شیخ القرآن مولانا شہزادہ خانؒ کا سانحہ ارتحال
بلاشبہ ضلع دیامر ایک عظیم استاد، ماہر قرآن، تحریکی زندگیوں کا روح رواں، مصلح، محقق اور مفسر و مبلغ عالم دین سے محروم ہوا۔شیخ القرآن مولانا شہزادہ خان کا سانحہ ارتحال نہ صرف دیامر کے لیے المیہ ہے بلکہ گلگت بلتستان، ملک بھر اور افغانستان میں موجود شیخ کے ہزاروں تلامذہ اور تربیت یافتہ لوگوں کے لیے المیہ عظیم ہے۔شہزادہ خان صاحب ؒ نے زندگی بھر پیغام خدا کو عام کیا۔ان کی پوری زندگی تحریک سے تعبیر تھی۔زندگی کے عمومی و خصوصی مقاصد سے انہیں گہری دلچسپی تھی۔ان کی زندگی کے بے شمار گوشے تھے۔ ہر گوشے میں تفصیل ہے ۔ گزشتہ سال مولانا مرحوم سے گلگت میں ایک طویل انٹرویو کیا۔ اس کی روشنی میں چند بے ربط باتیں آپ سے شیئر کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔وہ ایک بہترین استاد تھے۔ اپنے شباب کی باون بہاریں اپنی ہی قائم کردہ دارالعلوم تعلیم القرآن تانگیر میں کلام اللہ کا درس دیا۔ایک دنیا نے تفسیر القرآن میں مولانا سے فیض حاصل کیا۔اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن کریم کے ساتھ خصوصی شغف عطاء فرمایا تھا۔ وہ قرآن کی حواشی بھی لکھ رہے تھے شاید مکمل کی ہو۔’’مواہب الرحمان فی اصول القرآن‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے۔یہ کتاب عربی زبان میں ہے ۔اس میں اصول قرآن ذکر کیے ہیں جو انہوں نے اپنے استاد حضرت مولانا محمد طاہر صاحب پنچ پیری سے برسوں پہلے زمانہ طالب علمی میں پڑھے تھے۔سادہ الفاظ میں سلیس و روانی کے ساتھ مطالب بیان کیے ہیں۔ایک اور کتاب ’’سورہ فاتحہ کی تفسیر‘‘ کے نام سے مرتب کی ہے۔ دراصل یہ کتاب’’ دُرُالمعانی فی سبع المثانی‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔دوران انٹرویو حضرت نے وعدہ فرمایا تھا کہ تانگیر پہنچتے ہیں دونوں کتابیں ارسال کریں گے جو انہوں نے مجھے ارسال کی۔دونوں کتابیں میرے پاس محفوظ ہیں۔مولانا بحیثیت معلم ، ایک کامل استاد تھے۔ گلگت بلتستان کے تمام جید علماء کسی نہ کسی واسطے ان کے شاگرد تھے۔انہوں نے عمرعزیز کی چھہتربہاریں دیکھی، ان کا اکثر حصہ تعلیم و تعلم، درس و تدریس، وعظ و نصیحت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے آواز بلند کرنے میں گزاری۔ان جیسا مرد درویش اورمجاہد ضلع دیامر نے نہ پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ آئندہ امکان ہے۔ شیخ القرآن کے سانحہ ارتحال سے کچھ عرصہ پہلے دیامر کے ایک اور جید عالم دین مولانا مترجان ؒ بھی راہ حق کے راہی ہوئے۔ ان دونوں کی سادہ زندگی ہم جیسے کوتاہ علم و عمل کے لئے مشعل راہ ہے۔
شیخ القرآن ؒ کے نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ تانگیر رِم جیسے دیہات میں اتنے لوگوں کا جمع ہونا بعید عن عقل تھا۔ہر ایک کے زبان پر یہ جملہ تھا کہ تانگیر کی وادی نے اس سے پہلے اتنا بڑا مجمع کبھی نہیں دیکھا۔ لوگ پیدل اور گاڑیوں میں کچھا کھچ جنازہ گاہ کی طرف آرہے تھے۔ہر آنکھ سے آنسو رواں تھے۔ ہمارے قاضی نثاراحمد صاحب نے اپنے تمام سفری پروگرام ملتوی کرکے ،ایک بڑے قافلے کے ساتھ تانگیر پہنچے تھے۔جنازہ کے مجمع سے آخری خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو بے اختیار رونے لگے۔ان کے آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں ہوا مگر ضبط کیا۔ سچ یہ ہے کہ دیامر میں قاضی نثاراحمد کا مولانا شہزادہ خان اور مولانا متر جان رحمہما اللہ جیسے کوئی معاون و مدد گار نہیں ہے۔شاید ان دونوں شخصیات کے انتقال سے سب سے زیادہ متاثر قاضی نثار احمد ہونگے۔
مولانا کے جنازہ میں ایک عالم نے کھڑے ہوکر روتے ہوئے کہا کہ ہم سب یتیم ہوگئے۔ دو ہی عالم تھے جو مراجعِ کل تھے مگر دونوں کے یکے دیگرے انتقال سے علمی خزانے بند ہوئے۔ ستاروں میں شمس و قمر کے مانند تھے۔ ان کے اچانک اٹھنے سے وادی تانگیر سوگوار ہوئی، تحریک زندگی کے سینکڑوں ابواب از خود مغلق ہوگئے۔پھر کیا تھا ہزاروں لوگ زار و قطار رونے لگے۔ نماز جنازہ معمر عالم دین مولانا گل شہزادہ نے پڑھائی۔ میں عین امام کے پیچھے کھڑا تھا ۔ یہ بزرگ عالم دین رونے لگا۔ جنازہ کے مجمع سے کئی نامی گرامی علماء کرام نے خطاب کیا۔ جن میں مولانا قاضی عنایت اللہ، چیئر مین دیامر گرینڈ جرگہ، مولانا عبدالقیوم، مولانا عبدالغیاث توحیدی، مولانا ایاز ، مولانا عبدالمحیط، مولانا امان اللہ ،مولانا وصیل خان،مولانا عبدالحلیم تھے۔ ہر ایک نے مولانا مرحوم کے گن گائے اور اپنے دلی جذبات بلاکم وکاست بیان کیے۔ ایک نکتہ سب کا یکساں تھا کہ ’’ مولانا مرحوم سب کے سرپرست، راہ نما اور معاون و مددگار تھے‘‘۔شاید دیامر میں واحد عالم دین تھے جس کی ایک آواز پر تمام علما ء اور عوام یک زبان کھڑے ہوجاتے اور بڑی سی بڑی مشکل سہنے کے لیے تیار ہوجاتے۔ برسوں پہلے مولانا شہزادہ خان اور مولانا مترجان نے چلاس شہر میں ’’تحکیم القرآن‘‘ کے عنوان سے جلسہ عام سے خطاب کیا تو اس وقت کے ایس پی امیر حمزہ نے دونوں کو گرفتار کیا اور وہ ظلم کیا کہ دیامر کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ دونوں عالموں کی داڑھیاں نوچی اور حد درجہ تشد د کیا۔ عوام نے پولیس سے تصادم کرکے دونوں علماء کو باعزت رہائی دلائی۔وہ زندگی بھر ظلم سہتے رہے مگر صدائے حق بلندکرنے میں کبھی کمزوری نہیں دکھائی۔ یہ ان کا ہی طرہِ امتیاز تھا۔ہرایک کے حصے میں یہ سعادتیں نہیں آتیں۔
مولانا شہزادہ خان ؒ نے چھہترسال پہلے وادی تانگیر میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد کانام شاہ سلطان تھا جو 1800ء کے آواخر میں کولی کوہستان سے تانگیر رِ م میں آکر آبادہوئے تھے۔مولانا ؒ نے ابتدائی تعلیم تانگیر و کوہستان کے مختلف دینی مدارس میں حاصل کی۔مولوی عبدالمتین،مولانا جمع دین، مولانا مستہ خان، مولوی عبدالقادر سے ابتدائی صرف و نحو اور فارسی و عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اکوڑہ خٹک میں مدرسہ جامعہ اسلامیہ کے مولانا فہم گل اور عبدالخالق سے ہدایہ اول، اصول الشاشی ، نورالانوار اور منطق و فلسفہ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔مردان کے مدرسہ خیرالمدارس میں علم المعانی کی معروف کتب، تلخیص، مختصرالمعانی اور مطول وغیرہ مولانا عبدالرحمان سے پڑھی۔ موقوف علیہ(درجہ سابعہ) جامعہ اشرفیہ لاہور سے پڑھا جہاں کبار علماء کرام سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ مولانا رسول خان ؒ سے ہدایہ آخر، تفسیر جلالین اور تفسیر بیضاوی پڑھی۔ مولانا عبدالرحمان سے ہدایہ رابع، مفتی جمیل صاحب ؒ سے مشکوٰۃ آخر اور مولانا ادریس کاندھلوی صاحبؒ سے مشکوٰۃ اول پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔
1965ء میں مولانا شہزادہ خان صاحب نے دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمان مینوری صاحبؒ فاضل دیوبندسے بخاری شریف کا درس حاصل کیا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم دیوبند میں استاد رہ چکے تھے۔ مولانا عبدالشکور صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند سے مسلم شریف پڑھا۔جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی کے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب ؒ سے دروس قرآن کا سبق لیا اور پنج پیر کے معروف شیخ القرآن مولانا طاہر پیج پیر ی صاحب نوراللہ مرقدہ سے بارہ سال دورہ تفسیر کیا۔ اور دیگر کبارعلما ء کرام سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔
رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا شہزادہ خان ؒ نے قرآن کریم ، حدیث شریف اور فقہ اسلامی و فنون کی درس و تدریس اور تحریکی زندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ تانگیر میں واقع اپنے مدرسے میں مسلسل باون سال قرآن کریم کا درس اور دورہ تفسیرکروایا جہاں ہزاروں تشنگان علومِ قرآن نے فیض حاصل کیا۔مولانا مرحوم کی پسندیدہ عربی تفاسیر میں تفسیر روح المعانی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن جریر، ابن کثیر، تفسیر مداری تھی جو اکثر ان کے مطالعے میں رہتی اور اپنے تفسیری لیکچر اور مواعظ میں ان کے حوالے اور عبارتیں نقل کرتے۔ اردو تفاسیر میں جواہرالقرآن، بیان القرآن اور معارف القرآن(شفیع عثمانیؒ ) کے مداح تھے۔ باقی تفاسیر بھی مطالعے میں رکھتے۔ اپنی تحریر کردہ کتابیں ’’ مواہب الرحمان فی اصول القرآن‘‘ اور ’’ سورۃ الفاتحہ کی تفسیر یعنی اردو ترجمہ درالمعانی فی سبع المثانی‘‘ کی تر تیب و تحقیق میں اپنے استادمحترم مولانا طاہر پنچ پیری کے دروس القرآن اور ان کے بیان کردہ اصول القرآن کے علاوہ تفسیر اتقان، البرہان فی علوم القرآن اور قاموس القرآن سے استفادہ کیا۔ضلع دیامر اور کوہستان کے اکثر نوجوان علماء کرام مولانا کے تلامذہ میں شامل ہیں۔
مولانا کی تحریکی وجہادی زندگی ایک زندہ و تابندہ باب ہے۔ امارت اسلامی افغانستان کی جہاد میں مولانا کا بنیادی کردار ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے مولانا نے سینکڑوں مجاہد تیار کیے اور پاک فوج کے شانہ بشانہ آزادی کشمیر کے لیے لڑنے کے لیے روانہ کیا۔ ان کے خاندانوں کی اعانت کی۔ بیسوی دفعہ خود جنگی محاذوں میں گئے اور دشمن کے خلاف جہاد کیا۔گلگت بلتستان کے حرکت المجاہدین اور حرکت الجہاد اسلامی کے امیر رہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیئے تانگیر میں معسکر بنایا اور یہ معسکر بارہ سال چلایا۔ بارہ سال تک کشمیرکی آزادی کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ مجاہدین بھیجے جن میں بہتوں کو شہادت ملی۔تحریک آزادی کشمیر اور امارت اسلامی افغانستان کے لیے مولانا شہزادہ خان کی خدمات کو ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ گلگت بلتستان میں امن و امان کے لیے بھی مولانا نے مثبت اور مثالی کردار ادا کیا۔امن کے حوالے سے ان کا جرگہ سسٹم بھی کامیاب رہتا۔بلاشبہ وہ ضلع دیامر کے علماء و عمائدین جرگہ کے لیے سرپرست اور باپ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے انتقال پرملال سے جو خلا پیدا ہوا شاید کوئی پُر کرسکے۔
میرے استفسار پر مولانا شہزادہ خان نے نوجوانوں سے دو ہی نصیحتیں فرمائی۔ایک قرآن کی تعلیم و تفہیم کا لازمی اہتمام کریں۔اور اس کے سیکھنے اور عمل کرنے میں وقت لگائیں کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے ’’ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‘‘۔ دوسری بات کہ عقائد و اعمال اور اخلاق کی اصلاح کریں۔اور ان عقائد و اعمال اور اخلاق کو اپنائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔
بہر صورت مولانا مرحوم وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے جانا ہے۔ مولانا نے دو شادیاں کی تھی ان کے بطن سے دس بیٹے اور نوبیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ایک بیٹا عالم مولانا عبیدالرحمان عالم دین ہیں جو دارالعلوم پنج پیر سے فارغ التحصیل ہیں۔مولانا کا تانگیر شہر میں دارالعلوم تعلیم القرآن کے نام سے ادارہ ہے۔ اللہ اس ادارے کو مزید پھلنے پھولنے کی توفیق دے۔اور ان کے مشن کو آگے بڑھائے ۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔