چترال

چترال کے بالائی علاقے ریشن کے مقام پر دریائے مستوج میں پہاڑی تودہ گرنے سے پانی کا بہاؤ رک گیا

چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے بالائی علاقے ریشن کے مقام پر دریائے مستوج میں لون گاؤں کی جانب سے بہت بڑا پہاڑی تودہ گیا ہے جس کی وجہ سے پانی کی بہاؤ منگل کے روز سے تاحال رکا ہوا ہے جب کہ دریا میں پانی جمع ہوتے ہوئے ایک بہت بڑا جھیل کا شکل احتیار کرگیا ہے۔

اڑیان، ریشن اور گرین لشٹ گاؤں کے سینکڑوں ایکڑ زیر کاشت زمین جھیل (پانی) کا نذ ر ہوچکا ہے جبکہ پھلدار درخت اور گندم کی کھڑی فصل کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

محکمہ ایریگیشن (آبپاشی) کے ٹھیکدار کا اسی لاکھ روپے مالیت کا ایکسکویٹر مشین بھی پانی میں گر کر لاپتہ ہوا ہے جبکہ ایک ٹریکٹر ٹرالی بھی پانی نے گھیر لیا ہے اور دوسرے Excavator مشین کو بھی پانی گھیر رہا ہے۔

محکمہ ایریگیشن کے ایگزیکٹیو انجنیر اختر رشید نے موقع پر جاکر معائنہ کیا ان کے مطابق اس جھیل بننے سے لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ کروڑوں روپے کی زمین پانی کی کٹاؤ کی وجہ سے دریا کا حصہ بن چکا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر منہاس الدین نے بھی موقع پر جاکر دریا کا معائنہ کیا انہوں نے بھاری پتھروں اور ملبہ کو ہٹانے کیلئے دریا میں دو بارودی دھماکے بھی کروائے مگر بھاری پتھر اور ملبہ بدستور دریا کی بہاؤ روکے ہوئے ہیے۔

دریا کے آس پاس رہنے والے لوگ محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔اور اپنا سامان اٹھاکر یہاں سے اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہورہے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی پناہ گاہ کا انتظام نہیں ہوا ہے۔

مقامی شحص جعفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ دریا میں پہاڑی تودہ گرنے کی وجہ سے پانی کا بہاؤ رکھ گیا ہے جس کی وجہ سے پانی پیچھے کی جانب جمع ہوکر اس کا سطح بلند ہوتا جارہا ہے اور سیکنڑوں ایکڑ زیر کاشت زمین اس کا نذ ر ہوا۔

رحمت علی کا کہنا ہے کہ اگر صورت حال یہ رہی تو اس سے انسانی جانوں کو بھی حطرہ ہے۔اس علاقے کے ایک طالبہ شازیہ بہادر کا کہنا ہے کہ پانی آہستہ آہستہ ہمارے گھروں کی جانب بڑھ رہی ہیں اور لگتا ہے کہ اگر اس کا راستہ نہیں کھولا گیا تو پورا گاؤں زیر آب آسکتا ہے۔

ایک اور خاتون شبنم بی بی کا کہنا ہے کہ اس دریا کی پانی روکنے کی وجہ سے ہماری جانوں کا حطرہ ہے اور ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری جان اور مال کی حفاظت کیلئے بروقت اقدام اٹھائے۔

ایک معمر شحص شیر عجب خان سرکاری اداروں اور حکومت سے کافی گلے شکوے کرتے ہوے کہتا ہے کہ اگر حکومت بروقت اس گاؤں بلکہ پورے علاقے کی تحفظ کیلئے دریا کے کنارے حفاظتی دیوار تعمیر کرواتا تو آج یہ دن دیکھنے میں نہ آتا کہ ہماری زمین اور پھلدار درختوں کے باغات دریا کے بیچ میں زیر آب آچکے ہیں۔

چند اور خواتین اور طالبات نے بھی اپنے خدشات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی بہاؤ رکنے سے ان کے گاؤں کے قریب پانی قدرتی جھیل کی شکل احتیار کر چکی ہے اور آبادی کی طرف بڑھ رہی ہے انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اس کی بروقت کوئی حل نکالے ایسا نہ ہو کی چند دنوں میں ان کی پوری گاؤں پانی میں بہہ جائے۔اس علاقے سے منتحب رکن صوبائی اسمبلی سید سردار حسین نے ہمارے نمائند ے کو فون پر بتایا کہ وہ اس مسئلے کو وزیر اعلےٰ اور صوبائی حکومت کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ اس کا بروقت تدارک ہوسکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ میں میڈیا کی وساطت سے وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ

اور وزیر اعظم نواز شریف سے اپیل کرتا ہوں کی اس علاقے کی تحفظ کیلئے حصوصی فنڈ جاری کرے تاکہ دریا کے کنارے حفاظتی دیوار تعمیر کرکے اس حوبصورت علاقے کو پانی کی کٹاؤ اور دریا کی ضد سے بچایا جاسکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button