سانپ اور سپیرے کی کہانی
آجکل ملک بھر میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، سرکاری و سماجی حلقوں اور یونیورسٹیز و کالجز میں یہی ڈیبیٹس چل رہی ہیں کہ بڑھتی ہوئی نا امنی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جائیں؟ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر تکفیری گروہوں کے حملے کے بعد حکومت نے فوج کے پریشر میں آکر کچھ اقدامات کئے، پھانسیاں شروع کیں، فوجی عدالتیں قائم کیں، کالعدم تنظیموں کو پابند کرنے کی زبانی کلامی باتیں کیں، مدارس پر چیک اینڈ بیلینس کا کام شروع کئے اور ان اقدامات کیلئے آئین پاکستان میں ترامیم بھی کیں۔ وقتی طور پر یہ باتیں عوام میں کچھ حد تک یہ سوچ تو پیدا کر گئیں کہ اب فوج کے کہنے پرہی سہی حکومت کچھ کچھ ان درندہ صفت افراد کے خلاف اقدامات کر ے گی، لیکن پچھلے ہفتے سندھ کے شہر شکار پور جامعہ مسجد میں خود کش حملہ، پشاور میں دھماکہ ، اسکولوں کو ملنے والی دھمکیوں، اور نہ ختم ہونیوالے ٹارگٹ کلنگ وغیرہ نے ان اقدامات کی قلعی کھول دیں۔ فوجی بڑوں اور حکومتی ودیگر سیاسی نام نہاد رہنماوں نے جس طرح پشاور میں خود جا جا کر دورے کیے اور بیانات دیئے،شکارپور کے شہدا اور زخمیوں سے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا، سوائے رسمی بیانات کے۔فوج کے ماتحت سکیورٹی انتظامات اور خاص طور پر ایجنسیوں کے کارتوت بھی ہوائی ثابت ہوگئے اور ایک بار پھر ملک بھر میں عدم تحفظ کی فضا قائم ہوگئی۔
در اصل ان سانحات کی تدارک اور انتہاپسند گروہوں کو لگا م دینا ایک دم سے ممکن نہیں، کیونکہ انکی پیدائش بھی ایک دم سے نہیں ہوئی تھی، بلکہ باقاعدہ ملکی ایجنسیوں اور فوجی آمریت کے دور میں فوج ہی کی زیر نگرانی انکی باقاعدہ پرورش اورٹریننگ کرکے منظم کیا گیا تھا۔ اس وقت سویت یونین کے خلاف بہادر امریکہ اور اسکی ایجنسیاں پاکستانی حکومت و ایجنسیوں کو اسی لئے تو پال پوس رہے تھے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس خطے میں اپنی من مانی قائم کرسکے۔ اور ہماری نا عاقبت اندیش حکمران جو کہ اس وقت بھی فوج کے زیر تسلط تھی، بہ آسانی اس امریکی خواہش کو پوری کرگئے اور یہ بھی نہیں سوچا کہ جن سانپوں کو پال رہے ہیں وہی ایک دن خود ہمیں بھی ڈس سکتے ہیں۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ یہی امریکہ بہادر اور اسکی ایجنسیاں ہی ان سانپوں کو بہت کم عرصے میں اپنی ہی خواہشات کیلئے بظاہر مارنے پر تل گئے، جس کیلئے پھر سے ہمارے ملک پر ایک فوجی ڈکٹیٹر کو مسلط کیا گیا، انکو پتہ تھا کہ ان کی ڈالروں کی جادو سے پاکستانی سیاست دانوں اور آمر ڈکٹیٹروں کو نچانا سب سے آسان کام ہے لہٰذا ان سانپوں کو بھی اسی کے ذریعے مارنے کا پلان کیا جس کیلئے وہ پہلے سے ہی تیار تھے۔لیکن اب فطری طور پرجسطرح سانپ کو پال پوس کر بڑا کرنے اور اس سے اپنا مقصد نکالنے کے بعد اسے مارنے کی کوشش کرے تو وہ بھی اپنی زندگی بچانےکیلئے کسی بھی چیز کو ڈسے بغیر نہیں چھوڑتا ، اسی طرح ہم بھی ڈسے جا رہے ہیں۔ یہاں تو المیہ یہ ہے کہ اس سانپ کو مارنے والا اسے بالکل مارنے کیلئے بھی تیار نہیں، اور نہ اس سانپ کو اتنی آزادی ملی ہوئی ہے کہ اپنی مرضی سے ایسا کاٹے کہ پالنے والا آخری سانسیں لیں۔ بیرونی طاقتیں جب بھی اشارہ کرے پاکستانی ایجنسیاں اور سکیورٹی ادارے کہیں ایک دو بار اس پر ہلکا سا ضرب لگا دیتے ہیں، سانپ جل بھن کر اسے ڈس لیتا ہے، اسی طرح اس زہریلی تکفیری سانپ کیساتھ بھی کیا جاتا رہا کہ جب اسے اشارہ ملتا ہے یہ اٹھ کر ایک دو شہروں میں دھماکے اور حملے کر کے قتل وخون کی ہولی کھول لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس سانپ کی پرورش کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کی نادانستگی اور بیوقوفیوں کو دیکھتے ہوئے ڈالرزو ریال کی جھنکار دکھا کرہمارے ذریعے ہی دوسرے چھوٹے موٹے سانپوں کو بھی پالا پوسا گیا تاکہ ان سے بڑے سانپ کا کام ختم ہونے کی صورت میں حسب ضرورت کام لے سکیں ۔ بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کی پسپائی دراصل بڑے سانپ کی فتح ہی ہے،یا امریکہ اس سانپ کو صرف کچھ حد تک زخم دیکر اسے اپنےاحکام کے تابع کرنا چاہتا تھا کیونکہ یہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کر رہا تھا، اسلئے اب ہماری حکومت کو ہی اس سانپ کیساتھ میدان میں چھوڑا ہوا ہے اور خود تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اب اس بڑے سانپ کیساتھ دوسرے چھوٹے سانپ بھی ایک طرح سے اپنا اپنا کام دکھا رہے ہیں اور ہم بری طرح انکے حملوں سے لہولہان ہو رہے ہیں۔ اس سلسلہ نے تب ہی رکنا ہے جب یا تو سانپ اپنا آخری حملہ کرے کہ اسے تربیت دینے والا ہی فنا ہو جائے یا یہ کہ ہم دوسروں کی سننا چھوڑ کر خود ایسی ترکیب سے مارے کہ سانپ مر جائے۔ گراونڈ ریالیٹی یہ بتاتی ہے کہ امریکہ بہادر کے اشارے دونوں طرف ہیں کہ کب اس سانپ نے ہلکا سا ڈسنا ہے اور کب سب کو پالنے پوسنے والے نے اس پر چوٹ مارنی ہے۔اللہ ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ یہ زہریلا سانپ اتنا طاقتور ہو جائے اور اسکا زہرہمارے جسم میں اتنا بڑھ جائے کہ ہمارے پاس کوئی تریاق نہ ہو۔ اب تک تو یہ لگ رہا ہے کہ سانپ کو بیرونی اشارےمروانا ہی نہیں چاہتے، اور ہماری حکومت اور ایجنسیاں بھی اشاروں پر ہی چل رہے ہیں نتیجتا بیچارےعوام آئے روزخود کش بم حملوں ، دھماکوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
اس سانپ اور سپیرے کی کھیل کے تحت مختلف استعماری طاقتیں وقتا فوقتا مختلف ممالک میں اپنی اجارہ داری کو دوام دیتے رہے ہیں۔ حالیہ عشروں میں ہی دنیا کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ خود بہادر امریکہ نے شاہ ایران، صدام حسین، لیبیا کے معمر قذافی ، وغیرہ کو کیسے نچایا۔ ان سے پہلے اپنی مرضی و منشا کے کام لیتے رہے اور جب اپنا مقصد پورا ہوگیا تو انکو دنیا کیلئے عبرت بنا دیئے گئے۔ یہ حکایت ان پپٹ حکمرانوں کو ہمیشہ سے اسی وقت سمجھ آتی ہے کہ جب انکو استعمال کرچکا ہوتا ہے۔ لیکن نہ جانے کب ہمارے ملک کے سیاست بازوں اورایجنسیوں کے کرتا دھرتاوں کو سمجھ آئے کہ بار بار ان کے ساتھ ایسا کیا جاتا رہا اور ہر بار یہ بڑی آسانی سے ان کے دام میں پھنس جاتے رہے۔ اب تو یہ صورت حال ہے کہ زہریلی سانپوں کی پرورش کیلئے ماحول بنانے کیلئے جن افراد، مساجد ، مدرسوں اور تنظیموں کو استعمال کیا گیا تھا، وہ بھی ان سانپوں کی حمایت میں اتنے آگے نکل گئے کہ باہر والے اور ہماری حکومت چاہیں تو بھی ان کو مروانے پر تیار نہیں۔ ظاہرا تو بعض سیاسی و مذہبی گروہ ان سانپوں سے بالواسطہ تعلق نہیں رکھتے لیکن انکی تمام تر ہمدردیاں انہیں کیساتھ ہیں، جسکی وجہ سے انکے زیر فکر عوامی طبقے بھی تیار نظر نہیں آتے کہ ان کے خلاف حکومت کوئی فیصلہ کن کام کرے۔ اب ضرورت اس اصل المیہ سے عوام کو روشناس کرانے اوراس سانپ اور سپیرے کی کہانی کو سمجھانے کی ہے۔