کالمز

صُمٌ بُکمٌ عمیٌ ۔۔۔۔

bbb
دب پارے: حاجی سرمیکی

قرآن مجید فرقان حمید کے سورۃ بقرہ میں رب کائنات جل جلالہ نے ارشاد فرمایا کہ گھونگے بہرے اور اندھے ہیں وہ لوگ جو حق شناسی کی طرف نہیں لوٹیں گے۔ یقیناًیہ وہ لوگ ہی ہوں گے جو سچ کی تلاش اور حق کی حمایت نہیں کریں گے۔ ہمارے معاشرے کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہاں لاشعوری سے معذوری ، حق تلفی سے مجبوری اورمجبوریوں سے برائیاں پنپ رہی ہیں۔ مجبور و محروم طبقہ دن بدن بدحالی کا شکار ہوتا جارہا ہے ان کی کوئی پرسان حال نہیں۔گلگت بلتستان کے ساتوں اضلاع میں ایک غیر سرکاری ترقیاتی ادارے کے زیر اہتمام معذور افراد سے متعلقہ سروے کیا گیا۔ جس کا مقصد معذوری کی نوعیت و اقسام سے آگہی، سرکاری وغیر سرکاری طور پر حاصل مراعات کاجائزہ، اورافراد باہم معذوری کی روزمرہ سماجی سرگرمیوں میں شرکت کے حوالے سے بین الاضلاع دستیاب ودرکارسہولیات و خدمات اور لا ئحہ عمل کی ترتیب و تدوین میں معاونت فراہم کرنا تھا۔اس ضمن میں 243 گاؤں کے115,150 نفوس اور4556 افراد باہم معذوری سے رائے لی گئی ۔ اس کے علاوہ تحقیقاتی ٹیم نے اہم سرکاری اورغیر سرکاری اداروں، مقامی تنظیموں، ایل ایس اوز اور تنظیمِ معذوراں ، ہنر اوربحالی کے مراکز، خصوصی تعلیمی اداروں اور صحت کی خدمات فراہم کرنے والوں سے بھی معلومات اکھٹی کی گئیں۔ ان معلومات کی روشنی میں گلگت بلتستان کی سطح پر کل4.0 فیصد معذوری کی شرح پائی جاتی ہے۔ گو کہ یہ ابتدائی مرحلہ بتایا جا رہاہے اور اس کی مزید بہتر بنانے کی کوششیں بھی زیر غور ہیں تاہم اب تک کی حاصل معلومات کی رو سے یہ نتائج حاصل ہوئی ہیں۔ مختلف اضلاع کے مابین یہ شرح 3%سے 6%تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ مشترکہ طور پر تمام اضلاع کے اندر جسم کے نچلے حصے سے متعلقہ معذور افراد کی تعداد بہت بڑھ کر اس کے بعد بالترتیب سماعت و گویائی، نابینا پن و نظر کی کمزوری اور ذہنی معذوری کے ساتھ رہنے والے افراد زیادہ تعداد میں پائے گئے۔ ضلع استور، دیامر اور گلگت میں جسم کے نچلے حصے سے معذور افراد ،ضلع گنگچھے، ضلع ہنزہ نگر اور سکردو میں سماعت و گویائی سے محروم افراد جبکہ گلگت میں نظر کی کمزوری اور نابینا پن کی تعداد بالترتیب کثرت سے پائی گئی۔افراد باہم معذوری کی طبی جانچکاری کسی بھی بحالی کی سرگرمی میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے تاہم ضلع استور میں قدرے بہتری کے ساتھ 60% جبکہ دیگر تمام اضلاع میں 91%سے 95%تک افراد باہم معذوری ابتدائی طبی جانچکاری تک پہنچنے سے قاصر رہے۔ تمام اضلاع میں مجموعی طور پر اکثریت کو کسی قسم کا امدادی آلہ حاصل نہیں۔ اس ضمن میں ضلع استور اور دیامر میں کچھ بہتری کے ساتھ10.4%اور12.2%تک ریکارڈ کی گئی کہ جن کے پاس امدادی آلات ہیں۔ باقی تمام اضلاع الخصوص ضلع گنگ چھے میں صرف ۵ فیصد افراد آلات استعمال کرتے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں میں شمولیت کے حوالے سے ضلع سکردو اور ہنزہ نگر سے بالترتیب 59.3% اور60.3% ، جبکہ تقابلی طور پرسب سے کم،اور 89.3%اور90.3%اطفال باہم معذور ی بالترتیب ضلع استور اوردیامرسے کسی بھی تعلیمی سرگرمی میں شامل نہیں پائے گئے اورضلع گنگ چھے میںیہ تعداد قابل غور حد تک 95.5% پائی گئی ۔ تما م اضلاع میں مجموعی طور پر دستکاری اورہنر میں شمولیت سے محروم افراد باہم معذوری کی شرح 88.6%ہے۔ اس معاملے میں باریک فرق کے ساتھ ضلع ہنزہ نگر، استور اور دیامر میں دیگر اضلاع کی نسبت شرح زیادہ ہے۔ جن افراد باہم معذوری کی ہنر تک رسائی ہے ان میں سے کم سے کم 60%اور زیادہ سے زیادہ 86%مرد حضرات ہیں۔معذور افراد کے پاس موجود ہنر کی سرگرمیوں میں بڑھئی، درزی، گلکاری، کشیدہ کاری اور پھلوں کی مصنوعا ت سازی نمائیاں طور پرشامل ہیں ۔استور میں 90.4% اوردیامر میں 90.8%کی شرح سے افرا دباہم معذوری کسی قسم کی آمدنی حاصل کرنے والے کاموں میں شامل نہیں جبکہ تمام اضلاع میں سب سے زیادہ ضلع گنگ چھے میں بغیر آمدنی والے افراد باہم معذوری کی تعداد 98%تک پائی گئی۔ ذرائع آمدن کی سرگرمیوں میں بھی افراد باہم معذوری میں مرد حضرات کی شرح زیادہ ہے اور ان کی ماہانہ آمدنی کی شرح 3000روپے سے 5000روپے ماہانہ تک ہے ۔ ہنزہ نگر اورگنگ چھے میں اس کی شرح مزید کم ریکارڈ کی گئی ہے۔ ان افرا د کے لئے تفریحی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور رہی سہی سماجی و دیگر تقریبات کے ساتھ عموعی تفریحی سرگرمیوں میں بھی ان کی شرکت کی شرح بہت ہی کم پائی گئی ہے۔ بین الاضلاعی سطح پر 65%افراد کسی بھی تفریحی سرگرمی میں شرکت نہیں کرتے ہیں۔

تمام اضلاع میں بہت محدود حد تک سہولیات میسر ہیں۔ ہر اضلاع میں نادرا کا آفس خصوصی شناختی کارڈ کی فراہمی کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ گلگت میں وزارت سماجی بہبود کی زیر نگرانی میں خصوصی تعلیمی ادارہ(سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس) اطفال باہم معذوری کو تعلیمی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ تمام اضلاع میں دو چند محکمہ جات معذور افراد کوکم آمدنی ، غیر تربیت یافتہ طور پر مثلاً بطور خاکروب اور نائب قاصد وغیرہ جیسی ملازمت فراہم کر چکے ہیں۔ جبکہ بہت کم اور نہ ہونے کے برابر سرکاری و نجی ادارے کی عمارتیں، کاروباری مراکز اور دیگر قابل رسائی بنائی گئی ہیں۔ تمام اضلاع میں سے زیادہ تر گلگت میں سرکاری و غیر سرکاری طور پر کچھ ادارے معذور افراد کے لئے کوئی نہ کوئی سرگرمی سر انجام دے رہے ہیں۔ اس سروے رپورٹ کی رو سے افراد باہم معذوری کی عام زندگی میں شمولیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سب سے اہم رکاوٹ پالیسی اور قانون سازی کے عمل میں ہے۔ جہاں صوبائی اور ضلعی سطح پر افراد باہم معذوری سے متعلق محدود پیمانے پر اقدامات اٹھائے گئے۔ سرکاری اداروں میں معذور افرادکے نام پر کوئی بجٹ مختص نہیں کیا جاتا اورضلعی و صوبائی سطح پر بجٹ فیکسڈ ہے اور کسی قسم کی ردو کد کی گنجائش نہیں کہ اس کو مختلف ادارے اپنے دائرہ کار میں معذور افراد کی بحالی میں معاون سرگرمیوں پر خرچ کر سکے۔ کسی بھی سرکاری ادارے کی عمارتیں، مدرسے اور شفاخانے معذور دوست نہیں اور ان میں ان افراد کی رسائی کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔اس وجہ سے ان خدمات تک افراد باہم معذوری کی رسائی ممکن نہیں ۔ اگر کہیں ممکن بھی ہے تو ناہموار جغرافیائی ماحول، ذرائع نقل و حمل کے قوی اخراجات اور افراد باہم معذوری کی غیر مستحکم و ناگفتہ بہ معاشی صورتحال کے ساتھ جڑ کر مزید مشکلات بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔اس کے علاوہ عام فرد معاشرے میں شعور و آگہی کی کمی سے افرادباہم معذوری کے حوالے سے ایک متعصبانہ، غیر شائستہ اور نامہذب رویہ پایا جاتا ہے جو ان افراد باہم معذوری میں نفسیاتی مسائل، پیچیدگیوں اور معذوری کا سبب بنتا ہے۔بدقسمتی سے اس طرح کے متعصبانہ روئیے سرکاری اداروں کے حکام اور عام افراد میں بلا تفریق پائے جاتے ہیں۔ نہ محکمہ تعلیم کے اندر نہ ان کے زیر انتظام سکولوں میں اطفال باہم معذوری کی تعلیمی شمولیت کے لئے سہولت موجود ہے بلکہ سکولوں کی عمارتیں بھی معذور دوست نہیں اور اساتذہ کو بھی اس معاملے میں تربیت کے فقدان کا سامنا ہے۔ صحت کی سہولیات کے حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی بھی بحالی وخدمات کے مراکزموجود نہیں اور نہ ہی ان کے زیر نگرانی موجود مراکز صحت میں سند یافتہ ماہرِ بحالیِ معذوراں موجود ہے۔ کسی بھی ضلع میں ضلعی سطح پر قابل علاج اور ناقابل علاج معذوری سے متعلق کسی قسم کے کوئی اقدامات موجود نہیں ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو) اور ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ریم کے سوا کوئی اور قابل سائی طریقہ موجود نہیں جو معذور افراد کی تمام سہولیات تک رہنمائی ممکن بنا سکے۔ معاشی رکاوٹوں میں ان افراد باہم معذوری کو بہت ہی قلیل تنخواہ و مراعات کے ساتھ تعینات کیئے جاتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری ادارے میں فرد باہم معذور کو کسی بھی تکنیکی مہارت سے متعلقہ عہدے پر متعین نہیں کیا گیا ماسوائے ان تین افراد باہم معذوری کے جو سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس میں بطور استاد متعین ہیں۔ اس کے علاوہ جو رکاوٹ قابل ذکر ہے اس میں معذور افراد کی بحالی سے متعلقہ کوئی اعداد و شمار کا دستیاب نہ ہونا ہے۔ ۱۹۹۸ء کے بعد سے کوئی منظم تحقیق کا کام نہیں ہو سکاجو گلگت بلتستان میں افراد باہم معذوری کی بحالی و شمولیت سے متعلق رہنمائی فراہم کر سکے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی اعداد و شمار نہ ملنے کی وجہ سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے خاطر خواہ اقدمات اٹھانے میں کمی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر برائے بحالی افراد باہم معذوری کومنظور کیا ہے اور اس کے دستخطی بھی بن گیا ہے۔ اس حوالے سے سرکاری محکمہ جات کی استعداد کاری، آگہی اور وکالت کاری سے متعلقہ سرگرمیاں ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کو اقوام متحدہ کی منظور شدہ چارٹر کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ کر سکیں۔ یہ امر بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ افراد باہم معذوری کی خدمات و سہولیات تک رسائی کے لئے عوامی جگہوں کو معذور دوست بنا یا جائے اور اس حوالے سے بجٹ بھی مختص کیا جائے۔ گلگت بلتستان میں ایک ماڈل ری ہیبلیٹیشن مرکز قائم کیا جائے اور طویل المیعاد بنیاد پر انسانی وسائل میں اضافے کے ذریعے تمام اضلاع میں ماہر برائے بحالی معذوراں فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جانے کی بھی بہت ضرورت ہے۔افراد باہم معذوری کی طبی جانچکاری کی روشنی میں ضروری امدادی آلات کی فراہمی بھی ایک اہم نکتہ ہے اور اس معاملے میں غیر سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ بیت المال ، ذکواۃ اور انکم سپورٹ پروگرام کے اداروں کو بھی کارکردگی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ صحت کے حکام کو پالیسی سازی کے حوالے سے موثر وکالت کاری ضرورت ہے تاکہ ایک فعال اور متحرک مرکز بحالی قائم کیا جاسکے۔ قراقرام یونیورسٹی میں بھی سپیشل ایجوکیشن کا ایک ڈیپارٹمنٹ شروع ہو جائے تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے افرادباہم معذوری کی مشکلات ختم ہو سکتی ہیں۔ محکمہ تعلیم کے حکام کی آگہی کے ذریعے سکولوں میں شمولیاتی تعلیم، معذور دوست ماحول اور اساتذہ کی تربیت کے ذریعے سے اطفال باہم معذوری کی تعلیمی شمولیت کا واضح امکان بھی موجود ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے اشتراک سے شمولیاتی تعلیم پر عملدرآمد اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ایک جامع منصوبہ مرتب کیا جاسکتا ہے اور اس کے ثمرات وماحاصل کی روشنی میں قریبی اضلاع میں بھی وکالت کاری کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ معاشی استحکام اور پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ۲ فیصد مختص کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنا یا جا سکتا ہے اور ذرائع آمدن اور روزگار میں اضافے کے لئے ہنر و کاریگری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اور ہنرمند افراد باہم معذوری کے لئے مہارت میں بہتری کے لئے ایک جامع پروگرام شروع کیا جا سکتاہے اور اس کے ماحاصل اور افراد باہم معذوری کے ذریعے ان کو قابل عزت ملازمت کے حصول کے حوالے سے حکومتی اداروں پر دباؤ بڑھایا جا سکتاہے۔ افراد باہم معذوری کو تھیٹر شوز، پپٹ شوز، ٹا ک شوز اور مقامی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے ذریعے نہ صرف ان میں سماجی شمولیت اور تفریح کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں بلکہ ان کی نفسیاتی صحت کو بھی سنبھالا دیا جا سکتا ہے۔

یہ ناول کانسپٹ اس وقت تک ثمر بار نہیں ہو سکتا جب تک عام افراد معاشرہ، مقامی تنظیمیں اور افراد باہم معذوری آپس میں مل کر کوئی تحریک نہیں چلائیں گے سچ ہے کہ وہ حکام و صاحبان اختیار، عوام و خواص جو قدرت رکھتے ہوئے بھی مساوات اور یکساں حقوق کی بات نہیں کرتے وہی گونگے ہیں ، جو محروموں کی آہ وزاری نہیں سن پاتے وہی بہرے اور جن کواقرباء کی بھرمار میں مستحقین نظر نہیںآتے وہی نابینا ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button