جذبہ تعمیر
سکول تعمیر کر نے کے لئے زمین خریدی گئی تھی۔ٹینڈر ہوا ٹھیکدار نے ٹھیکہ لیا۔ٹھیکدار کا منشی گاؤں کے بوڑھے مستری کے پاس آیا۔وہ کافی بڑا کام ہے بابا۔۔۔۔سرکاری کام ہے اس میں آپ کوکافی آسانیاں ہونگی۔۔۔آرام کروگے وقفے وقفے میں آرام کروگے آہستہ آہستہ کام کروگے۔اپنے جونیر مستریوں کی نگرانی کروگے۔اس کے مقابلے میں کسی پرائیویٹ کام میں مشقت بہت ہے۔مالک تعمیر سرپر کھڑا رہتا ہے۔بال کی کھال نکالتا ہے۔معیار کا رونا روتا ہے۔پسند ناپسند کی جھنجھٹ ہوتی ہے۔اُس کو پل پل مالک تعمیر کی تسکین کا خیا ل رکھنا ہوتا ہے۔تم خود سرکاری کام کرچکے ہو۔منشی کی تقریر ختم ہوئی۔بوڑھا مستری تربیلہ ڈیم میں گوروں کے ساتھ کام کرچکا تھا۔ہمیشہ ان کا گن گاتا تھا۔ان کی پختہ کاری،ان کی سنجیدگی،ان کی سوچ،امانت داری ،مستعدی،فرض شناسی،عرضکہ یہی بوڑھے مستری کے ایڈیل تھے۔بوڑھے مستری کی ایمانداری اور محنت مشہور تھی۔اس لئے وہ کبھی بے کار،بے روز گار نہ ہوتا،لوگ اس کو محنت سماجت کرکے اپنے کاموں پہ لے جاتے۔کتنے لوگ تھے جو سالوں تک اس کا انتظار کرتے۔۔۔۔اس کے کام میں برکت ہوتی ہے۔۔ ۔۔اس کی تعمیر میں شان وشوکت ہوتی ہے۔۔۔اس کے ہاتھ بولتے ہیں۔اس کے کام میں رکاوٹ نہیں ہوتا۔وہ وقت کا پابند ہے۔وہ سچ بولتا ہے وہ تیری مفاد کا سوچتا ہے۔وہ ایسا کام کرتا ہے۔گویا اپنا کام کررہا ہے۔۔۔۔منشی کی باتیں بوڑھے مستری کو بہت بُری لگیں۔اسے گورے رہ رہ کے یاد آنے لگے اس کو اس کا ملک کا مستقبل یاد آیا۔اس کو احساس ہوا۔۔۔۔قوم کا پیسہ قوم کی امانت ہے۔اگر کسی فرد واحد کے کام میں ایک پیسہ ضائع ہوجائے تو یہ فرد واحد کا حق ہوگا۔۔۔بوڑھا مستری لرزہ برآندام ہوکر مستری جلال میں آتا ہے۔منشی کو مخاطب کرکے کہتا ہے ۔’’منشی میں ضرور آونگا۔یہ میری قوم کے مستقبل کا مسئلہ ہے ۔میں اس کی بنیادیں اتنی مضبوط کرونگا کہ تاقیامت اس کی بنیادیں ہلیں گی نہیں۔‘‘مستری کے تن بدن میں جذبہ تعمیر ایک شعلہ بن جاتا ہے منشی خوشی خوشی جاتا ہے۔۔۔۔اس رات مستری کروٹیں لیتا رہتا ہے اس کو نیند آتی ۔صبح سویرے کام پہ جاتا ہے۔گاؤں کے بچے بوڑھے جمع ہیں۔ٹھیکدار آیا ہوا ہے۔منشی اور مزدور موجود ہیں محکمہ تعلیم کا ایک افیسر بھی موجود ہے۔محکمہ تعلیم کے افیسر کے حکم سے کدال بوڑھے مستری کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے اور افتتاح کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ٹھیکدار کہتا ہے کہ کدال مارکر افتتاح کرو۔۔۔مگر اللہ کا نام لے کر ،نہیں کہتا ہے۔بوڑھا مستری محکمہ تعلیم کے افیسر کی طرف دیکھتا ہے۔کہتا ہے کہ’’صاحب آپ اللہ کا نام لے کر افتتاح کریں افیسر کی آنکھوں میں چمک آتی ہے۔۔۔۔کہتا ہے بابا اللہ کا نام لے کر کدال مارو یہ سکول کی نہیں قوم کی بنیاد ہے اور آپ کا بابرکت ہاتھ ہے۔‘‘مستری اللہ کا نام لیتا ہے۔کدال مارتا ہے۔مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔بوڑھے مستری اپنے حصے کا رس گھول لیتا ہے۔ایک بچے کے منہ میں رکھتا ہے۔۔۔ادھر ادھر کدال مارے جارہے ہیں افیسر ٹھیکدار اور گاؤں کے بوڑھے بچے رخصت ہوچکے ہیں۔جوان مزدور دوچار کدال مارکرکھڑے ہوکے کمر سیدھی کرتے ہیں سستاتے ہیں۔مستری شاباش شاباش بولتا ہے۔ایک جوان مزدور کمر پکڑے کھڑا ہوتا ہے۔مستری کے شاباش پہ جواب دیتا ہے وہ بابا !یہ سرکاری کا م ہے چلے گا۔۔۔یہ جملہ نہیں تیر ہے ۔جو مستری کے سینے کے آرپار ہوتا ہے۔ٹھیکدار کے کاغذات میں بنیادوں کی کھودائی 5فٹ گہری کھودائی ہے۔جب تین فٹ گہری ہوتی ہیں تو منشی بنیاد ڈالنے کو کہتا ہے۔مستری کے استفسار پر منشی کہتا ہے۔۔۔بابا سرکاری کام ہے۔۔۔بنیادیں ڈالی جارہی ہیں۔ٹھیکدار کے کاغذات پر سمنٹ بجری کی نسبت 1\\4ہے مگر منشی 1\\9پہ بضد ہے۔مستری ایک ہاتھ میں پکڑے اور دوسرے ہاتھ کی انگلی دانتوں پہ رکھے کھڑا ہے۔۔۔بڑبڑاتا ہے۔۔۔۔’’اس ملک کی بنیادیں مضبوط کرنی ہیں۔بنیادی 1\\4سے مضبوط ہو نگی1\\9سے نہیں منشی کہتا ہے ۔بابا تجھے ان باتوں سے کیا کام ۔۔سرکاری کام ہے1\\9چلتا ہے ۔ٹھیکدار بے چارہ کمیشن کامارا ہوا ہوتا ہے1\\4سے اس کوبچتا کیا ہے؟مستری پریشان کھڑا ہے۔مزدور ریڑھے میں بجری لاتے ہیں۔4پھیرے تک مستری جاگتی آنکھوں دیکھ رہا ہے۔جب ہاتھوں ریڑھا لایا جاتا ہے تو مستری آنکھیں بند کرتا ہے اور مڑ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔راہ چلتے اس کا جذبہ تعمیر حسرت تعمیر‘‘بن جاتا ہے اور پھر آنسو۔۔۔۔۔آنسو راہ ٹپکتے ہیں اور خاک پاک پہ جذب ہوجاتے ہیں۔