ ہیں،نادراکمل لغاری پارٹی کے دھاندلی کے صدر ہیں ،اس دھاندلی کے خلاف پارٹی کے الیکشن ٹربونل میں پونے دو سال سے معاملہ زیر سماعت ہے‘‘۔

12اکتوبر کو مقامی حال میں جنرل ورکرز اجلاس ہوا جس میں تحریک انصاف کے سندھ بھر سے نظریاتی کارکنوں اور رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اگرچہ ورکرز کنونشن میں عمران خان کی حمایت کی گئی لیکن پارٹی کی باقی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا کنونش کی صدارت زبیر خان کررہے تھے جن کاکہناتھاکہ ’’سلمانی ٹوپی والے ،قبضہ مافیا،چھاتا بردار اور مفاد پرست کو پارٹی ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں ان کو کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔کنونشن میں جس طرح کے جذبات کا اظہار کیا گیا اس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ سندھ میں تحریک انصاف عملاً دو گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور یہ بات بھی عجیب ہے کہ عمران خان 2013کے حوالے سے انتخابی ٹربونلز کی کارکردگی کو سوالیہ نشان بناتے ہوئے پورے نظام کو تل پٹ کرنے میں تلے ہوئے ہیں لیکن اپنی پارٹی کے انتخابی ٹربیونل کا یہ عالم ہے کہ پونے دوسال گزرنے کے باوجود سندھ کی صوبائی صدارت کے حوالے سے دائر دھاندلی کی درخواست پر تاحال فیصلہ نہ ہوسکا بلکہ ڈاکٹرعارف علوی کا کہناہے کہ ٹربیونل کے سربراہ جسٹس(ر) وجیہہ الدین احمد نے ابھی رپورٹ ہی نہیں لکھی ہی نہیں ہے ،یہ ہے تبدیلی اور نیا پاکستان۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button