کالمز

پاکستان کا وعدہ

Hidayat-Ullahبائیس فروری دو ہزار پندرہ گلگت شہر میں ایک مقامی ہوٹل کا نظارہ بڑا ہی دیدنی تھا اس ہوٹل کی چھت اور ارد گرد گلگت پولیس کی ایک بھاری نفری بڑی ہی چوکس اور پھرتیلی نظر آرہی تھی۔یوں لگ رہا تھا کہ ہوٹل کے اندر کوئی دہشت گرد چھپے بیٹھے ہوں جن کے خلاف کاروائی ہونے جا رہی ہے۔راقم کی منزل بھی یہی تھی ۔جب میں نے یہ منظر دیکھا تو بڑا ہی حیران ہوا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے اسی مقام پہ تو گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کے تناظر میں کانفرنس منعقد ہونے والی تھی یکا یک یہ کیسے ہوا کہ دہشت گرد گھس بیٹھے۔گاڑی سے اتر کر جب جائزہ لیا تو میری ہونٹوں میں ایک ہنسی ابھری۔اور دل میں سوچ رہا تھا کہ بات کا بتنگڑ بنانا کوئی انتظامیہ سے سیکھے ۔اور ایک معمول کی کانفرنس کو کس بھونڈے طریقے سے نمٹانے جا رہی ہے ذرا اور تفصیل معلوم ہوئی تو پتہ چلا کہ اس کانفرنس کو منعقد کرنے واے ذمہ داروں کو انتظامیہ نے یہاں تک مجبور کیا کہ وہ اس کانفرنس کو ملتوی کردے۔جب بات نہ بنی تو ان ذمہ داروں سے کہا گیا کہ وہ اسٹام پیپر لکھ کر دیں کہ اس کا نفرنس میں حکومت کے خلاف کوئی بات نہیں کہی جائیگی ۔ غالباً اسی مقصد کے لئے پہلے ہی سے ایک اسٹام پیپر تیار کیا گیا تھا ۔

لگتا ایسا ہے کہ قانون اندھا ہے کا مطلب انتظامیہ کی ڈکشنری میں کوئی اور معانی رکھتا ہے یعنی جو جی میں آئے اپنی مرضی کی کاروائی عمل میں لائی جائے جبکہ عام اور فہم زبان میں اس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ انصاف کے معمالے میں لیت و لعل سے کام نہ لیا جائے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں حقائق اور سچائی کا راستہ اپنا یا جائے نہ کہ اوچھے ہتھکنڈ ے اور اپنا مفاد۔ ۔ اس کانفرنس کے حوالے سے بات کی جائے تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ انتظامیہ اس کانفرنس کے انعقاد کے حق میں ہی نہیں لگ رہی تھی اور انتظامیہ کا رویہ انصاف سے ہٹ کر لیت و لعل والا ہی لگ رہا تھا کافی بحث مباحثے کے بعد کانفرنس کے منتظمین بغیر کسی اسٹام کے انتظامیہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ اول تو یہ کوئی کھلا جلسہ نہیں اور دوسری بات یہ کہ یہ اندرون خانہ بحث و و مباحثہ ہے اور تیسری بات یہ کہ ستاسٹھ سالوں سے پاک سر زمین شاد باد پڑھنے والے کیسے پاکستان ریاست کے خلاف بول سکتے ہیں ۔۔۔مجھے کانفرنس کا جو دعوت نامہ ملا اس کے مطابق اس کانفرنس میں سپریم کورٹ آف پاکستان بار کونسل کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کے علاوہ گلگت بلتستان کے دو صوبائی نگران وزرا کا بھی نام درج تھا جنہوں نے کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔

عاصمہ جہانگیر موسم کی خرابی کے باعث گلگت نہ پہنچ سکی جبکہ جی بی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزرا اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے اس کی تفصیل مجھے معلوم نہ ہوسکی میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو وہی عذرلنگ والی بات تھی۔صوبائی وزرا کا نہ آنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ معلوم یہی ہوا کہ استاد جی نے ان کو آدھی چُھٹی نہیں دی ۔ صورت حال جو بھی ہے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں ۔

اس کانفرنس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں کشمیر سے آئے ہوئے مہمانوں کے علاوہ جی بی اسے تعلق رکھنے والے عمائدین ، سول سوسائٹی اور صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک ہوئے۔۔۔ ایک وقت میں کانفرنس منعقد کرنے والوں کی طرف سے یہ فیصلہ ہوا کہ اس کانفرنس میں انٹیلیجنس کے افراد کو ہال سے اٹھایا جائے ۔ ان کا اصرار تھا کہ انتظامیہ نے ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا ہے جواب میں ایسا کرنا ضروری ہے۔لیکن ڈاکٹر غلام عباس اور راقم کے سمجھانے بجھانے پر کانفرنس کی انتظامیہ بات مان گئی اور وہ اس فعل سے باز رہی ۔۔۔۔ممکن ہے کہ انٹیلیجنس کے افراد اس بات پر خفا ہوئے ہونگے اور ان کی رپورٹنگ کرنے والا قلم پھسل گیا ہو۔

راقم پوری کانفرنس کے دوران موجود تھا کم از کم مجھے اس کانفرنس میں ریاست کے خلاف کوئی بات سننے کو نہیں ملی ۔اور نہ ہی مقامی اخبار میں ریاست کے خلاف تقاریر کی کوئی رپورٹنگ ہوئی البتہ حکومت وقت کے جی بی کے

حوالے سے چند اقدامات کی مخالفت میں مقررین کی تقاریر میں جوش دیکھا گیا۔اگر ان مقررین کی تقاریر کو ریاست کے خلاف سمجھا جائے تو پھر اسلام آباد ڈی چوک میں عمران خان اور طاہر القادری کی تقاریر کو کیا سمجھا جائیگا ۔۔۔اپنی بھونڈی حرکتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے انتظامیہ نے ایک اور بھونڈی حرکت یہ کی کہ اس کانفرنس میں تقریر کرنے والوں کے خلاف صوبائی حکومت کے اجازت نامہ لئے بغیر حقائق سے دور ایک خود ساختہ ایف آئی آر درج کی گئی اور ایسے الزمات لگائے گئے جنکا ذکر اس کانفرنس میں ہوا ہی نہیں اور ان لوگوں کے نام بھی شامل کر لئے جو نہ کسی ساسی پارٹی کے رکن ہیں اور نہ ہی ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے ۔۔

راقم کا نام بھی ان میں سے ایک ہے جسے سماجی کارکن لکھا گیا ہے اب آپ ہی بتائیں کہ ایک سماجی کارکن اور صحافت علم و تدریس سے جس کا تعلق ہو وہ کیسے ریاست کے خلاف لکھ سکتا ہے ۔دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی مدعو تھا اور مجھے بتایا گیا تھا کہ اس کانفرنس کا موضوع کشمیر ہے. بحثیت کالم نگار اور مصنف میرا مضمون بھی کشمیر ہی ہے اس حوالے سے میں نے اپنا لکھا ہوا مقالہ کانفرنس کے شرکا میں تقسیم کیا اور اسی حوالے سے ہی اس کانفرنس میں تقریر کی۔ اور جو مقالہ پیش کیا گیا وہ راقم کے شائع شدہ اخباری کالموں پر مشتمل ہے جو مقامی اخباروں میں وقتاً فوقتاً چھپتے رہے ہیں ۔جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔ اگر ایف آئی کو پڑھا جائے تو اس سے جو باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں وہ کچھ اس طرح کی ہیں۔۔

کیا صوبائی حکومت کے ذمہ داران کے خلاف بات کرنا پاکستان کے خلاف بات ہے؟ ۔۔کیا سول حکام کے غلط اقدامات کو اجاگر کرنا پاکستان کے خلاف ہے؟۔۔۔۔کیا اپنے حقو ق مانگنا پاکستان کے خلاف ہے؟۔۔۔۔۔کیا مقامی لوگوں کی حق تلفی کر کے غیر مقامی لوگوں کو ترجیح دینے والوں کے خلاف بات کرنا پاکستان کے خلاف ہے؟ کیا کسی کانفرنس یا میٹنگ میں لوگوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دیکر متحد ہوکر اپنے حق کے حصول کے لئے جہد و جہد کرنا پاکستا ن کے خلاف ہے ۔۔ جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہوتا گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ نہیں بن سکتا کہنا پاکستان کے خلاف ہے. جبکہ وزیر اطلاعات پاکستان اس بات کو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے اور حال ہی میں پیپلز پارٹی کی طرف سے بلائے گئے آل پارٹیز کانفرنس میں مقررین کی تقاریر میں جوش تھا اور باتیں بھی وہی تھیں جو کشمیر کانفرنس میں ہوئیں ۔آل پارٹیز کانفرنس میں تو اس بات کا بھی فیصلہ ہوا کہ غیر مقامی گورنر کی آمد پراحتجاج کیا جائیگا جبکہ کشمیر کانفرنس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی میرا کسی ساسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت مقصود نہیں بلکہ حقائق بیان کرنا ہے۔۔۔اگر یہی باتیں کہنا اور لکھنا ریاست اور پاکستان کے خلاف ہے تو ایسی باتیں تو اب ہر گلگتی اور بلتی کرتا ہے تو کیوں نہ پورے جی بی کی عوام کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہے؟۔

اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ اس وقت جی بی پاکستان کے زیر انتظام متنازعہ علاقہ ہے اور جس کی قسمت کا فیصلہ مسلہ کشمیر سے منسلک ہے۔جس کا تصفیہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہونا باقی ہے ۔ ۔لہذا پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ مسلہ کشمیر کی روشنی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق یہاں کے عوام کو حقوق مہیا کرے جس کا حکومت پاکستان نے وعدہ کر رکھا ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button