ایک نظر گلگت بلتستان کی ابھرتی ہوئی پارٹی پر
تحریر:محمد شریف ہنزائی
تحریک انصاف گلگت بلتستان میں ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے والی پارٹی دو بڑی پارٹیوں کے لئے چیلنج بن کر سامنے آئی ہے۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔دیگر پارٹیوں سے بھی مشہور رہنماء اور انکے ہمنوا پارٹی منشور سے متاثر ہوکر اور سابقہ حکومت کی ناقص کارکردگی کی بدولت ان کی منزل تحریک انصاف اور امیدیں مذکورہ پارٹی سے وابستہ ہوگئی ہیں۔جمہوریت کاحسن یہ ہے کہ اچھی کارکردگی،بے داغ ماضی کے حامل لیڈران کیلئے مناسب پلیٹ فارم مہیا کریں۔یہاں کے باشندوں کیلئے متبادل آپشن انکی توقعات کے عین مطابق ہو۔
تحریک انصاف خطے کی ایک مضبوط پارٹی کے طور پر یہاں کے باشندوں کے مسائل سمجھتے ہوئے ان کے حل کیلئے مناسب لائحہ عمل اختیار کرے۔الیکشن کی آمد آمد ہے گلگت بلتستان کے باشندوں کی امنگوں کا خیال رکھتے ہوئے قابل محنتی اور ویژن رکھنے والے امیداواروں کو پارٹی ٹیکٹ دے ۔عام کارکن کی تجاویز کا احترام اور ان کی رائے کو مقدم جانے۔عمران خان چیئر مین تحریک انصاف ہمہ گیر شخصیت کے حامل لیڈر ہیں ۔حق بات کہنا ان کا وطیرہ ،ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھانا ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔گلگت بلتستان میں حشمت اللہ کو کنوینئر PTI بنایا گیا ہے۔عوام کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہے کہ وہ عوامی سوچ اور زمینی حقائق سمجھتے ہوئے پارٹی کو مضبوط اور فعال بنانے میں اپنا کردار کیسے ادا کرتے ہیں۔عام کارکن اور لیڈاران سے مشاورت کے بعد نصب العین کا تعین کرنا مفاد عامہ کے کاموں میں حصہ لینا۔میرٹ کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار کما حقہ ادا کرنا،تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح پر عمل کرنا حکومتی اقدامات جو عوام کے مفاد میں ہوں ساتھ دینا مگر خطے کے مفادات اور حقوق پر زد پہنچنے والے فیصلوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر بھر پور مخالفت کرناکنوینئر اور اس کی ٹیم کیلئے چیلنج سے کم نہ ہوگا۔
مسلک اور ذات پات کا غلبہ کسی بھی پارٹی کیلئے زہر ہلاہل ،اس کے برعکس گونا گونی(Diversity) پارٹی کا حسن ہوگا۔علاوہ ازیں ممبر سازی کا عمل تیز کرنے خواتین کو برابری کی بنیاد پر حقوق دینا اور ان کو فعال بنانے سے پارٹی بام عروج تک پہنچ سکتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ پارٹی کتنی کامیابیاں سمیٹتی ہے۔
یہاں کوتا ہی زوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازوں سمٹتے ہیں وہاں صیاد ہوتا ہے