کالمز

حسنین قتل کیس اور ہماری ذمہ داریاں

مجینی محلہ گلگت سے تعلق رکھنے والے معصوم بچے کے ساتھ کیا جانے والا انسانیت سوز سلوک اوربعدازاں انتہائی بے دردی سے موت کی نیند سلادینے کے واقعہ کی خبر سن مجھے یکدم وہ شخص یاد آیا جو آج سے ٹھیک پانچ برس قبل ایک ایسے ہی واقعہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی داستان سنانے اور واقعہ کی تحقیقات کرکے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی فریادحکام تک پہنچانے کی غرض سے ہمارے اخبار کے دفتر آئے تھے۔ گلگت شہر سے ہی تعلق رکھنے والے زمرودخان نامی شخص کے سات سالہ بیٹے بشارت کو درندہ صفت افراد نے اس وقت جنسی حوس کا نشانہ بنایا جب وہ اپنے گھر کے قریب واقع مسجد سے پانی لیکر واپس آرہا تھا۔ انسانیت کے روپ دھارے درندوں نے اسے ننھے بشارت کو بھی جنسی حوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے لاش کو بوری میں بند کرکے سڑک کے کنارے کچرہ میں پھینک دیا تھا جوکہ چند روز بعد سڑک کی صفائی کے دوران برآمد کی گئی تھی۔ پھر زہن کو تھوڑا پیچھے کی طرف گمانے پر اس واقعہ سے چند برس قبل یاسین غذر سے تعلق رکھنے والے گلگت شہر ہی میں واقع ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے طالب علم مسلم خان کے ساتھ کیا جانے والا سلوک یاد آیا جنہیں بھی جنسی حوس کا نشانہ بنانے کی غرض سے شہر سے دور ایک ویران جگہ پر لے جایا گیاجہاں پر انہوں نے زلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر کے مصداق درندوں کے چنگل میں پھنس جانے کی بجائے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے کو غنیمت سمجھا۔ پھر سوچتے سوچتے مجھے چند ماہ قبل گلگت شہر ہی کے ایک اعلیٰ درس گاہ کے معلم کے بیٹے معاویہ مجیر کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی ایک تازہ واقعہ کی طرح یاد آیا ۔معاویہ کو بھی مسجد کے دروازے سے اٹھاکر انتہائی بے دردی سے قتل کرکے مکئی کے کھیت میں پھینک دیا تھا۔

مجھے گلگت بلتستان کے بعض علاقوں میں خواتین اور معصوم بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے متعدد واقعات بھی یاد آنے لگے مگر میں بھی دیگر لوگوں کی طرح ایسے واقعات پر دکھ اور مذمت کا اظہارکرنے کے سواکچھ نہ کرسکا۔SAFDAR-ALI-SAFDAR-300x200 اس واقعہ کے اگلے روز پھول جیسے حسنین کے جسم پر بے رحمانہ تشدد کے نشانات والی تصویر پر نظرپڑ جانے کے بعد میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ اس لئے کہ ننھا منھا حسنین تو اس دنیا سے چلا گیا اب اس کے جسم پر تشدد کے نشانات اور اس واقعہ سے متعلق تفصیلات سن کر بے چارے والدین پر کیا گزرتی ہوگی کیونکہ ننھے بشارت اور مسلم خان کی جدائی میں ان کے والدین کی جوحالت ہوئی تھی وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ آٹھ سال کے عمر کے اس پھول سے بچے کے ساتھ جو شرمناک سلوک کیاگیا اس پر تو پوری انسانیت شرمسار ہے اور اس واقعہ میں حسنین کے ساتھ جو ہوا اسے باربار دہرانا بھی مقتول کے والدین اور لواحقین کو مذید ازیت سے دوچار کرنے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ تاہم حسنین کے ورثاء کو اس صف ماتم میں تھوڑا سا حوصلہ اس لئے مل سکتا ہے گلگت کے عوام نے اس واقعہ کے خلاف جس قدر بیداری کا مظاہرہ کیا اس کی مثال بھی ماضی کے واقعات سے بہت کم ملتی ہے۔ سول سائٹی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کے علاوہ اس بار تومعاشرے کا کوئی بھی طبقہ ایسا نہیں تھا جو اس واقعہ کی مذمت نہ کرتا ہو۔اور تو اور اس مرتبہ تو خواتین اور سکولوں کے طلباء وطالبات نے حسنین کے بہیمانہ قتل کی مذمت اور واقعہ میں ملوث ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے حق میں پولیس اسٹیشن اور عدالت کے سامنے دھرنا دیکر پولیس کوملزمان کے خلاف ایک عام سا مقدمہ درج کرانے کی بجائے دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے پر مجبور کردیا۔ ورنہ ہمارے ملک کا نظام تو سب کو پتہ ہے اور پولیس، انتظامیہ اور حکومتیں چاہے تو کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ جیساکہ سانحہ ہنزہ میں باپ بیٹے کے قاتلوں کی بجائے پرامن مظاہرین کو اور سانحہ ماڈل ٹاون لاہور میں چودہ افراد کے قاتلوں کی بجائے گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے کو سزا دی گئی۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حسنین قتل کیس کے ملزمان پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا بھی جاتا ہے تو سزا کیا ہوسکتی ہے؟ کیا ان کو بھی وہی سزا ہوگی جو مسلم خان، بشارت اور معاویہ مجیر کے قاتلوں کو سنادی گئی تھی؟ شائد ان کے ساتھ بھی یہی ہو!

پہلے کچھ عرصے تک کیس پولیس اور عدالتوں کے بھیج میں چلتا رہے گا پھر عدالت سے سزا پانے کے بعد ملزمان جیل جائیں گے پھر وہاں سے ضمانت پر رہا ہوکر اپیلوں اور سمجھوتوں میں پڑنے تک کوئی دوسرا ایسا واقعہ رونما ہوگا اور اس واقعہ کے ملزمان کی تلاش اور سزاؤں کے چکر میں پہلے کا واقعہ کب کا بھول چکا ہوگا۔ کیونکہ یہ صرف میرا تجزیہ ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک روایت بھی بن گئی ہے اگر نہیں تو کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ درجہ بالا مقتولین کے علاوہ اسی شہر میں درجنوں ایسے واقعات رونماہوتے رہے جن میں سے کتنوں کے ملزمان کو سزائیں دی گئیں؟ یہاں پر تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو مختلف واقعات میں موت کے گھاٹ اتارا گیا لیکن کسی ایک ملزم کو بھی ایسی سزا نہیں دی جاسکی جس سے مقتولین کے ورثاء کو اطمینان مل گیا ہو۔ اس کے علاوہ اسی علاقے میں ہی سیاستدانوں،وکلاء ، علماء،ڈاکڑوں، پویس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں، بے گناہ شہریوں، راہ چلتے مسافروں،غیرملکی سیاحوں یہاں تک کہ خودانسداد ہشت گردی کی عدالت کے ایک جج کو بھی قتل کیا گیا لیکن اس کے باوجود ان واقعات میں ملوث ملزمان کو کوئی سزا نہ مل سکی تو آج حسنین کے ورثاء کو انصاف ملنا کوئی خاص معجزہ ہی ہوسکتاہے۔یقیناًحسنین قتل کے واقعہ کے بعد علاقے کے تمام والدین اپنے بچوں کے بارے میں انتہائی فکرمندہونے لگے ہیں کیوں کل یہ واقعہ مسلم خان، معاویہ مجیراورآج حسنین جیسے معصوم بچے کے ساتھ پیش آیا ہے تو آنے والے کل کو اس قسم کے کئی واقعات بہت سارے بچوں کے ساتھ پیش آسکتے ہیں جن کا نہ کسی کے ساتھ ذاتی عداوت اور نہ ہی کوئی زمین وجائیداد کاتنازعہ بلکہ قانون کے رکوالوں کی نظروں سے اوجل چند درندوں کی جنسی خواہشات کی تکمیل کی خاطر بے گناہ اور معصوم بچوں کی جانوں کا ضائع ہوتا رہے گا۔ جوکہ حکومت اور ریاستی اداروں کے منہ پر تمانچہ نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے ۔ بہرحال معاشرے کو تباہ و برباد کرنے اور نوجوان نسل کوبے راہ روی کا شکار کرنے میں ہم سب یعنی معاشرے کے افراد کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ہم نہ بحیثیت والدین اپنے بچوں کو بری صحبت سے بچنے کی کوئی نصیحت کرتے ہیں نہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی سطح پر طلبا ء وطالبات کی اخلاقی تربیت پر کوئی توجہ دی جاتی ہے۔ ہمارے علماء کرام کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کوئی خاص اقدام نہیں اٹھایا جاتا ہے ۔معاشرے کو بگاڑنے اور نوجوانوں کو تباہی کی طرف لے جانے کا ایک اور سبب جدید ٹیکنالوجی یعنی موبائل فون، کیبل اور انٹرنیٹ کا غیر دانشمندانہ استعمال ہے ۔ہم اپنے بچوں کو ان تمام چیزوں تک آسانی سے رسائی دیتے ہیں لیکن ان کے استعمال کے طور طریقے سمجھانے اور استعمال کے دوران ان کی مانیٹرنگ کرنے سے گریزاں رہتے ہیں جس کے باعث بچے معاشرے کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے نہ والدین کی عزت کا خیال رکھتے ہیں نہ دوسروں کی عزت وآبرو کا احساس ہوتا ہے چاہے اس میں ننھے حسنین کی طرح کسی کی قیمتی جان بھی کیوں نہ چلی جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے نوعمر بچوں پر کڑی نظر رکھے، علماء کرام معاشرتی اخلاقیات کا درس دیں،اساتذہ انکی عملی تربیت کریں اور قانون اللہ کو حاضروناصرجان کر سزا وجزا کا تعین کریں تو معاشرے میں اس قسم کے واقعات کا تدارک ہوسکتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button