"مجھے نوکری چاہیے”
تحریر : محمد طاہر رانا
کڑاکے کی سردی ہے ، گھپ اندھیرا ہے ، ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا ہے، ایسے میں دو انسانی ہیولے شہر کی مرکزی شاہراہ پر خراماں خراماں چل رہے ہیں ، وقتاً فوقتاًدور کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی آواز آرہی ہے ۔ یکلخت خاموشی ٹوٹتی ہے اور ایک گھبرائی ہوئی آواز میں دوسرے سے کہتا ہے ” مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے” دوسرا بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیتا ہے ” اگر آج ہم نے یہ نہیں کیا تو ہم کبھی اپنا حق نہیں لے سکیں گے اور وقت کی دوڑ میں ہم کہیں پیچھے رہ جائنگے” ۔
حامد اور عامر شہر کے وسط میں چچا رفیق کے ڈربا نما کیفے میں بیٹھے چائی کی چسکیاں لے رہے تھے ،حامد نے ایک گہری آہ بھری اور عامر سے پوچھا ” بتاو یار آج کل کیا مصروفیت ہے” عامر نے چائے کی ایک چسکی لی اور جواب دیا” کیا مصروفیت ہونی ہے وہی جو آج کل سب کرتے ہیں تعلیم مکمل کرو اور دردر کی ٹھوکریں کھاو ،،،، تین سال میں 35 سے ذائد دفعہ ٹیسٹ انٹرویو دے چکا ہوں مجال ہے کہیں سے کوئی مثبت جواب ملے،بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ،، رشوت اور سفارش والے ہی مزے میں ہیں” ۔۔۔عامر کی لمبی چوڑی تقریر سننے کے بعد حامد کچھ دیر تک خاموش رہا پھر یوں گویا ہوا ” یار عامر کچھ ایسا ہی حال میرا بھی ہے، ایک طرف گھر کا چولہا بجھنے کو ہے دوسری طرف بے روزگاری پیچھا نہیں چھوڑ رہی ، اب تو فاقوں کی نوبت آگئی ہے ” ،یوں دونوں دوستوں نے دیر تک اپنے اپنے مسائل کا ذکر کیا ، شام ہونے کو تھی ،دونوں دوستوں نے پھر ملنے کا وعدہ کر کے اپنے گھروں کی راہ لی ۔
حامد شہر کے نواہی علاقے کے ایک پسماندہ گاوٗں سے تعلق رکھتا تھا جہاں سب کی کمائی ہاتھ سے منہ تک کی تھی ،اس کے اندر تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھااور اسی مقصد سے وہ شہر میں قیام پزیر ہو ااور ملک کی ایک اچھی یونیورسٹی سے ارتھ سائنسز میں ماسٹر کیا ،، ماسٹر کرنے کیلئے اسنے ہوٹل میں بیرے کے کام سے لیکر وہ تمام کام کئے جو ایک مجبور انسان کرتا ہے ، یوں اپنے گھر کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے اخراجات بھی اٹھا تا اور اپنی رہائش کے اخراجات بھی برداشت کرتا تھا ، اس نے نمایاں نمبروں کے ساتھ ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی اس وقت اسکی آنکھوں میں ہزار سپنے تھے ، اسنے جب اپنے والدین کو اپنی ڈگری حاصل کرنے کی خوش خبری دی تب اسکے بوڑھے غریب والدین کو جیسے انکی تمام خوشیوں کا مداوا مل گیا ۔ انہیں کیا معلوم کہ جس ملک میں وہ رہتے ہیں وہاں ایک قابل انسان کی نہیں بلکہ پیسے کی قدر ہوتی ہے۔۔ حامد نے ماسٹر کرنے کے بعد اپنے والدین کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے جگہ جگہ ٹیسٹ اور انٹرویو دئیے تاہم اسے کئی سالوں تک دھکے کھانے کے باوجود نوکری نہیں ملی ، عمر کی حد بھی ختم ہونے کو تھی لیکن روزگار کا کوئی وسیلہ نہیں بن پا رہا تھا۔ اسکے دوست عامر نے بھی تین سال قبل ایم بی اے کا امتحان پہلی پوزیشن میں پاس کیا تھا ،، اسکی حالت بھی حامد سے کچھ کم نہ تھی ، دونوں دوست کبھی کبھار ایک دوسرے کا غم بانٹنے کیلئے ملتے رہتے تھے۔
سردیوں کا موسم شروع ہو چکا تھا معمول کی طرح دونوں دوست آج ایک بار پھر چچا رفیق کے کیفے میں ملے ، آج عامر کا پارا چڑھا ہوا تھا اس نے میز پر گھونسا مارتے ہوئے کہا "بس بہت ہوچکااب میں مذید نہیں سہہ سکتا” اس کے لہجے میں بلا کی سختی تھی۔ حامد کے استفسار پر عامر نے کچھ دیر اپنے غصے پر قابو پانے کے بعد کہا” آج ایک ادارے میں انٹرویو کیلئے گیا تھا ، ایک بڑی عینک والے صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمہارا انٹرویو بہت اچھا ہوا ہے ، لیکن اس جاب کیلئے تمہیں پیسے دینے پڑینگے، اگر دے سکتے ہو تو آج شام تک دے دو نہیں تو بھول جاو، یہ سن کر دل تو چاہ رہا تھا کہ اسکا منہ توڑ دوں لیکن اپنے آپ پر بمشکل قابو پا کر وہاں سے نکلا ہوں ، ایک طرف گھر میں کھانے کو دو وقت کی روٹی کیلئے لالے پڑ گئے ہیں دوسری طرف یہ حالات اب تو خودکشی کے علاوہ کوئی اور چارہ نظر نہیں آتا” عامر نے ایک ہی سانس میں اپنا قصہ سنا دیا تھا ۔ حامد نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ یار ہم کیوں خود کشی کریں اب تک بہت برداشت کیا اب واقعی مذید نہیں ہوتا ہمیں اب ان لوگوں کو سبق سکھانا پڑیگا، میرے پاس ایک پلان ہے اسکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔عامر نے پیشانی پر شکن لاتے ہوئے پوچھا ” کیا پلان ہے جلدی بتاو” حامد نے ایک آہ بھری اور سمجھانے والے انداز میں گویا ہوا” دیکھو عامر ہم کئی سالوں سے کن حالات کا شکار ہیں لیکن یہاں ہر طرف کرپشن اقرباء پروری اور رشوت کا دور دورہ ہے کسی نے ہمیں انصاف فراہم نہیں کرنا ہے ، اسلئے میں نے سوچا ہیکہ ہم ڈکیتیاں شروع کریں ، ان جابر ظالم اشرافیہ سے اپنا حق چھین کر وصول کریں ایسے کب تک چوڑیاں پہن کر سسکیوں میں زندگی گزاریں” عامر حامد کی باتیں سننے کے بعد کچھ دیر سوچنے لگا اور پھر حامد کی تائید کرتے ہوئے کہا ” ٹھیک ہے کام پر کب نکلنا ہے” حامد نے جواب دیا آج رات۔۔۔۔
کڑاکے کی سردی تھی ، حامد اور عامر نے ایک غلط راستہ چن لیا تھا اور اب وہ شہر کے ایک بڑے رئیس کے گھر میں ڈاکہ ڈالنے جا رہے تھے ، انہوں نے ایک منفی منزل کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی اور وہ نہیں جانتے تھے کہ انکا مستقبل کیا ہوگا ، دو ست جنہوں نے معاشرے کے کار آمد شہری بننے کیلئے مشکلات کے باوجود تعلیم حاصل کی تھی آج برائی کے راسے پر گامزن تھے۔ اسی طرح معاشروں میں بگاڑ کی شروعات ہوتی ہے اور ایک دن معاشرے کے تمام افراد کے پاس سوائے پشیمانی کے کچھ نہیں بچتا۔