کالمز

شعور

تحریر: دیدار علی شاہ

خیالات ، تعلقات ، دانائی، حکمت کو سمجھنے اور فیصلہ کرنے کہ دماغی قابلیت ، صلاحیت، طریقہ، سلیقہ اور دلیل دینے کی طاقت کو شعور کہتے ہے یہ عمل انسان کہ سوچ اور سمجھ کو علم کے زریعے سے مظبوط بناتا ہے ہر دور میں فلاسفرز، دانشوراور مفکرین، گزرے ہے انھوں نے اپنے دور کو ایک نئی سوچ اور آنے والے دور کو علم دی ہے یہ تمام علم کی باریکی کو سمجھ کر اس کی انتہا تک پہنچے لوگ ہوتے ہے یہ وہ لوگ تھے جن کہ علم کو بنیاد بنا کر آج کہ سائنسی دنیا تیزرفتاری سے ترقی کر رہی ہے آج کے دور علم پر چل رہی ہے اور علم ہی کے زریعے سے اس کائنات میں اللہ تعالی کہ حکمت کو جاننے کہ کوشش کرتے ہے۔آج دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی واقعات رونماہ ہو جائے وہ کچھ وقت میں دوسرے لوگوں کے لئے عیاں ہو جاتا ہے اس کی وجہ آج کہ سائنسی ترقی ہے اور سائنس کہ اس تیز رفتار ترقی نے سب کو حیران کر دیا ہے یعنی اس کائنات کے بارے میں تحقیق ،انسانی زندگی کے مسائل کو کم اور حل کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ،مختلف بیماریوں کا علاج اور آنے والے وقت کے لئے بہتر منصوبہ بندی وغیرہ وغیرہ شامل ہے ان تمام چیزوں کو جان کر اپنے حال اور مستقبل کے لئے صیح فیصلے کرنے کا نام شعور ہے یعنی ایسا کام جس میں نقصان اور بربادی کا اندیشہ نہ ہو اور ان سے دوسرے جاندار چیزوں کا تحفظ یقینی ہو ۔یہ تمام مراحل کی تکمیل علم کے بغیر ممکن نہیں ایک ایسا علم جس سے اللہ تعالیٰ کہ اس کائنات میں بنائے گئے راز کو جاننے کہ کوشش اور اسے یہاں پر بسنے والے تمام جاندار چیزوں کے لئے فائدہ مند اور کارآمد بنانا شامل ہے ان تمام مراحل کو طے کرنے کے لئے علم ضروری ہے اگر ہم یہ بات ہمارے مذہب دین اسلام کہ نظر سے دیکھے تو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے قرآن مجید میں یہ ارشاد کی ہے کہ علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کہ تخلیق کردہ چیزوں کو جننا ممکن نہیں ہے تو یہ بات قابل غور ہے کہ کونسی علم ہو اور کیسی علم ہو جس سے ہم آج کے دور کے مطابق اپنا زندگی

دیدار علی
دیدار علی

خوشحالی سے گزار سکے اور آنے والے نسل اور دور کے لئے آسانیا ں پیدا ہو۔
قارئین کرام ہمارے ملک پاکستان اور خاص کر گلگت بلتستان میں ایسی کوئی خاص طریقہ کار موجود نہیں ہے کہ یہاں کے نئی نسل کو کونسی اور کیسی تعلیم دی جائے بلکہ یہاں پر وقت،حالات اور دور کے مطابق تعلیمی سہولیات بھی موجود نہیں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں پر لوگ صرف تعلیم چاہتے ہے مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ کونسی تعلیم ہو اور کیسی تعلیم ہو ،یہاں پر والدین اور بچوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ انسان کے پاس صرف ڈگری ہونی چاہیے چاہے وہ جائز طریقہ سے حاصل ہو یا نا جائز طریقہ سے ،اس ڈگری کو لے کر صرف روزگار حاصل کرنا ہے اور ڈگری کوئی بھی ہو چلے گا،نصاب جیسے بھی ہو چلے گا ،طریقہ کار جو بھی ہو چلے گا،مفت حاصل ہو یا لاکھوں میں تب بھی چلے گا۔مگربدقسمتی سے یہاں پر اس بات کو سمجھانے والا کوئی نہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری اور روزگار نہیں بلکہ ایک مکمل اور بہتر انسان کہ تشکیل ہے ایک ایسا انسان کہ جو اچھائی اور برائی ،نقصان اور نفع ، جائز اور نا جائز میں فرق کر سکے ایسا فرق کہ اللہ تعالیٰ کہ پیداکردہ چیزوں کاغلط استعمال نا ہو ،ہر جاندار چیزوں کو تکلیف نہ پہنچے ،ایسی تعلیم کہ اللہ تعالیٰ کہ پیداکردہ چیزوں کہ انسانیت کہ بہتری کے لیے استعمال میں لائے،ایسی تعلیم کہ انسانیت کہ بقاء اور معاشرے کہ ترقی کے لیے اجتماعی کوششیں اور ساتھ ساتھ عملی کام یقینی ہو

اگر ہم دوسرے ممالک کہ طرف نظر ڈالے تووہاں نئی نسل پر خاص توجہ دی جاتی ہے ان کو اس بات کہ فکر رہتی ہے کہ وہ ان کو بہتر سے بہتر تعلیم دیں تاکہ آنے والے وقت میں ملک و قوم کو سنبھالے ،اسی کے لئے انھوں نے بہترین نصاب بنائے ہے ،بہترین تعلیمی ادارے بنائے ہے ، بہتر اساتذہ تیار کہ ہے،تعلیمی اداروں کو خودمختار بنایا ہے اور ان کا مقصد تعلیم سے ایک اچھے انسان کہ تشکیل ہے مگر بدقسمتی سے یہاں گلگت بلتستان میں ایسی کوئی خاص تعلیمی نظام موجود نہیں ہے کہ بچوں کہ پیدائش سے لے کر ان کہ تعلیمی اور عملی زندگی تک انہیں سماجی،معاشی، نفسیاتی،اور کامیاب زندگی گزارنے کے لئے جینے کے طریقے سکھائے ۔اگر ہم گلگت بلتستان کہ موجودہ تعلیمی صورتحال کہ بات کریں تو ایک ادارے کے سروے کے مطابق ملک کے دوسرے حصؤں کہ نسبت یہاں پر تعلیمی رجحان بہتر ہے،یعنی یہاں پر زیادہ سے زیادہ بچے سکول جاتے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف سکول جانا کافی نہیں بلکہ صیح معنوں میں پڑھائی ہو عمر کے لحاظ سے صیح تربیت ہو کیرئر کاونسلنگ کا بہتر نظام ہو ۔صرف روایتی انداز کہ تعلیم کافی نہیں ہے بلکہ والدین کو یہ شعور دینا لازمی ہے کہ وہ اپنے بچوں کہ تعلیمی پسندیدگی اوررجحان کا خاص خیال رکھے ،وقت اور حالات کے مطابق تعلیمی تربیت اور رہنمائی کریں جو کہ وقت کہ ضرورت ہے ۔اگر گلگت بلتستان کے سات اضلاع میں ابھی سے والدین اور نوجوانوں کو بہتر تربیت اور رہنمائی مہیا کہ جائے تو آہستہ آہستہ ان میں شعور بڑھ جائے گی اور نوجوان نسل میں بہتر زندگی گزارنے کہ صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور لوگ خوشحالی کہ طرف گامزن ہونگے دنیا جس تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے ان کے صف میں ہم بھی شامل ہونگے مگر ان تمام مرحلہ کو انجام تک پہنچانے کے لئے ذمہ داری والدین، موجودہ لیڈرز، ادارے اور متعلقہ لوگوں کہ ہے کہ یہ ایک متفقہ فیصلوں کے تحت نوجوانوں کے لئے بہتر مستقبل کا انتخاب کریں اور معاشرے میں جدید دور کے مطابق زندگی گزارنے کا شعور پروان چڑھائے کیونکہ یہ نوجوان جدید دور کہ سوچ اور طریقہ کار کے تحت اپنے دور کو سنبھالے۔

اسی فلسفہ کو لے کر گلگت بلتستان میں اے کے آر ایس پی 2011 سےEELY کے نام سے پروجیکٹ کامیابی کے ساتھ جاری ہے اسی طرح سے اور بھی اداروں کا یہاں پر کام کرنا حوصلہ افزا ثابت ہوگا کیونکہ اس وقت خاص کر ٹیچرز کے لئے میعاری تدریسی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ سے بہتر معلومات بچوں کو منتقل ہو، اس کے علاوہ اساتذہ،والدین اور بچوں کے درمیان تعلوقات اور روابط بہتر ہوں تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کے مسائل حل ہو، بچوں کے لئے مختلف سرگرمیاں ضروری ہے تاکہ ان کہ ذہانت تیز ہوں،اور ساتھ ساتھ بچوں کو زندگی جینے کے طریقے سکھانا ضروری ہے صیح بول چال،مسائل کا حل، ذہنی تناو پر قابو پانا وغیرہ وغیرہ شامل ہے،اور خاص کر بچوں میں ریڈنگ ہیبٹس یعنی کتابوں کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کہ عادت پیدا کرنا ضروری ہے ۔

اسی طرح سے اگر گلگت بلتستان اور چترال کے رہنے والوں کو یہ شعور دیا جائے کہ آج کے دور میں ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے کون کون سے طریقہ کار ہے اوراپنے بچوں کو ایک بہتر انسان اور ہنرمندبنانے کے لئے ان طریقہ کار کے تحت اپنے نئی نسل کو تیار کریں تو آنے والے وقت میں خوشحال زندگی ممکن ہوگی مگر ان تمام باتوں کو عملی شکل میں لانے کے لئے محنت شرط ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button