سردی، بیوروکریسی، سیاست اور گلگت بلتستان
شرافت علی میر
گلگت بلتستان ایک خوبصورت اور پہاڈی علاقہ ہے. اونچے پہاڑ اور گلیشرز جہاں گلگت بلتستان کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں، وہی ان کی وجہ سے گلگت بلتسان میں سردی میں بھی اضافہ ہوتا ہے. اس لیے سردیوں میں یہاں سخت سردی ہوتی ہے۔لیکن اتنی بھی نہیں جتنی یورپ ،امریکہ اور روس میں ہوتی ہے ۔
جس طرح موسمی پرندے موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں بالکل ایسی طرح ہمارے منتخب نمائندے اور ہمارے سیکرٹری صاحبان سردیوں میں اسلام آباد اور دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی کاموں کا فنڈ اسلام آباد میں ان کے آرام ،عیش و عشرت اور وقت گزارنے پہ خرچ ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ یہاں سردیوں کے الاونس بھی لیتے ہیں ۔
سانحہ ننگا پربت کے دوران پتہ چلا کہ چیف سیکرٹری،ہوم سیکرٹری اور آئی ۔جی اسلام آباد میں ہیں تو ان تینوں کو ان کے عہدہ سے ہٹھایا گیا۔ اور پھر وزیر داخلہ چودھری نثارنے پرس کانفرنس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ ان کی ڈیوٹی گلگت میں ہے اور یہ لوگ پچھلے ایک ہفتے سے اسلام آباد میں بیٹھے ہیں، یہاں ان کا کیا کام ہے؟
سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے ایک سیکشن آفسر نے کہا کہ فوجی حکومت میں یہ لوگ سردیوں میں یہاں بیٹھتے تھے۔شائد یہی وجہ ہے کہ گلگت کے لوگ ہمیشہ فوجی حکومت سے خوش رہے ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی جمہوری حکومت آیا یہ سلسلہ پھر شروع ہوتا ہے ۔ اوریہاں نظام درہم برہم ہوکے رے جاتا ہے بجلی،ہسپتال،اسکول غرض جو بھی ادارے ہے وہ متاثر ہوکے رہ جاتا ہے ۔
ایسے میں گلگت بلتستان کے عوام پہ کیا گزرتا ہے یہ یہاں کے غریب عوام جانتے ہے جو یہاں دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہے اور ہر صبح سیکریٹریٹ کا چکر لگاتے ہے اوردن بھر کی انتظارکے بعد شام کو مایوس گھر لوٹتے ہے اور دور دراز سے آنے والے ہوٹل کا رخ کرتے ہے ۔غریب آدمی جاۓ توجاۓ کہاں۔
سیکرٹریز کے پی۔اے کو جب آپ پوچھینگے تو ان کا جواب ہوگا کہ بس فلاٹ ہوا تو سیکرٹری صاحب آج آئیگا۔ سردیوں میں فلائٹ بہت کم ہوتا ہے کیونکہ پہاڈوں اور گلیشرز کی وجہ سے اکثر یہاں بادل چائیے رہتے ہیں اور فلائٹ کی منسوخی ان کے لیے اچھا بہانہ ہوتا ہے۔بذریعہ روڈ آنا یہ لوگ اپنے توہین سمجھتے ہیں ۔
اگر یہ دس دن کے بعد دو دن کے لیے آتے بھی ہیں تو میٹنگ ،ملاقات،دعوت اور دوروں کے بعد واپس اسلام آباد کا رخ کرتےہیں۔
گلگت میں اکثر ایسے بیوروکریٹ کو بھیجا دیا جاتا ہے جو یا تو بہت زیادہ اثرورسوخ والا ہوتا ہے یا پھر سر پھیرا ہوتا ہے ۔اثر ورسوخ رکھنے والے افسران یہاں خوب پیسے بنا کے جاتے ہیں ۔
ہمارے منتخب نمائندے جو بلند و بانگ دعوی کرتے ہیں وہ خود ان بیوروکریٹ سے پہلے اسلام آباد پہنچتے ہیں. پچھلے سال سردیوں میں اسپیکر جناب وزیر بیگ کے علاوہ سب اسلام آباد میں تھے۔اندازہ کرو کہ یہ لوگ جو کسی ملک یا علاقے کے نظم و نسق چلاتے ہے اگر اپنے لوگوں کو چھوڈ کرکہیں اور چلا جاۓ تو وہ لوگ کس کے پاس جائنگے. کون ان کا کام کرئگا کیا انھوں نے ووٹ چھٹیاں گزارنے کے لیے لیا تھا۔ اور شرم کی بات یہ ہے کہ یہی نام نہاد نمائندے ٹھیکدار اور اسمگلرزان بیوروکریٹ کے لیے اسلام آباد میں شراب و شباب کی محفلوں کا بندوبست کرتے ہیں ۔
ایسا نظام شائد ہی دنیا کے کسی ملک میں ہوگا. کہتے ہیں کہ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے لیکن افسوس کہ گلگت بلتستان جو براۓ نام صوبہ ہے یہاں قانون بھی براۓ نام ہے ۔
آج کے اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جب لوگ آن لائن انٹرویو ،کانفرنس اور میٹنگ میں شرکت کرتے ہے۔تو ان کو بھی آن لائن شرکت کرنا چائیے لیکن یہاں الٹا گنگا بہتا ہے مشرف حکومت میں جو ای گورنمنٹ اور ڈیجٹل لائبریری پہ کام ہورہا تھا اور آئی ۔ٹی کو فروغ دیا جارہا تھا جمہوری حکومت نے پہلا کام یہ کیا کہ اس پراجیکٹ کو بند کردیا اور اس کے نام سے جو فنڈ ملتا ہے وہ اب ان کے جیب میں جاتا ہے ۔
گلگت بلتستان کے جوان جو اس سخت سردی میں بھی برف کے اوپر بیٹھ کر سرحد کی عفاظت کرتے ہے۔اور یہ بے ضمیر ، بے حس اور کرپٹ بیوروکریٹ اور نام نہاد نمائندوں کوتمام سہولیات کے باوجود اپنے آفس اور گھرمیں سردی لگتی ہے۔ اس سے کئی گناہ سردی امریکہ،یورپ اور روس میں ہوتا ہے کیا وہاں بھی کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ بیوروکریٹ یا عوامی نمائندے ترقیاتی بجٹ اپنے عیش وعشرت پہ خرچ کرے اور اپنے آفس بند کردے اور صرف سردی کی وجہ سے کسی دوسرے شہر کا رخ کریں ۔ہرگز نہیں ۔شائد یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں قوم پرستی پروان چڑھ رہا ہے۔اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب قوم پرستی پورے گلگت بلتستان کو اپنے لپیٹ میں لے گا۔