آزاد جمہوریہ گلگت اور متنازعہ حیثیت
ارادہ تھا کہ مملکت پاکستان کے نمائشی صدر ممنون حسین کے حالیہ دورہ گلگت پر کچھ بکواس کروں لیکن پھر خیال آیا کہ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا لکھا جائے جو ایک ملک کے آئینی صدر ہونے کے باوجود گزشتہ کئی ماہ سے ملک میں جاری سیاسی بحران پر ایک لفظ بولنے کی جسارت نہیں کرتاہو اور ایک متنازعہ علاقے میں چائینہ مال اور ڈرائی فروٹ کی خریداری کی غرض سے تشریف لاکر67سال سے زیر التواء مقدمے کو حل کرنے کی یقین دہانی کراکے چلے جائے تو اس پر تجزیہ کرنے کا آخر کیا فائدہ ہوگا ۔ تاہم ممنون حسین کی گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دلانے کی یقین دہانی پر ہمارے وزیراعلیٰ صاحب نے اخباری بیانات کے زریعے بے آئین سرزمین کے عوام کی جانب سے انکی ممنونیت کا شرف حاصل کر ہی لیا تھا تو مجھ جیسے ایک مزدور کا اس دورے کو قوم اور علاقے کے ساتھ مذاق قرار دینے کی آخر کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہورہی ہے کہ صدر مملکت کو یہ خیال کیسے آیا کہ وہ بے گانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق یک دم گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دلانے کی یقین دہانی کرلیں۔ حالانکہ گورننس آرڑر2009کے بعد توان کا اس خطے کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔اب وزارت امورکشمیر و گلگت بلتستان اور وزیراعظم سکریٹریٹ کی بیوروکریسی کوئی دوسرا گورننس آرڈرکاڈرفٹ کریگی تو صدر صاحب وزیر اعظم کے حکم پر اس آرڈر پر دستخط کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ تو گلگت بلتستان سے ان کا تعلق صرف یہاں کی اکلوتی یونیورسٹی کے چانسلر کی حد تک ہے تو بہتر یہی ہوتا کہ صدر مملکت اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے جھوٹی یقین دہانیوں کے زریعے خطے کے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی بجائے اپنے ماتحت ادارے کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھاتے۔ بہرحال دو روزہ دورے کے دوران شہر میں نیم کرفیو جیسی صورتحال پیدا کرکے مسافروں اور شہریوں کو مشکلات و پریشانی سے دوچار کرانے پر ہم بھی جناب ممنون حسین کے انتہائی ممنون ہیں۔
صدر ممنون حسین صاحب کی شان میں گستاخی کے لئے مجھ میں بس اتنی سی ہمت تھی اس لئے اسی موضوع کو یہی پر سمیٹتے ہوئے گلگت بلتستان کی کھوئی ہوئی آزادی کے دن کے حوالے سے کچھ خامہ فرسائی کر لیتے ہیں۔ کیونکہ آج یکم نومبر کا دن ہے اور آج سے 67برس قبل یعنی یکم نومبر1947ء کو گلگت بلتستان کے غیور عوام نے28ہزار مربع میل پر محیط علاقے کو اپنی مدد آپ کے تحت انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں ڈوگرہ راج اور انگریزوں سے آزاد کراکر شہر گلگت میں ایک نئی مملکت’’ آزاد جمہوریہ گلگت‘‘ کا پرچم بلند کیا تھا۔ آج صدیوں بعد جب وہ دن آجاتا ہے تودھرتی کے باسیوں کی آنکھوں سے خون کے آنسو اس حسرت کے ساتھ ٹپکنے لگتے ہیں کہ کاش سولہ دن کی وہ آزادی ہم سے نہ چھینی جاتی تو آج دنیا کی دیگر قوموں کی طرح ہم بھی ایک آزاد قوم کی حیثیت سے دھرتی ماں پر سکھ و سکون کے ساتھ حکمرانی کیا کرتے اور آزادی کے خواب کو سچائی سے تعبیر کرنے کے لئے کبھی کسی وفاقی وزیر، وزیر اعظم، صدریا اقوام متحدہ کی طرف آس لگائے نہ بیٹھ جاتے۔ ’’آزاد جمہوریہ گلگت ‘‘کو لے جاکر ایک متنازعہ علاقہ بنانے کی وجوہات اور پھر اس تنازعے کو حل کرنے کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل کی گئیں
اس بارے میں پہلے ہی بہت سارے لکھاریوں اور مورخین نے تفصیلات قلمبند کی ہیں اور اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک کہ یہ تنازعہ حل ہوکر کوئی نئی تاریخ رقم نہیں ہوتی۔تاہم شگون کی بات یہ ہے کہ اب تو مقامی افراد کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے لکھاری بھی اپنی تحریروں میں کبھی کبھی گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں مگر ان میں خطے سے متعلق بنیادی معلومات کا اب بھی فقدان نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ممتاز کالم نگار اور ملک کے معروف تجزیہ نگار وسعت اللہ خان صاحب نے گزشتہ دنوں مسلہ کشمیر سے متعلق اپنے ایک کالم میں تنازعہ گلگت بلتستان کے بارے میں کچھ یوں اظہار خیال کیا تھا ۔
’’ڈوگرہ کشمیر میں شامل گلگت بلتستان کو1947ء کے خزاں میں پاکستانی قبائلیوں نے نہیں،مقامی باشندوں نے اپنے زوربازوپر آزاد کرایا۔ پندرہ دن تک کرنل حسن اور ان کے ساتھی دارالحکومت کراچی کو ایس او ایس بھیجتے رہے،تب جاکے ایک بیوروکریٹ آزاد علاقے کا انتظام سنبھالنے گلگت پہنچااور آتے ہی فرنٹیئرکرائمز ریگولیشنز(ایف سی آر)کا گلگت بلتستانی ایڈیشن نافذکردیا۔ یہ علاقہ آج تک اپنی پاکستان پرستی کے باوجودسیاسی حقوق کے اعتبار سے معلق ہے۔ جب کوئی گلگتی کے ٹو یاایورسٹ سرکرتا ہے تو وہ فخرپاکستان ہوجاتا ہے اور جب دیگر صوبوں کے ہم پلہ اختیارات دینے کا مطالبہ کرتا ہے تو کہا جاتا ہے چپ بیٹھو تمہاری حیثیت ابھی متنازعہ ہے۔ اور پھر وہ چپ بیٹھ جاتا ہے اور اس متنازعہ علاقے سے گزرنے والی شاہراہ ریشم تکتا رہتا ہے‘‘۔
میں ذاتی طور پر وسعت صاحب کے خیالات سے ما سوائے کرنل حسن اور ان کے ساتھیوں کے دارالحکومت کراچی کو ایس او ایس بھیجنے کے حوالے سے جملے کے باقی پورا پیراگراف سے مکمل اتفاق کرتا ہوں ۔وہ اس بات پر کہ بے شک گلگت بلتستان کے غیور عوام نے بغیر کسی بیرونی امداد کے اپنی مدد آپ کے تحت خطے کو آزاد کرایا اور پندرہ دن نہیں بلکہ سولہ دن بعد صوبہ سرحد سے ایک چودہ سکیل کے نائب تحصیلدار سردار محمد عالم نے آکر آزاد ریاست پر شب خون مار کر علاقے کا نظم ونسق سنبھالیا اور علاقے میں ایف سی آر جیسے کالے قوانین اس لئے نافذ کروائے کہ یہاں کے لوگ دوبارہ آزاد ریاست کی بحالی اور حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کرپاسکے۔وسعت صاحب کی یہ بات بھی بالکل بجا ہے کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماونٹ الیورسٹ سر کرنے پر نذیر صابر،اشرف امان ،حسن سدپارہ،ثمینہ بیگ اور مرزا علی کی بات آجاتی ہے تو ہم لوگ فخر پاکستان کہلاتے ہیں اور جب آئینی حقوق دینے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ جیسے قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسی دھرتی کے باسیوں کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ اور پھر بابا جان جیسے ترقی پسند رہنماؤں پر عمر قید کی سزائیں عائد کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے یہ سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں تین ماہ تک دھرنا دیکر ملکی معیشت کو تباہ کرنے،پارلیمنٹ ہاؤس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے،پی ٹی وی کی نشریات بند کرانے اور سول نافرمانی کی تحریک چلانے والے دہشت گردی کے مرتکب نہیں ہو سکتے ہیں تو ہنزہ میں شہید ہونے والے باپ بیٹے کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرنے والے آخر کیونکر دہشت گرد کہلاتے ہیں۔
وسعت صاحب کی ایک اور بات سے یاد آیا کہ صدر ممنون حسین کے دورے کے موقع پر جب وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ نے ان سے یہ شکایت کردی کہ نواز لیگ کی وفاقی حکومت گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ دیگر صوبوں جیسا تعاون نہیں کررہی ہے تو صدر نے دوٹوک
الفاظ میں جواب دیا کہ تم لوگوں نے وفاق کو کیا دیا ہے پہلے وہ دیکھو پھر وفاق سے متعلق شکایت کرڈالو۔ یعنی صدر نے بھی وسعت صاحب کے کہنے کی مانند’’ چپ بیٹھو تمہاری حیثیت ابھی متنازعہ ہے‘‘ والی بات کہہ ڈالی جو کہ بااختیاری کے دعویدار صوبائی حکومت کے منہ پر تمانچہ نہیں تو اور کیاہے۔
کاش یہ سوال اگر مہدی شاہ کی بجائے کسی ذی شعور شخص سے کیا جاتا تو وہ فنگرٹیپس میں بتا دیتا کہ جناب حکومت پاکستان گلگت بلتستان سے اس اس مد میں سالانہ اتنے ارب روپے وصول کررہی ہے جس کے بدلے میں ہمیں صرف اتنے ارب کا بجٹ دیا جارہا ہے جو کہ وسیع وعریض علاقے کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں۔ ہماری بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے اوپر مسلط حکمران جب وفاق میں انکی ہم خیال جماعت برسراقتدار آتی ہے تو علاقے کو جنت بنا کر پیش کرتے ہیں پھر جب کوئی مخالف حکومت آجاتی ہے تو شکایت لگا دیتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں دیا جارہا ہے۔ ہم اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے مفاد پرست اور منافق قوم کہلانے لگے ہیں جس سے فائدہ اٹھا کر وفاق سے تعینات ایک عام بیوروکریٹ بھی ہمیں کبھی نالائق اور نااہل،کبھی جاہل تو کبھی انتہاپسند اور دہشت گرد قرار دیکر وفاق کو اگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان لوگوں کو مذید کچھ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہماری منافقت کا اندازہ اس بات سے لگانا قدرے آسان اس لئے ہے کہ سولہ نومبر1947ء کو جب’’ آزاد جمہوریہ گلگت ‘‘ایک متنازعہ علاقہ بن کر غیرمقامی حکمرانوں کے ہاتھوں چلاگیا تو ہمارے منہ پر تالے لگ گئے اور نہ ادھر کے نہ ادھر کے ہوکر رہ گئے ۔ستر کی دہائی میں جب علاقے سے ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا تو ہم بٹھو خاندان کے احسان مند بن گئے اور ابھی تک ہیں۔پھر 1988ء میں ضیاالحق کے دور میں علاقے کو آگ وخون میں نہلایا گیا تو ہم اجتماعی حقوق کا مطالبہ چھوڑ کر تفروقہ بازی کا شکار ہوکر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ جب بے نظیر بٹھو کی حکومت آئی تو ناردرن ایریاز کونسل جیسے ادارے کو دیکھ کر ہم محب وطن پاکستانی بن گئے ۔پرویز مشرف کے دور میں اسی کونسل کے ساتھ ’’قانون ساز ‘‘کا اضافہ ہوا تو ہم خود کو اور زیادہ محب وطن قرار دینے لگے پھر کیا ہوا؟ پھر یہ ہوا کہ جونہی مشرف دور کا خاتمہ ہونے لگا اور حکومت کی لگام واپس پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں آگئی تو ہم نے حقوق سے محرومی کا روناپھر شروع کردیا جس پر گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر2009 کی صورت میں ایک اور لالی پوپ دیا گیا تو ہم نے تمام صوبوں کے عوام سے بڑھ کر پاکستانی ہونے کا نعرہ بلند کردیا اور2013ء میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت کی باری آئی تو ایک بار پھر خود کو متنازعہ قرار دیکر گورننس آرڈر میں ترمیم کے زریعے خطے کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنانے یا آزادجموں وکشمیر طرز کا ریاستی سیٹ اپ دینے کا مطالبہ کرنے لگ گئے ہیں۔
ہم نے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے سب کچھ کردیا لیکن اپنے آئینی حقوق کے حصول اور خطے کی شناخت کو بحال کروانے کے لئے کبھی اجتماعی جدوجہد کرنے کا زحمت گوارہ نہیں کیا۔ہم اپنے جنگ آزادی گلگت کے ہیروز کو بڑے فخر سے یاد کرتے ہیں لیکن کبھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک قوم بننے کا نہیں سوچا۔ ہم کشمیر،فلسطین اور دیگر مسلم ریاستوں کی آزادی کا ہر وقت مطالبہ کرتے رہے مگر اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو بحال کروانے کاکوئی مطالبہ نہیں کیا۔ ہم کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے ہر وقت چیختے رہے مگر گلگت بلتستان سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھول بیٹھے۔ ہم نے گورننس آرڈر کو دستور،سرکاری رہائش گاہ اور گاڑیوں کو مراعات،ٹھیکوں میں کمیشن حاصل کرنے کو جائز حق جبکہ نوکریاں فروخت کرنے اور ملازمین کی معطلی کو اختیارات سمجھا۔ ایسے میں کون پاگل کا بچہ ہے جوخود یہاں آئے اورآئینی حقوق کو ایک طشترے میں رکھ کر ہمارے سامنے پیش کریں۔ پھر ظاہری بات ہے اپنے ہی مفادات کے لئے کبھی جنرل ضیاء کے روپ میں علاقے میں فرقہ واریت کا بیج بوئے گا تو کبھی پرویز مشرف، کبھی آصف زرداری اور کبھی ممنون حسین جیسے لوگ نام نہاد پیکجز اور جھوٹی یقین دہانیوں کے زریعے ہمیں بے وقوف بناتے رہیں گے اور ہم اللہ کی بجائے(نعوزوباللہ) ان کا شکر ادا کرتے چلے جائیں گے۔