امن مگر سب کی ضرورت ہے
معاشرتی امن اور سماجی انصاف میرا پسندیدہ موضوع ہے اور ہمیشہ سے اس پر لکھتا آیا ہوں، میرے قارئین کہتے ہیں کہ آپ کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہورہی ہے۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ، مجھے بس اپنے حصے کا چراغ جلانا ہے۔ آپ میری صدا کو دیوانے کی بَڑ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بے شک میں ظلمتِ شب میں چمکتے ستاروں کا طالب ہوں جو ممکن نہیں۔ تاہم مایوس نہیں۔میرے دامن میں اسلام جیسا دین ہے جس کا اولین درس یہ ہے کہ حقیقی اسلام صرف اورصرف کتاب وسنت ، عقیدہ صحیحہ اور راسخ ایمان سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ یہی دین ہمیں سمجھاتا’’وعتصِموا بِحبلِ للہِ جمِیعا ولا تفرقوا‘‘سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔اسلام میں گروہ بندی، لسانی وعلاقائی جھگڑوں اور کسی امتیازی بنیادپر افتراق وانتشار کی کوئی گنجائش نہیں ،اللہ کے ہاں قربت وعزت و شرف کا معیار صرف ایک ہے اور وہ ہے’’ ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم‘‘یعنی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گارہے۔اسلام امن عالم اور انسانیت کا سب سے بڑا داعی ہے اور مابین مسلمین کو بھی سختی سے امن کی تلقین کرتا ہے۔
کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمیں اسلام اور امتِ مسلمہ پر مختلف محاذوں سے ہونے والے حملوں سے پوری طرح باخبر رہنا ہو گا اور اس کا درست ادراک بھی کرنا ہوگا۔ اور مسلمانوں کو باہم متحد ویکجان رکھنے اور افتراق وانقسام ،نفرت و شرانگریزی اور چپقلشوں سے بچانے کے لئے ہرممکنہ اقدام بروے کار لانا ہوں گے ، قرآنِ کریم ہمیں اسی کا واضح حکم دیتا ہے۔’’ولاتنازعوا فتفشلوا، وتذہب ریحکم‘‘یعنی آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
ہمارے لئے انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی ترقی کے لئے سرگرم ہو جائیں ۔ کوئی بھی قوم امن و استحکام کے بغیر اقتصادی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہماری قوت وعظمت ہماری وحدت میں مضمر ہے اور تمام تر سعادتیں اور برکتیں ہمارے استحکام میں پنہاں ہیں اور استحکام صرف درست و راسخ عقیدہ ، ایمان اور اس اسلامی معاشرے سے محبت و مودت ہی سے حاصل ہوسکتاہے۔ اس کے برعکس جب بدامنی ، فرقہ واریت ، تشدد ، اور مقابلہ بازی کی فضا ہو تو قوموں اور ملکوں کے لئے تعمیری، اقتصادی، تعلیمی اور بہتری کا کوئی کام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہوچکا ہے کہ ہمیں محبت اور امن وآشتی کاداعی اورمعاشرے کا کارآمد پرزہ بننے کی ضرورت ہے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مذہبِ اسلام نے فرد کو فکرونظر کی پوری آزادی عطا کی۔ اس نے انسان کو جبری غلامی، معاشی استحصال، سیاسی جبر اور مذہبی اکراہ کی بندشوں سے پوری طرح آزاد کیا۔جدید دور کا مفکرروسو نے کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر آج وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ مگر تاریخ کا دروازہ کھٹکھٹانے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایاتھا: تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر دیا حالانکہ ان کی ماں نے انھیں آزاد جنا تھا؟مگر ہمارا رویہ اور سلوک اس سے مختلف ہے۔ ہم نے ایک دوسروں کو ہرقسم کا غلام بنا کر رکھنی کو کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
اسلام کے آفاقی تعلیمات سے انسانی ضمیر انسانوں کی غلامی سے آزاد ہوکر اور خدا سے براہِ راست رابطہ قائم کر کے، ہرقسم کے اندیشوں، خطرات، وسوسوں اور گمراہیوں سے بلند ہوجاتا ہے۔یہ امتیاز و شرف صرف اور صرف مذہبِ اسلام کو حاصل ہے۔ جان و مال اور شرف و کرامت کو لاحق خطرے انسان کی خودداری اوراس کی عزتِ نفس کو مجروح کر دیتے ہیں اوریوں رفتہ رفتہ اس کی انسانیت کو بھی چھین لیتے ہیں۔ اسلام ہرقیمت پر عزتِ نفس اور خودداری کی حفاظت کرنے کی تلقین کرتا ہے اور انسانوں کے عزوشرف کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ وہ یہ عقیدہ انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر عمیق جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے شرف انسانیت عطاء کرنے کا پروانہ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے مگر ہم نے لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہا کر ثابت کردیا ہے کہ زندگی خدا کے بجائے ہمارے ہاتھ میں ہے۔
تاریخ چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے کہ دین اسلام کی اِن آفاقی تعلیمات اور اقدار کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ نمودار ہوا جس کا ہر فرد آزادیِ ضمیر کا نمونہ تھا۔ کیا حاکم، کیا رعایا، سب خوددار، عزتِ نفس سے مالا مال، اظہارِ حق میں جری و بے باک تھے۔ انھیں کوئی طمع یا خوف بزدل نہیں بناسکتا تھا۔وقت کا چیف جسٹس امام ابویوسف نے اپنی معروف کتاب’’کتاب الخراج‘‘ میں حضرت عمرؓ کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ حضرت عمر نے اپنے گورنروں کو فرمان بھیجا کہ وہ حج کے موقع پر مکہ میں ان سے آکر ملیں۔ جب سب جمع ہوگئے تو حضرت فاروق اعظم خطاب فرمایا: لوگو ! میں ان عُمال(گورنروں) کو اس لیے مقرر کرتا ہوں کہ راست روی کے ساتھ تمھاری سرپرستی اور حفاظت کریں۔ میں نے انھیں اس لیے ہرگز مقرر نہیں کیا ہے کہ تمھاری جان و مال اور عزت و آبرو پر دست درازی کریں۔ لہذا اگر تم میں سے کسی کو کسی عامل کے خلاف ظلم و جبرکی شکایت ہو تو کھڑا ہو جائے‘‘۔مگر آج ہمارا گورنری نظام اپنے تمام اعمال سے اس کی نفی کررہا ہے۔
بہر صورت یہ سچ ہمیں تسلیم کرناچاہیے کہ قرآن مذہبی جبر کی قوت سے نفی کرتا ہے ، قرآن کسی شخص پر اپنے عقیدے کو مسلط نہیں کرتا۔ وہ افہام و تفہیم اور تعلیم و تلقین کا قائل ہے اور جبر و اِکراہ، تشدد اور دھونس دھاندلی کو اعلانیہ مسترد کردیتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن اپنی صداقت اور حقانیت پر پوری طرح مطمئن ہونے کے باوجود وہ واشگاف اعلان کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ قرآن کی وسیع المشربی کا کوئی مذہب ہم پلہ نہیں۔عقیدہ و مذہب کی آزادی، دوسرے مذاہب، تہذیبوں اور روایات کے لیے وسیع المشربی او رواداری اسلام کی ایک اہم ترین قدر ہے جس پر قرآن کریم نے مختلف انداز میں ارشاد کیا ہے۔سورہ مائدہ میں ارشاد ہے کہ ’’ہم نے تم انسانوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی ہے۔ اگر تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمائش کرے‘‘۔
عین اسی طرح اسلام اپنے حلقہ بگوشوں کو ایمانداری، سچائی، بلند اخلاقی، عالی ظرفی، اصول پسندی، ایفاے عہد، قانون کی پابندی، صفائی و پاکیزگی ،انسانی ہمدردی،معاشرتی امن، سماجی انصاف اور راست بازی جیسی اعلی خوبیوں کا حکم دیتاہے ۔ کسی انسانی سوسائٹی میں اسلام کے آنے کا مطلب برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہوتاہے ۔ اسلام کی تربیت انسانوں کو اپنے معاشرے کے لیے انتہائی مفید رکن بنا دیتی ہے ۔ وہ امن، انصاف، پیار اور محبت کے علمبردار اور سفیر بن کر جیتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے حلقوں میں خوشیوں ، سکون و اطمینان اور فرحت و سلامتی کی علامت بن کر دنیا کے لیے رول ماڈل بن جاتے ہیں ۔ اس لیے آج چارسو پھیلی ہوئی خودغرضی اور بے حسی ہو یا دیگر طرح کی سینکڑوں برائیاں ، ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی اعلی، پاکیزہ اور روشن تعلیمات پہلے خود اپنائے پھر انھیں نرمی و حکمت کے ساتھ دوسروں تک پہنچائیے اور اپنے بچوں ،فیملی اور احباب کے درمیان اسلام کی برکتوں اور خوبیوں کا چمکتا نمونہ بن کر زندگی گزارئیے ۔ مسلمان ہونے کا آج ہم سب پر سب سے بڑ ایہی فرض بھی ہے اور قرض بھی ۔
بے شک قرآن نے ’’ واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ‘‘ سے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ تمام ترقوت کے ساتھ اہل باطل اور کفارکا مقابلہ کرو ،یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ظلم و ستم کا بازار گرم رکھتے ہیں مگر پرامن کفار کے لیے قرآن کا یہ واضح فرمان ہے کہ’’ اور اے نبی!اگر دشمن صلح وسلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجا اور اللہ پر بھروسا کرو۔ یقیناوہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ مفہوم یہ ہے کہ قرآن اور اسلام برابری اور توازن کی بنیاد پر جینے کی بات کرتے ہیں، کمزوری اور بزدلی سے نہیں۔
اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درس دیا ہے۔کسی شخص یا گروہ کے خلاف پرتشدد کارروائیاں اور طاقت کا استعمال اِس بنا پر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مسلمان نہیں ہے اور کفروشرک پر اس کا اعتقاد ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس پر علماے کرام،مفتیان عظام، محدثین اور فقہا ء ومجتہدین کا اتفاق رہا ہے۔ کہ کسی شخص کو طاقت کے استعمال سے دین اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ قرآن کا حکم تو یہ ہے کہ جو غیرمسلم مسلمانوں کے ساتھ عداوت نہیں رکھتا اور ان پر ظلم کرنے والوں میں وہ شامل نہیں ہے اس کے ساتھ اچھا برتا کیا جائے، اور عام انسانی حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں مسلمان اور غیرمسلم میں فرق نہ کیا جائے۔
اسلام محبتوں اور رواداریوں کی بستیاں بچھتاتا چلاجاتا ہے۔اسلام انسان کے ضمیر میں، خاندانی ومعاشرتی نظام میں، ملکی قوانین میں، انٹرنیشنل ریلیشن میں، غرض ہر جگہ زندگی کے ہر شعبے میں امن و سلامتی اور محبت و اخوت کے پھول کھلاتا جاتا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی معاملات کی استواری اور ان کے درمیان الفت اور بھائی چارے کے فروغ کی مثال دیتے ہوئے ارشااد کیا ہے ۔’’تم دیکھو گے کہ مسلمانوں کے درمیان محبت، ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے۔ جب اس کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘رسول اللہ کریم ﷺ نے یہ ارشاد کیا ہے کہ’’ اے مسلما نو!ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو۔ اے اللہ کے بندو، بھائی بھائی بن کررہو‘‘۔یہی احکامات دیگر مذاہب والوں کے ساتھ اپنانے کے لیے بھی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا’’ساری مخلوق اللہ تعالی کا خاندان ہے۔ تمام لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے خاندان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے‘‘۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔