نئے گورنر کا تنازعہ
غیر مقامی گورنر کی تعیناتی کے حوالے گلگت بلتستان کے عوام پورے پاکستان میں سراپا احتجاج ہیں لیکن لگتا کچھ یوں ہے کہ حاکم وقت کے نزدیک اسطرح کے عوامی غم اور غصے کی کوئی اہمیت نہیں ۔ مجھے سوشل میڈیا کی وساطت سے اس اہم ایشو پر ایک پاکستانی صحافی کا کالم پڑھنے کا موقع ملالہذا سب پہلے کالم نویس کا شکریہ ادا کرناچا ہوں گا جنہوں سرزمین بے آئین کے عوام کی تکلیف کو سمجھتے ہوئے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکال کر یہاں کے عوام کی پُکار کو ایوان بالا تک پونچانے کی کوشش کی ۔لیکن انکا کالم پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ دوسرے پاکستانی لکھاریوں کی طرح موصوف بھی ہماری تاریخ سے نابلد ہے لہذا انہوں نے بھی کچھ سُنی سنائی باتوں کو بھی اپنے کالم کا حصہ بنا کر یہاں کے عوام کی زخم پر مرہم رکھنے کے بجائے تکلیف پونچایا ۔ مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ جی این بھٹ صاحب کو کبھی گلگت بلتستان آنے کا اتفاق نہیں ہوا اگر ایسا ہوتا تو یقیناًکوئی مقامی صحافی ان کے ساتھ فوٹو سیشن کرکے سوشل میڈیا پر ضرور شئیرکرتے کیونکہ ہمارے ہاں صحافی برداران بھلے ہی قوم کیلئے کچھ نہیں کرسکتے لیکن غیر مقامی لوگوں کے ساتھ فوٹو سیشن کا بڑا شوق رکھتے ہیں اور اگر صحافی خاتون اور خوش شکل ہو تواُنکے ساتھ فوٹو سیشن کا مزہ تو قاسم بٹ ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔مقصد کہنے کا یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ پر لکھنے والے صحافی بھی اکثر وفاق ذدہ اور نامکمل معلومات پر بغیر تحقیق کے لکھتے ہیں جو کہ ہمارے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے بھٹ صاحب اپنے مضمون کے شروعات میں لکھتے ہیں کہ یہاں کے عوام نے اُنیس سو اڑتالیس میں ڈوگرہ نظام کے ساتھ بغاوت کرکے غلامی کا طوق اُتار پھنکا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔سوال یہ ہے اگر الحاق کیا تو کیا وجہ تھی کہ گلگت بلتستان کو آج تک مکمل طور پر پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا؟
خطے کا ایسا کونسا سیاسی لیڈر تھا جنہوں نے عوام کی مرضی سے الحاق کے دستاویز پر دستخط کئے؟ کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں بس زبانی کلامی الحاق کا ڈرامہ آج گلگت بلتستان کیلئے ایک بڑا مسلہ بنا ہوا ہے ا گر الحاق کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آج بھی اس خطے پر ایک غیرم منتخب وفاقی وزیر مسلط ہے؟ جب اب گورنر بھی بن چُکے ہیں؟۔ دوسری بات جیسے وہ خود لکھتے ہیںیہاں کے عوام نے ڈگروں کو بھگایا یعنی عوام نے ایک نئے ریاست بنیاد رکھی جو بعد میں پاکستان میں شامل کر دیا عجیب منطق ہے آذاد ریاست اور پھر الحاق بھی لیکن آج بھی آئین پاکستان میں دائرے میں شامل نہیں۔موصوف مزید لکھتے ہیں کہ ریاست جموں کشمیر کے سپریم ہیڈ چودھری غلام عباس نے معاہدہ کراچی کے ذریعے ریاست گلگت بلتستان کا انتظام اور انصرام پاکستان کے سپرد کیا کیونکہ اُس وقت آذاد کشمیر حکومت اُس پوزیشن میں نہیں تھے کہ ریاست کا نظام سنبھال سکیں، جناب سے سوال یہ ہے کہ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں شامل ہوگیا تو دوسری طرف یہ بھی کہنا ہے کہ چودھری نے اس خطے کو پاکستان کے سپر دکیا، کس بات کو سچ اور درست مان لیا جائے اور یہاں پر بھی یہ سوال اُٹھتا ہے کہ سات ہزار مربع میل والے خطے کے لیڈر کو اٹھائیس ہزار مربع میل سے کتنے ہزار لوگوں نے ووٹ دیکر یہ اختیار دیا تھا کہ وہ عوامی کی مرضی کے بغیر خود کو ریاست کا حکمران سمجھ کر ہماری مستقبل کا سودا کریں یہ معاہدہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ایک فریب تھا جسے ہمارے ہاں آج بھی یوم سیاہ کے طورپر مناتے ہیں۔یہاں ایک بات واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان اگر جموں کشمیر کا حصہ رہے ہیں تو یہ بھی تاریخ کے کتابوں میں موجود ہے کہ اٹھارویں صدی میں بلتستان اورگلگت کے حکمرانوں نے جموں کشمیر پر حکمرانی کی تھی مگر ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ واقعی میں یہ خطہ جموں کشمیر کا حصہرہے ہیں لیکن انقلاب گلگت کے بعد جس طرح متحدہ ہندوستان کے تقسیم کیہونے نئے ملکوں نے جنم لیا بلکل یہی صورت حال گلگت بلتستان کا بھی ہے۔ مگر بدقسمی ہے کہ یہاں کے عوام آج تک اپنے ہی کوتاہیوں کے سبب ریاست کو وہ مقام دلانے میں ناکام رہے جس کے بھی کئی وجوہات ہیں لیکن یہاں ہم موضوع پر ہی بات کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو بھٹ صاحب کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست ہے کہ وفاق نے اس خطے کوپولو کے میدان سے ذیادہ اہمیت نہیں دی جس کے سبب یہاں کے یوتھ میں ایک غم غصہ پایا جاتا ہے جسکا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔موصوف مزید لکھتے ہیں کہ یہاں کے عوام نے کئی بار اس علاقے کو دوبارہ آذاد کشمیر کے سپرد کرنے کیلئے کوشش اور احتجاج کیا لیکن کسی نے نہیں سُنا نہیں معلوم نہیں محترم کو یہ احتجاج خواب میں نظر آیا یا یہاں بھی سازش کا عنصر شامل ہے کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کسی بھی طرح آذادکشمیر کے ساتھ ضم ہونے کی بات نہ پہلے کرتے تھے نہ اب کر رہے ہیں کیونکہ اس خطے کی اپنی ایک الگ جعرافیائی حیثیت اور اہمیت ہے لہذا اگر کچھ گنتی کے لوگ اسطرح کی بات کرتے ہیں تو یہ اُن لوگوں کی خام خیالی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ یہاں کے عوام کشمیری لیڈران کو گلگت بلتستان کا اصل دشمن سمجھتے ہیں جنہوں نے معاہدہ کراچی کے ذریعے یہاں کے عوام کو آذادی کے بعد غلامی طوق پہنایا ۔لہذا گلگت بلتستان کا کشمیر کے ساتھ رشتے کی بات کرنے سے پہلے کشمیری لیڈران کاخطے کی تعمیر ترقی کے حوالے سے کردارکو دیکھنا ہوگا تاکہ سمجھ آجائے کہ گلگت بلتستان کے عوام غیر مقامیتسلط کے خلاف کیوں سراپا احتجاج ہیں ۔ غیر مقامی گورنر کی تعیناتی کے خلاف خطے کے عوام ایک بار پھر سڑکوں پرہے لیکن نواز شریف سرکار کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ عوام کیا چاہتے ہیں آج الیکشن جتانے کیلئے نواز لیگ زمینی حقائق کا مطالعہ کئے بغیر غیر مقامی لوگوں کو مسلط کئے جارہے ہیں جسکا انجام کیا ہوگا اللہ جانے ۔دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی گورنر کے مسلے لیکر عوام میں پذئرائی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں لیکن اپنے گریبان میں
جھانک کر دیکھنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ ماضی میں اگر پیرکرم علی شاہ صاحب اور مہدی شاہ حکومت کو مال غنیمت سمجھ کر نہیں لوٹتے تو آج عوام انکے پُشت پر کھڑے ہوتے لیکن بدقسمتی سے اُنہوں نے پانچ سالہ حکومت کولاٹریسمجھ کر پیسہ بنایاجسے دیکھ کر آج کچھ نون لگیوں کا بھی دل چاہ رہا ہے کہ کیونکہ نہ ہم بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں جس کیلئے غیر مقامی گورنر ،پارٹی وابسطہ شخص کا الیکشن کمشنر منتخب ہونا ،پارٹی
کیلئے نرگوشہ رکھنے والے شخص کا قائم مقام وزیر اعلیٰ کا منتخب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس بار بھی عوام کا نعرہ لگا کر خوب لوٹ مچیں گے لہذا وقت سے پہلے سول سوسائٹی کو جاگو عوام مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس تمام صورت حال کے بعد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملکی میڈیا اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرتے نظر نہیں آرہے ہیں یوں لگتا کچھ ایسا ہے کہ جس طرح وفاق گلگت بلتستان کے نظام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ اسی طرح ملکی میڈیا بھی یہاں پر بسنے والے بیس لاکھ عوام کو انسانوں میں شامل نہیں سمجھتے ۔کیونکہ یہاں کے لوگ پرُامن ہیں یہاں کے عوام آج بھی ظلم سہہ کر آہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے مراعات یافتہ نام نہاد سیاست دانوں نے لوگوں کوسیاسی شعور دینے کے بجائے ڈر اور خوف میں مبتلا کر کے رکھا ہوا ہے ایسے میں میڈیا کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔افسوس اس بات کا بھی ہے کہ آج یہاں پاکستانی پارلیمنٹ کا ایک رکن جو اس علاقے میں ووٹ دینے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے اس خطے پر مسلط ہو کر یہاں نظام درست کرنے کی بات کرتے ہیں جو کہ ریاست کے باشندوں کے ساتھ مذاق سے کم نہیں ۔ لہذا یوتھ کو چاہئے کہ اس تسلط کے خلاف پاکستانی میڈیا ہاوسز کے دفاتر کے سامنے احتجاج کریں تاکہ میڈیا والے گلگت بلتستان کے مظلوم اور محکوم عوام کی آوازبھی سُنے اور یہ بھی مطالبہ کرنا چاہئے کہ اس وقت چونکہ پنجاب میں گورنر کا عہدہ خالی ہے لہذا صرف علامتی طور پر گلگت بلتستان کے کسی شخصیت کو پنجاب کا گورنر مقرر کرکے اس بات کا ثبوت دیں کہ واقعی میں نواز شریف فیصلے انصاف کی بنیاد پر کرتے ہیں۔