Uncategorized

کابینہ کا انتخاب : واضح اصول متعین کرنے کی ضرورت

شمس پارس قریشی
شمس پارس قریشی

مرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں

لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
اگرچہ اس شعر کے خالق کا تعلق گلگت بلتستان سے نہیں لیکن یہ شعر صد فی صد گلگت بلتستان کے باشندوں پر صادق آتا ہے جن کے بارے میں ایک سابق فورس کمانڈر نے جب ببانگ دہل کہا تھاکہ یہاں کے لوگ منافقت میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تو سب کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئیں لیکن جب ایک وفاقی سیکریٹری نے اس منفی سوچ کا پردہ چاک کر تے ہوئے گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں کو نااہل قرار دیکر موجودہ نظام لپیٹ دینے کی بابت سفارش کی توحکومتی اور اپوزیشن ارکان تلملاکر اس وفاقی سیکریڑی کو علاقہ بدرکرنے کیلئے کاغذی شیروں کی طرح اخباری بیانات کا سہارا لینے لگے مگر اندرون خانہ وفاقی سیکریٹری کو یقین دہانیاں کراتے پائے گئے کہ انکی آرا کو اخباری نمائندوں نے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کا یہی المیہ رہا ہے کہانہوں نے اپنے اجتماعی مفادات پر علاقائی اور مسلکی مفادات کو ترجیح دی اور وسیع تراختیارات کے حصول کی بجائے سطحی اور نمائشی عہدوں کا سودا کیا جس کی وجہ سے ہم اپنی دفاعی اہمیت اورقدرتی و معدنی وسائل کی بہتات کے باوجودسونے کے پہاڑوں پر رہنے والے بھوکے لوگوں کے نام سے مشہور ہیں۔
اگرچہ ہم گلگت بلتستان کی متنازعہ سیاسی حیثیت کے حوالے سے ہمیشہ سے شاکی رہے ہیں اور آئینی حقوق کا رونا روتے رہے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا موجودہ سیٹ اپ یقینادیگر صوبوں کیلئے باعث رشک ہے کیونکہ اسی نظام کے طفیل گلگت بلتستان کے تمام موضع جات اور چھوٹے چھوٹے گاؤں کی سرکر دہ شخصیات کو جلد یا بدیر صوبائی وزیر بننے کا موقع مل سکتا ہے اور وہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق اس سلسلے میں اپنے تعلقات اور وسائل کا استعمال عمل میں لاتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ وزیر کا لاحقہ شامل کر نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔مہدی شاہ حکومت میں ایسے لوگوں کو وزارت کے منصب جلیلہ پر فائز کیا گیا جو اگر پاکستان کے کسی اور صوبے سے تعلق رکھتے تو مقامی یونین کونسل کے چئیرمین بننا بھی ان کیلئے دیوانے کا خواب ہوتا۔مہدی شاہ حکومت کے بعد نگران دور حکومت میں بھی اس ریت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ اولین نگران کابینہ کے اعلان کے بعد مختلف سیاسی و مذہبی پریشر گروپوں کی جانب سے تنقید کے بعد کیا گیا۔گلگت بلتستان کی نگران کا بینہ کے اعلان سے قبل تمام سیاسی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم مذہبی جماعتوں نے اپنے بندوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے دستیاب ذرائع استعمال کیا لیکن جب مک مکا ناکام ہوا اور انکے ارمانوں پر اوس پڑنے لگی توانہوں نے ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے میدان عمل اترنے کا فیصلہ کیا اور طوفان کھڑا کیا کہ وفاقی حکومت جو عمران خان اور طاہر القادری کے ایک سو چھبیس دن پر محیط دھرنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی، گلگت بلتستان کے پریشر گروپوں کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی اور نانی نے خصم کیا برا کیا اور کر کے چھوڑ دیا اور برا کیا کے مصداق پانچ رکنی کابینہ کے اعلان کے بعد مزید سات ارکان کو خزانے پر بوجھ بنا کر کچھ سیاسی و مذہبی عناصر کی محرومیوں کا ازالہ کر نے کی سعی کی ہے لیکن اس کے باوجود بعض عناصر کابینہ کا حجم مزید بڑھانے اور اپنے بندوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے پری پول رگنگ کے الزامات لگا کر اپنے نا آسودہ خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں یہ امر یقیناًباعث دلچسپی ہے کہ دیامر کی بعض سیاسی جماعتیں اپنے ضلع سے نامزد رکن کی کابینہ سے اخراج کیلئے شاہراہ ریشم پر دھرنا دئیے بیٹھی ہیں توہنزہ کے بعض حلقے کابینہ میں اپنی تحصیل کی نمائندگی نہ ہونے پر سراپا احتجاج ہیں۔
قائد اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی گلگت بلتستان کے پیپلز پارٹی کے ارکان کے شکوؤں کو زبان دیتے ہوئے وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں گلگت بلتستان کی نگران کابینہ کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آٹھارویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے صرف تین وزیر کابینہ میں شامل کر نے پر زور دیا ہے حالانکہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں اپنے ہی بنائے گئے گورننس آرڈر کی درگت بناتے ہوئے وزراء کی مختص تعدادچھ کو بڑھا کر بارہ کر دی تھی اوررہی بات ر آٹھارویں ترمیم کی تو اس کاگلگت بلتستان سے تعلق چہ معنی دارد؟ ہمارا حکمران طبقہ بھی اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئین کے ان آرٹیکلز کا گلگت بلتستان میں نفاذ چاہتا ہے جس سے انکے مفادات کی نگہبانی ہو اور جن آرٹیکلز سے گلگت بلتستان کے مقامی باشندے مستفید ہوں، تب انہیں اقوام متحدہ کی قراردادیں یاد آجاتی ہیں۔
گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات کیلئے اولا کسی نگران وزیر اعلیٰ اور کابینہ کی ضرورت ہی نہیں تھی اور گورنر کی زیر سر کردگی الیکشن کمیشن اور مقامی انتظامیہ شفاف انتخابات کیلئے بھر پور کر دار ادا کر سکتی تھی لیکن انتخابات کو متنازعہ بنانے، اپنے من پسند افراد کو نوازنے اور گلگت بلتستان کو ایک بار پھر میدان جنگ بنانے کیلئے نگران حکومت کا ڈھول ڈالا گیا ہے۔اگر نئی اسمبلی کے وجود میں آنے تک نگران سیٹ اپ کا قیام ناگزیر تھا تو گلگت بلتستان کی تین ڈویژن سے تین باصلاحیت اور غیر جانبداروزراء کا چناو عمل میں لایا جا سکتا تھا لیکن جب وفاقی حکومت نے تین کی بجائے پانچ وزراء کی نامزدگی کا فیصلہ کیا توکابینہ میں توازن اورفارمولے کی بات ہونے لگیں اور محروم رہنے والے عناصر کو سیاسی بقا کیلئے اکسیجن کی فراہمی عمل میں آئی۔
ممبر گلگت بلتستان کونسل امجد حسین ایڈوکیٹ نے ضلع استور کو کابینہ میں زیادہ نمائند گی دینے پر سراپا احتجاج بنتے ہوئے اس امر کو دیگر اضلاع کے حقوق پرڈاکہ قرار دیا حالانکہ مہدی شاہ حکومت میں ڈسٹرکٹ گلگت سے کونسل کے دو مشیرامجد ایڈوکیٹ اور عطاواللہ شہاب، ڈپٹی سپیکرجمیل احمد،دو وزراء دیدار علی اور سعدیہ دانش ،ایک مشیر آفتاب حیدر اور وزیر اعلیٰ کا معاون خصو صی محمد موسیٰ کا چناو عمل میں لایا گیا تھا اور باقی رہ جانے والے رکن رضی الدین کو بھی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چئیرمین بنا کر انکی اشک جوئی کی گئی تھی جب کہ ضلع استور کے حصے میں صرف ایک وزارات محمد نصیر خان کو ملی اور انہیں بھی وزارت تعمیرات سے بیدخل کر کے ایکسائز و ٹیکسیشن پر ٹرخاتے ہوئے ان کے اوپر وزیر اعلیٰ کے ایک نورتن سیکریٹری یوگوی کو مسلط کیا گیا جنہوں نے کبھی بھی اپنے وزیر کے احکامات کو در خور اعتنا نہیں سمجھا اور ہمیشہ وزیر اعلیٰ کو رپورٹ کرتے رہے ۔امجد ایڈوکیٹ کو تب متناسب توازن کی گردان یاد نہیں آرہی تھی کیونکہ ان کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہو رہے تھے۔تم کرو تو رقص اور ہم کریں تو مجرا، کس کو بیچتے ہو حضرت یہ دانشوری؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
مہدی شاہ حکومت میں سب سے زیادہ سوتیلا سلو ک استور کے ساتھ کیا گیا اور وزیر اعلیٰ نے اپنے پانچ سال دور حکومت میں پانچ بار بھی استور کا دورہ کر نے کی زحمت گوارا نہ کی۔استور سے تعلق رکھنے والی گورنے شمع خالد بھی استور کا دورہ کر نے سے قبل ہی راہی اجل کو لبیک کہہ گئی اور موجودہ گورنر کا شاید یہ بھی علم نہ ہو کہ استور بھی گلگت بلتستان کا ہی ضلع ہے۔ اب جب کہ ضلع استور کو کابینہ میں متناسب نمائندگی دیکر دو تین ماہ کیلئے انکے سابقہ محرومیوں کے ازالے کی جانب توجہ مرکوز کی گئی تو دیگر اضلاع کے نمائندوں کے سینے میں مروڑ اٹھنے لگا اور انہیں متوازن نمائندگی اورغیر جانبداری کے اسباق یاد آگئے۔ضلع استور سے نامزد ارکان مشتاق ایڈوکیٹ اور نعمت اللہ کی غیر جانبداری اور صلاحیت پردو رائے نہیں ہو سکتی۔مشتاق ایڈوکیٹ نے گلگت بلتستان کی آئینی جدوجہد کیلئے بھر پور کردار ادا کیا ہے اور بین المسالکی ہم آہنگی کیلئے ان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔نعمت اللہ خان استور سے ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر رہ چکے ہیں اور ضلع استور میں عوامی فلاح و بہبود کیلئے ان کی خد مات پر داد و تحسین ملی ہے۔اسی طرح ضلع دیامر سے عنایت اللہ شمالی گلگت بلتستان کے تمام سیاسی،سماجی اورادبی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور ان کی سیاسی جدوجہد کے علاوہ علمی و فکری خیالات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ضلع گلگت سے نامزد رکن ناصر ززمانی مذہبی ہم آہنگی کے علاوہ سماجی خدمات کے حوالے سے معتبر نام ہیں اور گندم سبسڈی کی تحریک میں انکے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بلتستان سے سابق سیکریٹری ثنائاللہ کی شہرت ایک دیانتدار اور باصلاحیت منتظم کی ہے۔ان نامزدارکان کی غیر جانبداری پر بھی سوالات نہیں اٹھائے جا سکتے تھے لیکن بہر حال تمام اضلاع کی متناسب نمائندگی بھی ضروری تھی۔لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اصول سب کو ازبر ہونے چاہئے اورسب ادوار میں لاگو ہونے چاہئے۔
ا گر پیپلز پارٹی اپنے دور میں ا یک اصول اور ضابطے کے تحت تمام تقرریاں عمل میں لاتی اور مستقبل کیلئے ایک فریم ورک متعین کرتی تو یقیناًیہ بکھیڑا کھرا نہیں ہوتا لیکن نو سو چوہے کھا کر حج کا قصد کر نیوالوں کے احتجاج پر حکومت نے عمل در آمد کر کے یقیناًغیر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔کیا یہ محض اتفاق تھا کہ گزشتہ انتخابات میں دانستہ طور پر خطے کے تین باصلاحیت سیاسی نمائندوں حافظ حفیظ الر حمن، عمران ندیم اور غلام محمد کو دانستہ طور پر اسمبلی سے باہر رکھا گیا تا کہ وہ گورننس آرڈر میں بہتری لاتے ہوئے گلگت بلتستان میں ایک نئے دور کے آغاز کا سبب نہ بن سکیں چنانچہ نا ہل ،جانبدار اوران پڑھ منتخب نمائندوں نے پانچ سال میں گلگت بلتستان کو آگے لے جانے کے بجائے پتھروں کے دور میں واپسی کیلئے ریورس گئیرپر لگا دیا ہے اور کرپشن،اقربا پروری کوپروان چڑھانے ہوتے ہوئے نئے نظام کو دیمک لگا دیا ہے۔گلگت بلتستان کی نگران کا بینہ کے انتخاب سے ہی اس سسٹم کی خرابیاں آن شکار ہوئی ہیں اور سنجیدہ طبقات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ان وفاقی و صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں واضح اصول متعین نہیں کریں تو مستقبل میں نہ صرف مختلف علاقوں کے مابین وسیع خلیج قائم ہوگی بلکہ فر قہ وارانہ ہم آہنگی کے پر امن ماحول کو سنگین خطرات درپیش ہونگے۔اگرچہ بعض معتبر سیاسی نمائندوں نے کابینہ سمیت اہم عہدوں کی تقسیم کیلئے غیرجانبداری،صلاحیت اور اہلیت کے اصول مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں تمام اضلاع کو نمائندگی دینے کا مطالبہ کیا ہے لہذا جگ ہنسائی سے بچنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے واضح فارمولہ پر اتفاق وقت کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں افہام و تفہیم کے ساتھ کابینہ کا انتخاب سمیت گورننس آرڈر میں موجود دیگر اسقام کو بر وقت حل کرنے کی ضرورت ہے۔مسقتبل میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاع سے کابینہ کیلئے یکساں نمائندگی اور بڑے اضلاع گلگت او ر سکردو کیلئے مشیر کی اضافی نمائندگی یقیناًاس سلسلے میں ایک بہتر طریقہ کار ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ کابینہ کے انتخاب میں مروجہ اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نا اہل اور غیر جانبدار عناصر کا روکنا ہوگا۔ گلگت بلتستان کے عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ انہیں دور اندیش قیادت کے فقدان کا سامنا رہا جس کی وجہ سے ہم کشمیروں کے برعکس اپنی متنازعہ حیثیت کو کیش کر نے میں ناکام رہے اور اپنی سٹریٹیجک اہمیت کے باوجود خطے کے وسیع تر مفاد میں اجتماعی حکمت عملی اپنانے اوراپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے خطے کی تعمیر و ترقی اور آئندہ نسلوں کیلئے پر امن اور خوشحال گلگت بلتستان کا خواب شرمندہ تعبیر کر نے میں اجتماعی خودکشی کے مر تکب ٹھہرے ہیں،جو بہر حال ایک سنگین المیہ ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button