گلگت سکاوٹس اور انقلاب گلگت
میں آزادی کے بارے بات نہیں کرنے لگا ہوں لغوی معنی کے اعتبار سے ہم سب ایک آزاد مملکت میں رہ رہے ہیں اسی حوالے سے یکم نومبر کو جشن گلگت کی تقریبات اور خوشیوں میں آپ کے ساتھ شریک ہوتے ہوے گلگت کے ان سپوتوں کو خراج تحسین اور ہدیہ تبریک کے چند الفاظ لکھ کر ان سے اظہار عقیدت کا فریضہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ ہرسال یکم نومبر آتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔یہ دن جہاں ہمیں اپنے شہیدوں اور غازیوں کے کارناموں کی یاد دلا کر ہمارے سر فخر سے بلند کرتا ہے وہاں زخموں میں تھوڑا سا نمک بھی چھڑکا جاتا ہے ۔ یہ نہیں کہ ہماے اسلاف نے کوئی بزدلی دکھائی تھی بلکہ اس لیے کہ جس آزادی کی خواہش تھی یا جو ارمان تھا۔ اس صلے کی لذت سے آج تک نا آشنا ہیں۔پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ جموں و کشمیر کی آزادی کے نام سے 1947 ء میں لڑی گئی اس جنگ کے تحت جہاں پاکستان اور ہندوستان کی جغرافیائی سیاست پر اثرات پڑے اسی طرح گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی جنگی اثرات کے زیر اثر ہیں اور آج تک کشمیر مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں لڑی جاچکی ہیں ۔ کشمیر تو ہم حاصل نہ کر سکے لیکن ملک کا آدھا حصہ ہم نے گنوا دیا۔ صورتحال جو بھی ہے دیکھا جائے تو 1947 ء سے لیکر 1999 ء کی کار گل جنگ تک ہمیں یکم نومبر کا دن رقم کرنے والوں کا کمال ہی نظر آتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج ہر کوئی اپنے آپ کو انقلاب گلگت بلتستان کا ہیرو مانتا ہے قارئیں آئیں آج اپنے ان ہیروز کو جو اب ہمیں صرف یکم نومبر ہی کو یاد آتے ہیں ان کے تاریخ سے آشنا ہوجائیں کہ کن نامساعد اور کٹھن حالات میں انہوں نے اپنی ہمت اور بہادری سے دشمن کے چھکے چھڑا دیئے ۔جی ہاں گلگت سکاوٹس جس کو ریاستی فوج کی مدد شامل تھی کن مراحل سے گذری اور کیا نقوش چھوڑے۔
1889 ء کا دور ہے گلگت میں برٹش ٓفیسر کرنل ڈیورنڈ کی حکومت ہے اسی دور میں ایک نیم فوج کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر گلگت قرار پاتا ہے۔ اس نیم فوج میں مقامی راجاؤں کے رشتہ داروں کو براہ راست وائسراے کمیشنڈ آفیسر مقرر کیا جاتا اور راجاؤں کی سفارش پر ہی کسی کوبھرتی کیا جاتا تھا ۔یہ نیم فوج جو گلگت لیویز کہلاتی تھی تمام اخراجات دہلی سرکار برداشت کرتی تھی ۔ اس نیم فوج نے نگر نلت کی مہم میں بھر پور حصہ لیا ۔1913 ء میں گلگت لیویز کو باقاعدہ ایک کمپنی کے تحت منظم کیا گیا اور اسے گلگت سکاؤٹس کا نام دیا گیا ۔ 1947 تک گلگت سکاؤٹس کی تعداد صرف586جوانوں پر مشتمل تھی -کمانڈنگ آفیسر میجر طفیل نشان حیدر بھی گلگت سکاوٹس کے سربراہ رہے کی۔ 1949 ء میں اسے مزید توسیع دیتے ہوئے ایک اور یونٹ کا اضافہ کر دیا گیا جسے ناردرن سکاؤٹس کے نام سے نوازا گیا گلگت سکاؤٹس کا یہ بھی ایک اعزاز ہے کہ یہ پہلی فوج تھی جس نے 1948 ء میں کارگل اور بٹالک پر قبضہ جمایا اور اپنے لیئے وکٹر کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔ گلگت سکاؤٹس کی تاریخی جائزے کے مطابق1964 ء میں اس میں ایک اور یونٹ قراقرم سکاؤٹس کے نام سے وجود میں لایا گیا جس کا ہیڈ کوارٹر سکردو میں رکھا گیا ۔ گلگت بلتستان کی جغرافیائی اور دفاعی نقطہ نگاہ اور فوجی حکمت عملی کے تحت گلگت سکاؤٹس کو مرکزی دائرے میں لانے کے لیئے مزید اقدامات کئے گئے اور 1975 ء میں اسے ناردرن لائٹ انفنٹری کے نام سے باقاعدہ ریگولر فوج میں شامل کیا گیا۔
گلگت سکاؤٹس اور انقلاب گلگت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اسی ناردرن لائٹ انفنٹری کے حوالدار لالک جان نے کارگل جنگ 1999 ء میں بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے پاکستان کا سب سے اعلیٰ اعزاز نشان حیدر اپنے نام کر کے ایک بار پھر 1947 ء کا دور زندہ کیا۔ جہاں گلگت سکاؤٹس اور ریاستی فوج نے بے سر و سامانی کے باوجود بہادری کے ایسے کارنامے رقم کئے کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ انہوں نے 10 مئی 1948 ء کو کارگل فتح کیا تھا اور ایسی حکمت عملی بنائی کہ دشمن کے چھکے چھٹ گئے ۔جب ہم اس جنگ کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو ریاستی اور گلگت سکاؤٹس کی تین ونگز ہمیں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ \”مارخور\” ، \”ٹائیگر\” اور\” اسکیمو\” ونگز سکردو میں مقیم ڈوگرہ بٹالیں سے نمٹنے کیلئے ریاست کشمیر فوج کے میجر احسان علی خان کے زیر کمان\” مارخور\” ونگ سخت سردی اور برف میں سکردو پہنچتی ہے دشمن پر متعدد حملے کرنے کے باوجود جب کامیابی نہیں ملتی ہے تو حکمت عملی کے تحت دشمن کو اپنے حال پر چھوڑ کر یہ ونگ دریاے سندھ کے ساتھ ساتھ \”کارگل\” اور \” لیہ\” کی طرف روانہ ہو جاتی ہے جہاں پرکوتہ کے مقام پر دشمن کی فوج جو برگیڈیرفقیر سنگھ کی زیر کمان تھی سامنا ہو جاتا ہے اور یہ ونگ دشمن کی فوج کو شکست سے دوچارکرنے کے بعد بالا آخر\” لیہہ\” کا محاصرہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔ دوسری طرف \”ٹائیگر \” فورس جس کی کمان ریاستی فوج کے میجر حسن خان کر رہے تھے فروری کی سخت سردی میں چودہ ہزار دو سو فٹ بلند برزل پاس عبور کرنے کے بعد دریائے کشن گنگا کے ساتھ چلتے ہوئے وادی گریز سے ہوتے ہوئے درہ تراگبل پہنچ جاتی ہے اور پیشقدمی جاری رکھتے ہوئے یہ ونگ 8 مارچ 1948 ء کو بانڈی پورہ میں خیمہ زن ہوکر اپنے دفاعی مورچے بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یاد رہے یہ جگہ سری نگر سے صرف چھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ دوران جنگ جب\” مارخور\” ونگ پر دشمن کا زور بڑھ جاتا ہے تو\” اسکیمو\” ونگ جو اس وقت بونجی میں مقیم تھی پروگرام کے مطابق سیکنڈ لیفٹیننٹ محمد شاہ خان کی سربراہی میں کارگل کی طرف روانگی کا حکم مل جاتا ہے ۔ تاکہ دشمن کی اہم سپلائی لائن کاٹ دی جائے کیونکہ دشمن کی تمام تر سپلائی کا یہ سب سے بڑا راستہ تھا \”اسکیمو\” ونگ اپریل کے دوسرے ہفتے بونجی سے روانہ ہوتی ہے اور برزل پاس اور آگے چالیس میل کا طویل برفانی میدان دیوسائی عبور کر کے کارگل کے نزدیک پہنچ جاتی ہے جہاں پر دشمن کی اہم چھاونی اور دشمن کا سب سے بڑا سپلائی ڈپو موجود تھا کارگل پرقبضے کیلئے چھوٹی پوسٹوں کے علاوہ اہم ٹارگٹ\” دراس\” کا علاقہ اور \”کارگل \”کے نزدیک\” خیرول پل\” تھے ۔ یہاں شاہ خان نے ایک کمپنی صوبیدار صفی اللہ بیگ کی زیر کمان\” خیرول پل\” پر حملے کیلے۔۔ ایک کمپنی صوبیدار غلام مرتضی کی زیر کمان\” کارگل\” پر قبضے کے لیے جب کہ ایک کمپنی صوبیدار شیر علی کی کمان میں\” دراس\” پر قبضے کے لیئے روانہ کر دیا ۔ تینوں کمپنیاں9 مئی کو مقررہ جگہ پہنچ کر حملے کی تیاری میں لگ گئیں ۔ منصوبہ بندی کے مطابق \”دراس\” پر صبح سویرے حملہ کرنا تھا جہاں دشمن کی ایک کمپنی کیپٹن کشمیر سنگھ کی زیر کمان مقیم تھی ۔ ایک مقامی آدمی کی معرفت کیپٹن کشمیر سنگھ کے پاس ہتھیار ڈالنے کا پیغام بھیجا گیا جو اس نے نامنظور کیا اور جوابی حملہ کر دیا۔ جس کے باعث\” دراس\” کئی دن تک فتح نہ ہو سکا \”خیرول پل\” پر وقت مقررہ پر حملہ کیا گیا یہاں بھی دشمن کی ایک کمپنی موجود تھی جو سراسیمگی میں بھاگ کھڑی ہوئی\” کارگل \”کے اطراف میں بلند پہاڑوں سے صبح کے وقت حملہ کیا گیا . دشمن کی طرف سے سخت جوابی فائرنگ کا سامنا ہونے کے باوجود \”خیرول پل \” پر فتح کا جھنڈا گاڑھ دیا گیا ۔ قبضے کے بعد یہ فائرنگ آہستہ آہستہ کم ہو تی گئی ۔جو بالا آخر دوپہر کو اختتام پذیر ہوئی ۔ ریاستی فوج ،اور گلگت سکاؤٹس کے دستے کارگل چھاونی میں داخل ہو گئے۔دریں اثنا \”مارخور \”ونگ کے جوان بھی وہاں پہنچ گئے\” کارگل \”سے کافی سارا اسلحہ اور راشن جوانوں کے ہاتھ لگا .. ریاستی فوج اور گلگت سکاوٹس نے اسے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا یا \”اسکیمو فورس\” کے جوانوں نے آگے بڑھ کر درہ زوجیلا پر بھی قبضہ کر لیا جب دشمن نے یہ منظر دیکھا تو انہوں نے بھاری توپ خانے سے حملہ شروع کردیا جس میں ٹینکس اور ائیر فورس کے حملے شامل تھے ۔گلگت سکاؤٹس کے بہادر اور جری جوانوں کے لیئے یہ تجربہ نیا تھا ۔جس کی انہیں خاص تربیت نہیں تھی جس کے باعث انہوں نے دفاعی پوزیشن اختیار کر لی اور پیچھے ہٹے تا وقتیکہ یکم جنوری 1949 ء جنگ بندی کا اعلان ہوا اور بعد میں جنگ بندی لائین کنٹرول لائن میں تبدیل ہو گئی ۔گلگت سکاؤٹس اور ریاستی فوج کے کارناموں کی تفصیل بہت لمبی ہے اسے اس چھوٹے کالم میں پرویا نہیں جا سکتا اس کے لیے صفحے درکا رہیں افسو س اس بات کا ہے یہ کارنامے انجام دینے والوں کو جو انعام ثمرات ملنے چاہے تھے ان سے یہ سپوت اور عوام محروم رہے۔ یہاں مجھے یہ حقیقت بتانے میں کوئی عار نہیں کہ گلگت کے انقلاب میں سول مداخلت کوئی نہیں تھی یہ سارا منصو بہ ریاستی فوج اور گلگت سکاوٹس کا تھا اور اس میں گلگت میں مقیم پاکستان کے حمایتی برٹش ٓفیسران کی مدد شامل تھی۔ عوام ان تمام باتوں سے بے خبر تھی بلکہ یہاں تک ہوا کہ جب گھنسارا سنگھ گرفتار ہوا تو عوام نے ریاستی تشخص میں مدا خلت پر شاہی پولو گرونڈ میں احتجاج بھی کیا ۔جس پر میجر برون اور صوبیدار میجر بابر خان نے راجہ سلطان حمید خان پولیس انسپکٹر کو اس ا حتجاج کو روکنے کے لئے روانہ کیا تھا ۔۔یہ فوجی انقلاب جو سٹیٹ فوج اور گلگت سکاؤٹس کی مراعات سے متعلق مسئلے سے شروع ہوا تھا جس نے صوبیدار میجر راجہ بابر خان اور کر نل حسن خان کی ملاقات کے بعد ایک تحریک کی شکل اختیار کی اور یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ یہ سب ایکشن میجر براؤن کی نگرانی میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچا ۔۔ا ور یہ بھی ایک سچ ہی ہے کہ کرنل حسن خان اور میجر برون کے درمیان انقلاب کے حوالے سے ان بن بھی ہوئی۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجودانقلاب کا کار نامہ گلگت سکاوٹس کے سر ہی جاتا ہے جنہوں نے ریاستی فوج کے کرنل مرزہ حسن خان کی سالاری میں کامیابی کے انمٹ نقوش چھوڑے۔یہاں سے آگے بہت سارے سوالات ہیں جنکا جواب ابھی باقی ہے زندگی رہی تو آئیندہ ۔