توہین رسالت یا توہین مذہب و خلافت کے آڑ میں قتل عام!
مشتاق حسین حکیمی
حال ہی میں پاکستان میں دو ایسے انسانیت سوز واقعات پیش آئے جسے سن کر ہر انسان کا دل جلتا ہے. پہلا حادثہ قصور میں اس مسیحی جوڑے کا ہے جنہیں توہین رسالت کے الزام میں زندہ جلایا جاتا ہے. دوسرا واقعہ گجرات کا ہے جہاں طفیل حیدر نقوی نامی شخص کو تھانے کے اندر کلہاڑی کی وار سے توہین خلفا کے بہانے سے قتل کیا جاتا ہے.
ان دو واقعات کے تناظر میں دیکھنا یہ ہے کہ دین اسلام جس میں امن اور سلامتی ہے اور دنیا کو پیغام امن دیتا ہے , پیغام انسانیت دیتا ہے, پیغام رواداری دیتا ہے کیوں اس اسلام کے ماننے والے مسلمان آئے روز کہیں نہ کہیں اسلام کے نام پر انسانیت کے قتل کے درپے ہیں کیوں بےگناہ انسان اسلام کے نام پر قتل ہوتا ہے ؟
کیا اسلام اس طرح کے قتل کی اجازت دیتا ہے؟
کیا اسلام میں ہر کسی کو توہین رسالت کے مرتکب شخص کاقتل جائز ہے؟
کیا اسلام میں کوئی جوڈیشل سیسٹم نہیں پایا جاتا جو هر کوئی خود سے جج بنا بیٹھا ہے؟
توہین رسالت یا توہین مذہب کا معیار کیا ہے؟
اس توہین رسالت یا مذہب کی سزا کیا ہے؟
اگر سزا قتل ہو تو توہین رسالت کے مرتکب شخص کو کون سزا دیے سکتا ہے؟
اگر سزا قتل ہو تو کس طرح سے قتل کرنے کا حق ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں کہ ان دو واقعات یا اس سے پہلے کے دسیوں واقعات کے بارے میں اٹھتے ہیں
اگر اسلام میں جوڈیشل سیسٹم نہ ہو تا تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ توہین رسالت کی سزا ہر کوئی دے سکتا ہے البتہ سزا کی کیفیت اور چگونگی سے ہٹ کر, لیکن جب ایک اسلامی ملک میں جہاں سیسٹم موجود ہے اور سالانہ اربوں روپیہ عدلیہ پر خرچ کیا جاتا ہے وہاں ہر گلی میں ہر شخص خود مدعی بنے اور خود قاضی بنے اور خود حکم سنانے کے بعد حکم کو خود جاری بھی کرے تو پھر معاشرے میں امن و امان کیسے برقرار ہوگا اور پھر یہ عدلیہ کس کام کے لئے بنا ہے اور اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور اقلیت کے حقوق کی محافظت کیسے ہوگی؟, یہ تو غیر معقول بات ہے کہ ایک شخص خود سے کسی پر توہین رسالت یا مذہب کا الزام لگائے اور پھر خود ہی جج بن کر حکم سنائے , اس سے معاشرے میں بگاڑ تو آسکتی ہے اصلاح نہیں, کیا پیامبر اکرم کے دور میں یا خلافا راشدین کے دور میں کہیں ایسا واقعہ ملتا ہے کہ کسی نے خود سے کسی مجرم کو خود سرانہ سزا دی ہو؟
ہرگز نہیں!عدالت کے قوانین کے مطابق اگر کوئی شخص توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہو تو پہلے کورٹ میں جاکر رٹ دائر کی جائے اور پھر عدالت کے حکم کا انتظار کرنا ہوگا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہر گلی میں ہر کوئی کسی بے یار و مددگار مسیحی کو قتل کرے,
فرض کرتے ہیں کہ اگر کسی کو یہ اجازت بھی ہو کہ توہین رسالت کے مرتکب کو خود قتل کرسکتا ہے تو اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیسے قتل کیا جائے کیا زندہ جلانا انسانیت اجازت دیتی ہے اسلام میں توہین رسالت کا مرتکب کو زندہ جلایا جانا جائز ہے؟ نهیں ہرگز نہیں, بلکہ اسلام تو جہاں قصاص کا حق دیتا ہے وہاں پر بھی اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ قصاص کے بہانے کسی کو مُثلہ (یعنی بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے) سے بھی منع کرتا ہے اور سورہ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے کہ قصاص کرتے ہوئے اسراف نہ کرنا اور مفسرین نے اس اسراف سے مراد مثلہ کرنا لیا ہے . وہ اسلام جہاں قصاص میں حد سے تجاوز کرنے سے روکتا ہے جہاں پر کسی عزیز کے قتل کے مقابلے میں قتل کیا جا رہا ہے وہاں پر انسانی اقدار کی رعایت کا بھی حکم دیتا ہے, قصاص کا حق دیتا ہے لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں که درد آور طریقے سے اسے قتل کیا جائے, یا آگ میں پھینکا جائے , یا رسی سے گلا باندھ کر مارا جائے یا اتنا مارا جائے کہ دم توڑ دے بلکہ اسلام نے قصاص کا حق جو دیا ہے و ہ سیدھا قتل ہے یا تلوار سے یا پھانسی سے , جس سے اس شخص کی جان نکل جائے,
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ امت محمدی پیامبر اکرم کے احترام کے بہانے خود اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کر رہی ہے جن کاموں سے پیغمبر اکرم نے روکا ہے وہ انکی اطاعت کی نیت سے مخالفت کر رہی ہے.
اس ظلم کی انتہا اس وقت ہوتی ہے کہ جہاں سے ہم انصاف لینے جاتے ہیں جہاں سے لوگوں کو انصاف ملنا چاہیے اس ادارے سے کسی ملزم کے سر پر اے ایس آئی کلہاڑی کی وار کرتا ہے, یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اداروں میں بھی بغیر کسی ججھک کے, کسی عدالت کے حکم کے بغیر قتل کیا جائے وہ بھی اس بہانے سے کہ توہین خلافت کی ہے ساتھ میں یہ بھی کہتا ہے کہ وہ شخص ذہنی مریض تھا . تو اسلام میں تو پاگل یا فاتر العقل انسان سے حکم اٹھایی گئی ہے اگر بچہ یا دیوانہ شخص کسی جرم کا مرتکب ہوجائے تو انکو سزا نہیں دی جاسکتی ہے تو طفیل حیدر کا قتل کیسے ممکن ہوگیا کیا وہ مریض نہیں تھا کیا خود پولیس رپورٹ اس بات کی شاہدنہیں کہ وہ دیوانہ تھا, اگر دیوانہ تھا تو قتل کیسے ہوا
آج کل پاکستان میں اسلامی اصول اور اقدار کی پائمالی اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسان کو زندہ جلایا جاتا ہے کیا پیغمبر اسلام کا وہ واقعہ نہیں پڑھا ہے کہ جہاں ایک بڑھیا ہر روز آپ پر کوڑا کرکٹ پھینک کر توہین رسالت کر رہی تھی لیکن خود رسالت , جس دن توہین نہیں ہوئی تو اس عورت کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے, پیغمبر اکرم کا یہ اخلاق حسنہ تھا کہ جس کی وجہ سے اتنے مختصر عرصے میں اسلام پور ی دنیا میں پھیل گیا اور قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ اے رسول اگر تم سنگ دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے اردگرد جمع نہ تو اور بکھر جاتے . اور آج کل کا مسلمان پیغمبر اکرم کی تمام تر محنت اور زحمتوں پر پانی پھیر رہا ہے اور بہت ہی آسانی سے لوگوں کو اسلام سے دور کر رہا ہے جہاں پر بھی کوئی قتل ہو رہا ہے کہیں پر بھی کوئی دہشتگردی ہو رہی ہے وہاں پر مسلما ن کا ہاتھ ہے اور کہیں نہ بھی ہو تو استعماری طاقتیں بہت آسانی سے تہمت لگائے بیٹھ جاتی ہیں چونکہ ہم نے موقع فراہم کیا ہے,
نیجیریہ سے لیکر عراق , شام , افغانستان اور پاکستان تک جہاں پر بھی قتل و غارت گری ہے وہاں اسلام نما مسلمان نظر آرہے ہیں,
اس عالم میں پاکستا ن میں مسیحیت کے خلاف ایک قتل و غارت کا بازار گرم ہے, کیا وقت کا مسلمان , عیسائی برادری کو بھی یہ حق دیتا ہے کہ کسی بہانے سے مسلمانوں کو اس طرح سے قتل کرے جس طرح سے وہ مسیحیوں کو قتل کر رہے ہیں
اسلام نے جس جرم کی سزا معین کی ہے , کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سزا خود سے دے بلکہ عدلیہ کے تحت سزا سنائی جائے گی اور وہی اس سزا کو نافذ کرے گا. اگر توہین رسالت کی سزا قتل ہے تو عدلیہ ہی وہ سزا دے سکتی ہے حتی کہ عدلیہ بھی اس شخص کو زندہ نہیں جلاسکتی کیونکہ یہ اسلام کے منافی ہے
پس گورنمنٹ آف پاکستان اور عدلیہ کو چاہیے کہ اسطرح سے بے گناہ شخص یا مجرم ہی کیوں نہ ہو ہر کسی شخص کے ہاتھوں سزادہی کو روکے وگرنہ ہر شخص مرضی کے مطابق ہر دوسرے شخص پر توہین رسالت کا الزام لگا کر خود اسے قتل کرے گا اور اسطرح کی حرکتوں سے اسلام ہر روز کمزور اور بدنام ہوتا جائے گا.
توہین رسالت کی سزا حتما ہونی چاہئے لیکن عدالت کے توسط نہ ہر وہ شخص جو دن میں ہزاروں اسلامی اقدار اور اصول کی پائمالی کا مرتکب ہو وہ کسی شخص کو توہین رسالت کے الزام میں قتل کرے.