کالمز

کہیں پنشن بند نہ ہوجائے!

کمیٹی چوک کے ایک بوسیدہ مکان میں استاد سلیم بخش کی اشیاء خوردو نوش کی دکان ہے۔ جہاں سارا دن رش لگا رہتا ہے، یہاں گھریلو ضروریات کے علاوہ تمام کمپنیوں کی ایزی لوڈ کی سہولت بھی موجود ہے۔ کچھ دنوں سے ان کے دکان میں لوگوں کاہجوم معمول سے کچھ زیادہ ہوگیا ہے۔ وہ اس لئے کہ انھوں نے محلہ داروں کی سہولت کے لئے بائیو میٹرک نظام کے زریعے موبائل سموں کی تصدیق اور رجسٹریشن کروانے کیلئے ایک مشین بھی نصب کیا ہے۔ استاد صاحب کی دکان میں نسوار سے لیکر بائیومیٹر ک مشین تک ہر چیز دستیاب ہے۔ اتوار کے روز استادِ محترم کے ساتھ تفصیلی گفتگو کرنے کا موقع ملا، ویسے تو آپ ایک بزرگ شخصیت ہے تب پتہ چلا کہ آپ پرانے زمانے کے میٹریکولیٹ اور فوج سے ریٹائرڈ ہے، اور محلے کے تمام ترقیاتی کاموں میں بڑچڑ کر حصہ لیتارہا ہے۔ دورانِ ملازمت وہ اپنے ساتھوں اور جونیئر ز کو سبق بھی پڑ ھاتا رہا ،اسلئے انھیں سب استاد کے کہتے ہیں۔

haider logoاستاد صاحب نے کہا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ اس جدید دور میں پیدا ہوئے ، ہم نے غربت میں زندگی گزاری ہیں، مشکل سے ایک وقت کی روٹی ملتی تھی، پہننے کے لئے ایسے نفیس کپڑے اور نہ ہی رہنے کے لئے ایسے عالیشان مکانات تھے۔ آج کے دور میں انسانی ضروریات کے تمام چیزیں میسر ہیں لیکن پھر بھی ہم شکر نہیں کرتے۔ اتفاق اور اتحاد کی کمی ہے بس! ہم اجتماعی مفاد کو چھوڑ کر ذاتی مفاد کے حصول کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔ ہم سیاست، مذہب، دوستی، رشتہ داری، محبت اور شہرت ان سبھی کو ذاتی مقاصد کے لئے ا ستعمال کرتے ہیں۔ ہمارے دل میں کسی یتیم کے لئے محبت ہے اور نہ ہی کسی نادار اور کمزور کے لئے ہمدردی۔ ظاہری نظر سے دیکھا جائے تو ہم اپنی ترقی کی رفتار کو یورپ اور چین سے موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمارے افکار، خیالات اور عمل میں وہ جدت نہیں آئی ہے جو اس جدید دور میں ہونی چاہیءں۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ آجکل چلنے کیلئے جدید قسم کی گاڑیاں موجود توہیں ، لیکن ٹریفک کے قوانین سے کوئی آشنا نہیں، جہاں نو پارکنگ کا بورڈ لگا ہوا ہے وہاں گاڑیاں سب سے زیادہ پارک کی جاتی ہیں۔ سڑک کے کنار ے پیدل چلنے والوں کے لئے جگہ نہیں، یہاں دکانداروں نے اپنے سامان سجا کر قبضہ کررکھا ہے۔ بڑے بڑے بینکوں میں ہمارے پیسے ڈپازٹ تو ہیں لیکن بنک لون نہیں لے سکتے۔ بینکوں میں اے ٹی ایم مشینں ہیں لیکن کار آمد نہیں، کبھی بجلی کا بہانہ تو کبھی مشین خراب۔ پانی کی فراوانی توہے مگر بجلی کی کی گھنٹوں لوڑ شیڈنگ سے تمام امور ٹھپ۔ سرکاری ہسپتال ویران اور ڈاکٹروں کے ذاتی کلینک میں مہنگے علاج کے باوجود ہمیشہ ہجوم۔۔ سمجھ نہیں آتا ہمارے ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں بہتر علاج کیوں نہیں کر پاتے جس کے لئے انھیں خود ہسپتال کھولنے پڑے۔ سرکاری اسکولوں میں بغیر فیس کے پڑھنے کے لئے کوئی تیار نہیں مگر نجی اسکولوں میں بچوں کو مشکل سے داخلے دلوانے اور بھاری بھرکم فیس دینے کے لئے ہر کوئی تیار ۔ ہم اپنے بچیوں کو اعلیٰ تعلیم تو دلا رہے ہیں لیکن ان کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت میں کردار ادا کر سکیں۔ عجیب بات ہے کہ غیرت کے نام پر آج تک کوئی مرد قتل نہیں ہوا۔ اس سے بھی عجیب یہ ہے کہ معاشرے میں مرد جوبھی ناجائز کا م کرے اسے اسکی مردانگی سمجھتے ہیں نہ کہ جرم۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہوا اور کیسی جدیدیت۔ استادِ محترم نے کہاکہ اچھے کپڑے پہننے، بڑی گاڑیوں میں چلنے اور بڑے ہوٹلوں میں کھا کر پیٹ باہر نکالنے کو جدت یا ترقی نہیں کہتے۔ ترقی اسے کہتے ہیں کہ ہمارے سوچ وسیع ہوں، ہمارے عمل اجتماعی مفاد میں ہوں، قانون موجود ہوں او راس کا احترام ہو، ہر شخص اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوں اور اسب سے بڑھ کر دوسرے انسانوں کے لئے محبت و احترام موجود ہو۔ 68 سالوں سے ہم خود کو پاکستانی سمجھ کر فخر کرتے ہیں لیکن ہمیں ووٹ کا حق ہے نہ ہی پارلیمنٹ میں نمائندہ۔ ہم دنیا میں واحد قوم ہونگے جو68 سالوں سے کسی ملک کے ساتھ الحاق کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ورنہ قومیں تو آزادی حاصل کرنے کیلئے بھی اتنی جدوجہد نہیں کرتے۔

آج ہم پارلیمنٹ اور سینٹ میں نمائندگی کا مطالبہ تو کر رہے ہیں لیکن ہم سے اپنی صوبائی اسمبلی نہیں سنبھالا جاتا۔ سینٹ یا پارلیمنٹ میں جاکر حقیقی طور پر ہماری نمائندگی کون کریگا، بس چندمفاد عناصر کیلئے خردبرد کرنے کیلئے ایک بڑی پلیٹ فارم مل جائیگی۔ یہ سب کہنے کے بعدآخر میں استاد صاحب نے کہا ، کل جا کر یہ سب باتیں اخبار میں نہیں دینا۔ کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہیں لیکن ڈر لگتا ہے۔۔ کہیں پنشن بند نہ ہوجائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button