کالمز
آئینی حقوق کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟……یکم نومبر کے حوالے سے خصوصی تحریر
عمران ندیم (سیاسی شخصیت) کا کہنا ہے کہ ساری دنیا میں چلنے والی (آزادی کی) تحریکیں کسی ملک سے، کسی ریاست سے، کسی علاقے سے علیحدگی کیلئے چلتی ہیں مگر گلگت بلتستان کی تحریک (آزادی) وہ انوکھی اور منفرد تحریک ہے جو نصف صدی سے زیادہ عرصے سے الحاق کیلئے چل رہی ہے۔ یہ بات انہوں نے چند سال قبل کسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔ کانفرنس کے شرکاء نے اس پر بڑی واہ واہ کی، بہت داد دی، کہنے لگے… ندیم صاحب نے دل کی بات کی ہے…مگر رات گئی بات گئی….معلوم نہیں ہمارا کیا ہوگا ….پاکستان سے الحاق کیلئے ہر سطح پر جدوجہد جاری ہے۔ خصوصا سیاسی پارٹیوں کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے لے کر تحریک انصاف اور ق لیگ تک ہر جماعت کا لیڈر اس بات کے حامی ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق ملنے چاہیں۔ یہاں موجود بیشتر نیم مذہبی نیم سیاسی جماعتوں کا تو سیاسی نعرہ ہی یہی ہے۔ تاہم قوم پرستوں کا نظریہ قدرے مختلف ہے اور شاید اس کی وجہ اتنے عرصے تک خطے کو بے آئین رکھنا ہے ورنہ قوم پرست تو وہی لوگ تھے جنہوں نے غاصبوں سے اس علاقے کو آزاد کرایا تھا۔ ان قوم پرستوں کی اولاد انہی کے نظریے کے مخالف کیسے ہو سکتی ہے مگر …یہ ہو گیا ہے….تاہم اب بھی قوم پرستوں کے مطالبات کچھ زیادہ سخت نہیں ہیں، بعض تو اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ہمارے لئے سب سے بہتر یہی ہے کہ پاکستان میں ضم ہو جائیں ، دوسرے آپشنز پر تو انتہائی مجبوری میں سوچا جانا چاہئے۔ خیر قوم پرستوں کو نکال کے یا جزوی طور پر ان کو بھی شامل کر کے اگر یہ مان لیا جائے کہ سارے کا سارا عوام پاکستان سے الحاق کے حامی ہیں تو بہت حد تک ٹھیک ہو گا….تو پھر 67سال سے اس مطالبے کو شرف قبولیت کیوں نہیں ملی….؟ پاکستان مسلم لیگ ن کے اہم رہنما حافظ حفیظ الرحمان کا ایک بیان مقامی اخبارات میں چھپا جس کو پڑھنے والے بے یقینی کے ساتھ اخباری نمائندوں سے سوالات کرنے لگے تھے کہ کیا یہ درست ہے؟؟ حافظ حفیظ الرحمان صاحب کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان آئینی صوبہ نہیں بن سکتا….پھر انہی کی جماعت کے ایک اور اہم رہنما فدا محمد ناشاد صاحب کا بیان چھپتا ہے کہ جو لوگ گلگت بلتستان کے صوبہ نہ بننے کی باتیں کرتے ہیں وہ مجھ سے بحث کریں میں انہیں قائل کرونگا……پہلے تو یہ بات دونوں محترم لیڈروں کو خود طے کرنی چاہیے کہ آپ کی پارٹی پالیسی اس حوالے سے کیا ہے۔ ادھر پیپلز پارٹی کے رہمنا اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے صوبہ بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ، کچھ عناصر رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ان کا اشارہ کس طرف ہے یہ وہی جانے یا پھر خدا تعالیٰ….ہم تو عجیب مخمصے میں پڑ گئے ہیں….کئی کئی دن سوچنے کے باوجود یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ آخر گلگت بلتستان صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟ …..گئے وقتوں میں ہمیں یہ پٹی پڑھائی گئی تھی کہ کشمیر ایشو کی وجہ سے علاقے کو صوبہ نہیں بنایا جا رہا کیونکہ جب کشمیر میں رائے شماری ہو گی تو ہمارا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑے گا….اب تو یہ بات ہمیں زہر الگتی ہے چنانچہ اب کی نسل سوچنے لگی ہے کہ کیا واقعی ہمارا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑے گا…..؟ ہماری نسل نے باہر کی دنیا کم دیکھی تھی آج کی نسل ایسی نہیں ہے، جو لوگ آزاد کشمیر کو دیکھ چکے ہیں، وہاں سے پڑھ کے آئے ہیں یا پڑھ رہے ہیں وہ جان چکے ہیں کہ جن کشمیریوں کے نام پر ہمیں حقوق سے محروم رکھا گیا ہے وہ تو ہر طرح کے حقوق کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔ جب آج کے نوجوان کشمیر اور گلگت بلتستان کا موازنہ پر مبنی باتیں کرتے ہیں تو قوم پرست بہت خوش ہوتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ یہی بات تو ہم نے بھی کی تھی بس ہم نے(ہاتھ ہلا ہلا کر) ’’یوں یوں‘‘ نہیں کیا تھا…..اس طرح کی مزید باتیں کی جا سکتی ہیں مگر کیا فائدہ….؟