نگران حکومت ، نوکر شاہی اور ایکشن کمیٹی
عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے ایک اور عوامی مسئلہ کے حوالے سے تحریک کا آغاز اور نوکر شاہی کی طرف سے تحریک کو ثبوتاز کرنے کے اقدامات گلگت بلتستان میں اشتعال کا باعث بن رہا ہے، ایکشن کمیٹی کی طرف سے 13 فروری بروز جمعہ کو شٹر ڈاون ہڑتال کی کال کے جواب میں نگران وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی طرف سے مقامی اخبارات میں جاری بیان نے ماحول کو مذید گرما دیا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی جو کہ گندم ایشو کے حل کیلئے گزشتہ سال وجود میں لائی گئی تھی اور اس کمیٹی نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کیلئے گلگت بلتستان کے عوام کو ایک پلیٹ فارم جمع کر کے تحریک چلائی اور بالآخر انہیں کامیابی حاصل ہوئی یوں یہ کمیٹی عوام میں مقبول ہو گئی ، گندم ایشو کے حل کے بعد بھی ایکشن کمیٹی نے مختلف عوامی ایشوز پر آواز اٹھائی رواں سال کے آغاز سے ہی ایکشن کمیٹی نے گلگت بلتستان میں جاری بجلی کے بحران کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ، ابتدائی دور میں محکمہ برقیات کے زمہ داران سے ملاقاتیں کی گئی اور اس مسئلے کے مثبت حل کیلئے کوششیں کی گئیں ، تاہم جب انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تو ایکشن کمیٹی نے علامتی طور پر ایک ریلی اور جلسہ بھی کیا اسکے باوجو د پیش رفت نہ ہو سکی ، تنگ آکر ایکشن کمیٹی نے گلگت شہر میں مکمل شٹر ڈاون کا اعلان کر دیا ۔ اس اعلان کے فورابعد حسب روایت نوکر شاہی سر گرم ہوئی ، ایکشن کمیٹی کی طویل ہڑتالوں سے خائف بیوروکریسی ایک بار پھر حالات کو مس ہینڈل کر رہی ہے ،موجودہ نگران حکومت کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور ایسے بیانات دلوائے جا رہے ہیں جنکی وجہ سے ماحول کو مذید بگھاڑ کی طرف لے جایا جا رہا ہے ۔ نگران حکومت کے حوالے سے عوام کو پہلے سے کئی تحفظات ہیں ایک ایسے موقعے پر عوامی ایشوز کے حل کیلئے چلائی جانے والی تحریک کا راستہ روکنے جیسے بیانات یا اقدامات عوام کے دلوں میں نگران حکومت کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت میں سپیشل لائنوں کی کٹوتی اور عوام کو ریلیف دینے کی بات کی ہے اور واقعاتاًبجلی کا بحران عروج پر ہے اور عوام اس مسئلے کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں ، ایسے میں اس تحریک میں عوام فی الحال شامل نہیں ہوئی لیکن موجودہ ماحول کو دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ ایک بار پھر عوام اس مسئلے کے حل کیلئے سڑکوں پر نکل آئے گی ۔ اگر حکومت کی طرف سے اس تحریک کو روکنے کیلئے بیان نہیں آتا تو ممکن تھا کہ ایکشن کمیٹی اپنی اہمیت کھو دیتی لیکن وزیر اعلیٰ کی طرف سے جاری بیان نے تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے ۔اس سلسلے میں دوکانداروں سے ملاقاتوں سے معلوم ہوا ہیکہ جمعے کے رو زکامیاب شٹر ڈاون ہڑتال ہوگی ۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف یہ ہے کہ گلگت شہرمیں 55 سپیشل ٹرانسفارمر لگائے گئے تھے جن میں سے 20 ٹرانسفارمرز کو ہٹایا گیا ہے تاہم 35 ٹرانسفارمر اب بھی لگے ہوئے ہیں مساجد اور ہسپتالوں کے علاوہ دیگر تمام سپیشل لائنیں ہٹادی جائیں تاکہ غریب عوام کو ریلیف حاصل ہو سکے۔
(دو روز قبل ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں اسی بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے ایک نومولود بچے کی جان چلی گئی تھی اگر زمہ داران ایکشن کمیٹی کے اس مطالبے پر عمل کریں تو مستقبل میں ایسے اموات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے ۔ )
موجوداہ نگران وزیر اعلیٰ شیر جہان میر کو جہاں تک میں جانتا ہوں وہ ایک دور اندیش شخصیت کے مالک ہیں لیکن مقامی اخبارات میں جاری بیان کئی طرح سے انکی شخصیت سے میل نہیں کھاتا ۔ وہ چاہتے تو اس مسئلے کو نرمی اور پیار محبت سے بھی حل کر سکتے تھے ، شاید انہیں گمراہ کیا جا رہا ہے تاکہ ایسے اقدامات کے ذریعے انکی حکومت کو کمزور کیا جا سکے ، سابقہ ادوار کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گلگت بلتستان میں ماضی میں طاقت کے استعمال سے کسی مسئلے کا حل نہیں نکلا ہاں البتہ مذاکرات اور دانش مندی کے ذریعے مسائل کا حل ممکن ہے۔
آخری اطلاعات تک جمعے کے روز شٹر ڈاون ہڑتال کی کال ایکشن کمیٹی نے واپس نہیں لی ہے ، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اخباری بیانات اس شٹر ڈاون پرکس طرح کے اثرات مرتب کر ینگے ۔ اگر ہڑتال کامیاب ہوتی ہے تو یہ نوکر شاہی کی غلط حکمت عملی کا واضح ثبوت ہوگا اور عوامی ایکشن کی بڑی کامیابی تصور کی جائیگی۔