گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت
قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ستائیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط گلگت بلتستان گزشتہ 68برسوں سے آئینی وسیاسی مسائل میں الجھا ہوا ہے عام الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ خطہ ایک بفر زون کے طورپر پاکستا نی کالونی کی حیثیت سے موجود ہے گلگت بلتستان کی آئینی وقانونی حیثیت سے متعلق بحث ومباحثوں کی ایک لمبی داستان ہے البتہ حالیہ چند برسوں کے دوران الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی بے انتہا ترقی نے اس گھمبیر مسئلے کو پوری دنیا کے سامنے تشتِ ازبام کر دیا ہے علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹس بھی وقتاََ فوقتاََ ملکی وغیر ملکی خبر رسان اداروں میں شائع ہوتے آرہے ہیں چند روز قبل گلگت بلتستان عدلیہ نے جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرخمٰن ،شائستہ لودی اور وینا ملک کے خلاف توہین صحابہ کے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ان پر فردِ جرم عائد کر کے جلد ازجلد انہیں گرفتا ر کرنے کا حکم دیا جس کے جواب میں میر شکیل الرخمٰن نے موقف اختیار کیا کہ گلگت بلتستان آئینی لحاظ سے پاکستان کا حصہ نہیں لہذا وہاں کی عدلیہ پاکستانی شہری پر مقدمہ نہیں چلا سکتے.
اس کے بعد ایک شور برپا ہوا کہ کان پڑی آوا زسنائی نہیں دی اسی دوران وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید کا بیان سننے کو ملا کہ’’ اگرچہ گلگت بلتستان جغرافیائی طورپر تو پاکستان کا حصہ ہے لیکن آئینی لحاظ سے پاکستان کا حصہ نہیں‘‘. ان دونوں بیانات کے بعد ہر طرف کہرام مچ گیا ہے کسی کو ان بیانات میں غداری کی بو آرہی ہے تو کسی کو حکومت کی جانب سے ایک نجی ٹیلی ویژن کے سربراہ کو خوش کرنے کی کوشش نظر آئی بنیادی طورپر ہم پاکستانی انتہائی جذباتی قوم ہے کسی بیان یا ادبی مواد کو ان کے مکمل سیاق وسباق میں پڑھنے اور اس پر تحقیق کرکے حقیقت کو جاننے کے بجائے اپنی انا کی خول میں مقید رہ کر ایک خاض نقطہ نظر کے علاوہ باقی کسی بھی نظرئے کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اگرکوئی بیان یا لٹریچر ہماری اسٹبلش نظریات کے برخلاف برآمدہو جائے تو اس پر تحقیق کرنے اور سچائی تک پہنچنے سے قبل ہی گمراہ کن پروپیگنڈے اور جذباتی تحریروتقریروں سے رائے عامہ کو گمراہ کرکے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے میں دانستہ یا نادانستہ طورپر کامیاب ہوجاتے ہیں.
گلگت بلتستان کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات اور میر شکیل الرخمٰن کے بیانات پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور مطلوبہ نتائج تک پہنچنے سے قبل ہی ان بیانات کو متنازعہ بنا دیا یہی وجہ ہے کہ علاقہ گزشتہ 68برسوں سے بغیر آئین وقانون اور بنیادی انسانی حقوق کے ایک کالونی کے طورپر چلائی جارہی ہے ۔وفاقِ پاکستان 1973ء کے آئین جس کے ساتھ ابھی تک سول وفوجی حکمرانوں نے 19مرتبہ اپنی ذاتی مفادات کے لئے آبروریزی کی ہے کے تحت چلائے جارہے ہیں اس آئین کے مطابق پاکستان کے چار صوبے ہیں ہر ایک صوبے میں ایک ہائی کورٹ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان ملک کا سب سے اعلیٰ عدلیہ ہے جبکہ مشرف دور میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام بھی عمل میںآیا تھا اس لحاظ سے پاکستان کے موجودہ عدالتی نظام پانچ ہائی کورٹس اور ایک سپریم کورٹ پر مشتمل ہے. اسی آئین کے مطابق ہر ایک صوبے کا اپنا قانون ساز اسمبلی ہوتا ہے جسے اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بہت حد تک آزادی ملی ہے اب صوبائی اسمبلی اور صوبائی حکومتیں اپنے معاملات میں مکمل طورپر خودمختار ہے ،73ء کے آئین میں ملک میں پارلیمانی جمہوریت نافذ کی گئی ملک کا سب سے اعلیٰ ترین قانون ساز اسمبلی پارلیمنٹ کہلاتا ہے جو کہ ایوان بالا یعنی سینٹ اور ایوان زرین یعنی قومی اسمبلی پر مشتمل ہے سینٹ کے اراکین کی تعداد 104ہے جن کی ٹینیور چھ سال اور ان کا انتخاب بلاواسطہ طریقے سے عمل میں آتا ہے جبکہ قومی اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد 343ہے ان میں سے 272براہ راست عوامی ووٹوں سے کامیاب ہوتے ہیں کوئی بل قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد اگر دو تہائی اکثریت سے پاس ہوجائے تو مزید بحث کے لئے سینٹ میں بھیجا جاتا ہے اگر سینٹ سے بھی دو تہائی اکثرت سے پاس ہوجائے تب صدرِ مملکت کے پاس فارمیلٹی دستخط سے لئے بھیجا جاتا ہے قانون سازی کا یہ عمل یوں جاری ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سینٹ اور قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کی کوئی نمائندگی نہیں گلگت بلتستان کا سارا انتظام سیکٹری لیول کے ایک آفیسر کے ہاتھ میں ہے گلگت بلتستان کا اپنا گورنر، وزیر اعلیٰ اورقانون ساز اسمبلی موجود ہے یہ ایک علامتی پارلیمان ہے جو ہاتھی کے دانت کی مانند صرف دیکھانے کے لئے موجود ہے ابھی تک کوئی ایسی قانون سازی اس ایوان کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملی جو کہ علاقے کے آئینی وسیاسی مسئلے کو حل کر سکے ،اسی طرح اگر علاقے کے کسی بندے کو گلگت بلتستان کا عدلیہ مجرم ٹہراے تو ان کو اس فیصلے کے خلاف سپریم آف پاکستان سے رجوع کرنے کا آئینی راستہ موجو د نہیں یہی وجہ ہے کہ علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں روز مرہ کا معمول ہے ،
NFCایوارڈ میں گلگت بلتستان شامل نہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر جی بی کے کسی فرد کی عدالتی شنوائی سپریم کورٹ آف پاکستا ن میں نہیں ہوتا تو پھر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے زیرِ انتظام پاکستانی علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقدمے کا فیصلہ کس طرح گلگت بلتستان کے عدلیہ میں ہوسکتا ہے ؟؟
جب سے میر شکیل الرخمٰن اور پرویز رشید کے بیانات آئے ہیں تو ہر طرف شور برپا ہے کہ یہ دونوں غدار ہیں جو گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ نہیں مانتے ان لوگوں کے پاس دلیل یہ ہے چونکہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک جرنل کو کورکمانڈرجیسے کلیدی عہدے پر ترقی ملی ہے جبکہ سرزمین یسٰین کے بہادر سپوت لالک جان شہید کو ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدرسے نوازا گیا ہزاروں نوجوان کارگل جنگ اور دوسرے علاقوں میں ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں تو پھر علاقہ کس طرح پاکستان کا حصہ نہیں ہوسکتا ؟ بات تو ٹھیک ہے لیکن بات ہے ۔۔۔۔۔ اگر پرویز رشید اور میر شکیل کے بیانات کو مکمل سیاق وسباق کے مطابق لیا ہوتا تو اتنی کنفیوژن نہیں ہوتی کیونکہ بے چارے پرویز رشید نے زندگی میں پہلی مرتبہ سچ بولا تھا جسے بھی متنازعہ بنا دیا گیا حد تو یہ ہے جی بی کے عوام کی اکثریت بھی اس بات پر سیخ پا ہے جبکہ اس دوران حقیقت کہیں راستے میں گھم ہو کر رہ گئی سادہ سی بات کو اتنا اچھالنے کی شائد ضرورت نہ تھی گلگت بلتستان آئینی لحاظ سے پاکستان کا حصہ نہیں پاکستان کا آئین اس علاقے کو کور نہیں کرتاعلاقہ اعلیٰ آئینی اداروں (قومی اسمبلی،سینٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان ) کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے یہی آج کی اصل حقیقت ہے جس کو ماننے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی تیار نہیں ۔
(کالم نگار فری لانسر جرنلسٹ اور نیشنل یوتھ اسمبلی خیبر پختونخواہ کے ساتھ منسٹر آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کام کررہے ہیں ای میل آئی ڈی karimullahcl@gmail.com)