کالمز

بلاول بھائی ، زرداری، شریف بھٹو

شرافت علی میر

آج بھی بھٹو عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو کے نام پہ ووٹ حاصل کرتا ہے۔ بھٹو عوام کی بات کرتا تھا عوام کے دلوں کی بات کرتا ہے اور عوام کے بنیادی مسائل کی بات کرتا تھااور حقائق کو سامنے رکھ کے بات کرتا تھا ان کی سیاست ہی عوام کے لیے تھی جس کے لیے ان کو شہید کیا گیا۔

زولفقار علی بھٹو ایک قانون دان کے ساتھ ساتھ ذہین اور منجھے ہوۓسیاست دان تھےانھوں نے سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکالا ۔عوام کو شعور دیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور پھر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور بھٹو کا ایک اور قول آج بھی مشہور ہے کہ بھٹو ایک نہیں دو ہے ایک میں اور ایک آپ جو عوام میں بے حد مقبول ہو

Bilawalلاول کا انداز بیان ان کی بول چال ان کا گرجنا ،چیخنا اور چلا کے تقریر کرنا اور بغیر سوچے سمجھے بیان دینا کسی طرح بھی بھٹو یا بھٹو کی بیٹی سے نہیں ملتا ہے بھٹو کی نقل اتارنے کی کوشش میں وہ الطاف حسین کا نقل اتارتا ہے اور ان کا انداز بیان یا انداز سیاست الطاف بھائی سے ملتاہے ۔ جو حکومت سے الگ ہوتا ہے اور پھر ایک ہفتہ کے بعد دوبارہ حکومت میں آتا ہے یہ ڈرامہ ہم نے پچھلے حکومت میں بھی دیکھا اور اب بھی جاری ہے اور بلاول بھی نواز شریف اور الطاف حسین کے خلاف بولتا ہے اور پھر ان کا ساتھ بھی دیتا ہے اور الطاف اور بلاول دونوں گرجتے ہوۓتقریر کرتے ہے۔ مثلا  بلاول گھڑی خدا بخش میں جب تقریر کررہا تھا تو کہہ رہا تھا کہ جان چاہیے تو جان دینگے سر چاہیے تو سر دینگے۔

زرا سوچے تو عوام نے ان کی جان اور سر سے کیا کرنا ہے عوام ان کے دور حکومت میں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور پارٹی کے چیرمین جان اور سر کی بات کرتا ہے ۔

ایک اور جگہ غریب ہاریوں کو جمح کرکے ان کے سامنے انگلش میں تقریر کررہا تھا ۔ بچارے ہاری ان کو اردو نہیں آتی ہے انگلش کجا۔

اس لیے بلاول کے ساتھ بھائی لگایا جاۓ تو غلط نہیں ہوگا۔

بلاول زرداری ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے زرداری کا انداز سیاست یہ ہے کہ خاموشی اختیار کرو اور جو کچھ کرنا ہے خاموشی سے کرتے جاو۔ کسی کے الزامات کا جواب مت دینا جو زیادہ تنگ کریں اس کے ساتھ بات کرو اور اس کو مفاہمت کا نام دو ۔

جناب شہباز شریف بھی بھٹو کے نقل اتارنے کی ناکام کوشش کرتا ہے ۔ جیسے بھٹو ایک ٹوپی پینتا تھا شہباز شریف ایک شرٹ پینتا ہے بھٹو جذبات میں تقرپر کرتا ہے لیکن عوام کی مسائل کی بات کرتا تھا اور ان کا حل پیش کرتا ہے اور بھٹو جب جذبات میں آکر تقریر کرتا تھا تو اکثر اس کے ہاتھ لگنے سے مائک گرتا تھا ۔

جب کہ شہباز شریف جذبات میں آکر الزمات لگانا شروع کرتا ہے  یا ایسے وعدے کرتے ہے جو وہ کھبی پورا نہیں کرسکتا ہے مثلا انھوں نے بے شمار مقامات پہ تقریر کرتے ہوۓ کہا کہ 2 سال میں بجلی کا لوڈشیڈنگ ختم  نہیں کیا تو میرا نام بدل دینا۔ اور پھر اقتدار میں آکر زرداری کو روڈ پہ گھسٹونگا وہ چور ہے لٹیرا ہے وغیرہ وغیرہ ماڈل ٹاون سانحہ میں مجھے ذمہ دار ٹھہرایا تو میں ایک سیکنڈ میں استحفی دونگا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ اور پھر شہباز شریف تقرپر کے آخر میں خود مائک کو گرا کے تقرتر ختم کرتا ہے۔ بلاول اور شہباز شریف بھٹو کے نقل اتارنے کی ناکام کوشش کرتے ہے۔ اس لیے اگر بلاول کے ساتھ شریف بھی لگایا جاۓ تو غلط نہیں ہوگا۔

سندھ میں پیچھلے ساتھ سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے  اور ایک  85 سالہ شخص قائم علی شاہ ان کے وزیر اعلی ہے سندھ میں اس وقت امن وامان ، مہنگائی،بے روزگاری پینے کا پانی تعلیم اور انصاف کا مسلہ ہے اور بلاول کہتا ہے جان چاہیے تو جان دینگے سر چاہیے تو سر دینگے ارے بلاول صاحب جن لوگوں کی جان جارہی ہے ان کو تو بچاو۔26 سالہ بلاول پارٹی کا چیرمین ہے اور ابھی وہ اسکرپٹ پہ چلتا ہے جہاں جہاں ان کو تقریر کرنا ہوتا ہے ان کو اسکرپٹ لکھ کے دیا جاتا ہے کراچی کے جلسہ میں انھوں نے اسکرپٹ کو چپانے کے لیے ڈائس کے اندر ایک اسکریں لگایا تھا لیکن کیمرے کی آنکھ سے وہ چھپ نہیں سکا۔اور جو ان کے لیے اسکرپٹ لکھتا ہے وہ بھی ان کی تقرتر سن کے ہنستا ہوگابھٹو بننے کے لیے بھٹو کا نواسا ہونا کافی نہیں ہے بھٹو بننے کے لیے بھٹو کا کوالٹی بھی ہونا ضروری ہے جوخوبیاں بھٹو کےاندر تھی۔غریب عوام کے لیے بھٹو کے اندرجو درد اور جو تڑپ تھی وہ بھی ہونا ضروری ہے ۔

آفرین ہے عمران کو جو آج عوام کی بات کرتے ہے عوام کے بنیادی مسائل کی بات کرتے ہے مثلا عمران برطانیہ کا مثال دیتے ہے کہ ان کے ملک میں جمہوریت ہے۔اور ان کے جمہوریت سے عوام کو یہ یہ فائدہ ہے  تو ہمارے ملک میں بھی ایسا ہونا چاہے۔

اور ڈاکٹر قادری صاحب نے عوام کو بتا یا کہ آئین کیا ہے اور آئین کیا کہتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button