عجیب نظام اور سیاست
میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے گلگت کے مقامی ہوٹل میں اپنا اور کے این ایم کے زیر اہتمام گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کے تناظر میں، کے عنوان سے آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام قوم پرست رہنماوں کے ساتھ قومی ادیبوں اہل قلم حضرات کو مدعو کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق اس کانفرنس کا مقصد مسلہ گلگت بلتستان اور کشمیر کے درمیان پائے جانے والے پیچیدگیوں اور عوامی ابہام کو کم کرنے اور مستقبل کے سیاسی صورت حال پر گفت شنید کرنا تھا۔یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ راقم کسی قوم پرست یا وفاقی جماعت کا کوئی رکن ہے اور نہ کسی سے کوئی ملاقات ہے بس سوشل میڈیا کی وساطت سے چند ایک سے علیگ سلیگ ضرور ہے جو کہ میری معاشرتی اور صحافتی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن میرا ہمیشہ سے ایک ہی اصول ہے کہ میں حقیقت کے آئینے کو سامنے رکھ کر الفاظ بند قلم کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس میں کبھی کبھار ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ احباب اور اہل قلم دوست راقم پر فرقہ پرست اور علاقہ پرست ہونے کا بھی الزام لگاتے ہیں لیکن بقول جون ایلیا مرحوم کے جون دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں۔ اس بار بھی ایسا ہی سمجھ لیجئے گا کہ جو حالت حاضرہ سامنے ہے اُسی کے مطابق چند باتیں ارباب اختیار اور قارئین تک پونچاتا چاہتا ہوں اُمید کرتا ہوں کہ اس جرم میں مجھ پر بھی غداری کا الزام نہیں لگایاجائے گا کیونکہ کہتے اہل قلم کاایمان سچ کو بیان کرنا ہوتا ہے۔عرض یہ ہے کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق اُس کانفرنس کے دوسرے ہی دن تمام مقریرین پر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں ایف آئی آردرج کیا گیا اور بعد میں سب کو ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی لہذا گزارش یہ ہے کہ اگر غداری کے اس سلسلے کو تلاش کرنا ہے تو سب سے پہلے یکم نومبر اُنیس سو اڑتالیس سے شروع کرنے ہونگے جب ایک آذاد ریاست کو کچھ غیرمقامی لوگوں نے کمانڈر کی مرضی کے بغیر سیاست کا نذر کیا پھر معاہدہ کراچی کے کرداروں پر بھی مقدمہ درج کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے عوام کی مرضی کے بغیر اٹھائیس ہزار مربع میل کو سودا کر لیا، اسی طرح آگے چل کر اس علاقے کے کثیر حصے کو عوام کی مرضی کے بغیر چائینہ کو تخفے میں دیا گیا اُنہیں بھی سبق سکھانے کی ضرورت ہے اور اگر معرکہ کارگل کی بات کریں تو اس محاذ پر این ایل آئی کے شیردل جوانوں نے جب بھارت کا سینہ چیر کر اند ر جانے کیلئے حکمت عملی تیار کیا تو اُس وقت کے وزیر اعظم نے واشنگھٹن میں بیٹھ جنگ بندی کا اعلان کرکے شیر دل جوانوں کو بھارتی درندوں کے سامنے بے یارو مدگار چھوڑ کر بعد میں جو گرفتار ہوئے اُنہیں قبول کرنے سے بھی انکار کیاایسے لیڈران پر بھی مقدمہ درج کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ آج گلگت میں جنکے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہوا.
یقیناًاُن میں ایسے بھی لوگ ہونگے جن کے کسی نہ کسی عزیز نے معرکہ کرگل اور گیاری سیکٹر جیسے خطرناک جنگی محاذ پرپاکستان کی حفاظت کیلئے جان قربان کرکے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔اس ملک میں انصاف کا ترازو بھی بڑا عجیب ہے ایک طرف اسلام آباد کے دامن میں بیٹھ کر ریاست اور ریاستی ادروں کو للکارنے والے اور میڈیا پر بیٹھ کر مذہب مسلک کے نام پر اہل ایمان پر کفر کا فتوی لگانے والوں کو ریاستی اداروں اور حکومتی وزراء کی پشت پناہی حاصل ہے ، ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں کو گڈ اور بیڈ میں تقسیم کرکے سانحہ پشاور،سانحہ شکار پور اور سانحہ حیات آباد جیسے واقعات رونما ہوئے لیکن اُن کے خلاف آج بھی حکومت ایکشن لینے کی ہمت نہیں رکھتے اسی طرح گلگت جیل سے کئی بار معصوم لوگوں کے قاتل باآسانی فرار ہو نے میں کامیاب ہوئے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں عجیب تیری سیاست عجیب تیرا نظام۔یہاں پر ایک بار پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس کالم کا مقصد کسی خاص شخص یا پارٹی کی نمایندگی کرنا نہیں بلکہ یہ بتانے کی کوشش کرنا ہے کہ خطے کی جعرافیائی اور دفاعی اہمیت کو پس پشت ڈال کراس طرح کے ہتکنڈے پاکستان کے مفاد میں نہیں کیونکہ حقوق کی بات کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور یہاں کے عوام کواپنے حقوق کی جدوجہد کرنے کیلئے شعوردلانے کی کوشش کرنا کسی بھی طرح غیرقانونی اور غداری کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ زندہ قوم ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس بات سے ہم سب بخوبی اگاہ ہے کہ جو نظام یہاں رائج ہے اُس کے تحت عوام کی جان مال کا تحفظ اور بنیادی حقوق کا حصول ناممکن ہوچکی ہے ۔اگر یہی غداری ہے تو اس وقت پاکستا ن بھر کے تجزیہ نگار ،دانشور،حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے وزارء اور الیکٹرونک میڈیا بھی اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اس خطے کے ساتھ گزشتہ دہائیوں سے ذیادتی ہورہی ہے جس کا ازالہ ہونا چاہئے بالکل یہی مطالبہ اس خطے کے قومی لیڈران کا بھی ہے ۔آج جو باتیں یہاں کے قومی لیڈران کر رہے ہیں بلکل انہی باتوں کو وفاقی وزیر اطلاعات بھی بارہا دہرا چُکے ہیں کہ گلگت بلتستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتے ایسے میں کہیں توہماری منزل ہوگی جسکا تعین کرنا علاقے کے عوام کا بنیادی حق ہے۔آخر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گزارش ہے کہ خدا را کچھ تو خیال کیجئے کیونکہ قصور وار صرف یہاں کے رہنما نہیں آپ بھی اس خطے کو حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں جسے آپ نے قبول کرنا ہوگا کیونکہ یہ طریقہ یہاں کے عوام کو حقوق کی مطالبے سے دور نہیں کرسکتا۔ اللہ ہم سب کو آئین اور قانون پر عمل کرتے ہوئے قومی جدوجہد کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔