اب تو شاگرد کا استاد ادب کرتے ہیں
تحریر: نرجس خان کرگلی
شاعر کہتا ہے کہ
بے خر اب تو ہے دولت ہی شرافت کا نشاں
لوگ پہلے کبھی تحویل نسب کرتے تھے
اب توشاگرد کا استاد ادب کرتے ہیں
سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے
اسلام نے جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں استاد کو بھی معزز ترین مقام عطا کیا ہے تاکہ اس سے علم کا وقار بڑھے اور علم سے انسانیت کا ۔
رسول پاکؐ فرماتے ہیں ۔ترجمہ ’’مجھے تو معلم ہی بناکر بھیجا کیا ہے ‘‘
استاد نئی نسل کو صحیح طریقے سے تربیت کرتے ہیں استاد بچوں کو جس سانچے میں ڈالنا چاہے وہ انہی سانچوں میں ڈھلتی ہیں
حضور پاک ؐ مزید فرماتے ہیں ’’تیرے تین باپ ہیں ایک وہ جس نے تجھے عدم سے وجود میں لایا ۔دوسرا جس نے تجھے اپنی بیٹی دی ،تیسرا وہ جس نے مجھے علم کی دولت سے مالامال کیا ‘‘
مولا علیؑ بھی فرماتے ہیں ’’جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا‘‘
مفسرِقرآن امام فخرالدین رازی فراماتے ہیں’’ میں نے جو بھی عزت اور شہرت حاصل کی ہے اس کا سبب استاد کی خدمت ہے‘‘
یہ تمام باتیں ہم سنتے تو ہیں مگر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے باہر نکال دیتے ہیں آج کل نوکریاں بھی حسب نسب دیکھ کر ہی دیئے جاتے ہیں یعنی یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ کس کے سرپر کس کا ہاتھ ہے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے اخباروں میں اعلانات تو کئے جاتے ہیں مگر جن کو دینا ہوتا ہے انہیں پہلے ہی مل جاتے ہیں یا دئے جاتے ہیں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
نوکری کیلئے اخبار کے اعلان نہ پڑھ
جان پہنچان کی باتیں ہیں کہاں مان ، نہ پڑھ
جن کو ملنی ہو انہیں پہلے ہی مل جاتی ہے
بس دکھاوے ہی کے ہو تے ہیں یہ فرمان نہ پڑھ
جب حسب ونسب کی بنیاد پر نوکری دیئے جاتے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جب بندہ خود قابل نہ ہو سفارش کے ذریعے نوکری پر جانے کا کیا فائدہ ہان اگر بندہ قابل ہو مگر اسے کسی وجہ سے نوکری نہ مل رہا ہو تو سفارش کسی حد تک صحیح ہے جس کے اپس علم نہ ہو وہ بنجر زمین کے مانند ہیں شاعر کہتا ہے ۔
دھرتی بنجر ہو تو برست سے کیا ہوتا ہے
بے عمل دل ہو تو جذبات سے کیا ہوتا ہے
ہے عمل لازمی تکمیل تمنا کیلئے
ورنہ رنگین خیالات سے کیا ہوتا ہے
ہم جب تک استاد کا احترام نہیں کریں گے تب تک کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے پہلے زمانے میں کہتے تھے ‘‘با ادب با نصیب بے اداب بے نصیب ‘‘لیکن اب نصیب استاد کی بجائے شاگرد کا ساتھ دیتا ہے اور وہ استاد کی ایک ڈانٹ بھی برداشت نہیں کرپاتا ایسے طالب علموں سے جاہل ہی بہتر ہیں استاد وہ واحد عظیم ہستی ہیں جو ہمیں صحیح غلط کا تمیز سکھاتا ہے ہمیں سیدھی راہ دکھاتی ہے وہ والدین جنہوں نے ہمیں جنم دیا تو ہمیں لوری سناسنا کر سلادیتے ہیں مگر علم سکھانے والے والدین یعنی استاد ہمیں غفلت کی نیند سے جگادیتے ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’خواب ہو نہیں جو آپ سوتے میں دیکھتے ہیں بلکہ خواب وہ ہے جو آپ کو سونے نہ دے‘‘ ین استاد کے ذریعے سے ہی اللہ کی عظیم ذات کو پہچان سکتے ہیں اور اس کے وجود اور وحدانیت پر یقین کرتے ہیں حوزہ علمیہ کے ایک جلیل القدر بزرگ کے سلسلے میں ملتا ہے کہ وہ اپنے طالب علمی کے زمانے میں بڑی اچھی طرح درس پڑھا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ استاد محترم اپنے اس شاگرد کا خاص خیال رکھاکرتے تھے یہاں تک کہ بعض دوسرے شاگردوں نے ایک مرتبہ اپنے استاد سے کہا ’’ہم اس سے بہتر طورپر درس سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی آپ انہیں ہم پر ترجیح دیتے ہیں آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘استاد سمجھ گئے کہ زبانی جواب ان شاگردوں کیلئے کافی نہیں ہوگا لہٰذا نہوں نے عملی طوپر مثال دے کر انہیں مطمئن کرنے کا فیصلہ کیا اس کیلئے استاد نے اپنے تمام شاگردوں سے کہا ’’ آج میں آپ سب کو ایک زحمت دینا چاہتا ہوں آپ لوگ ایک ایک مرغ اپنے ساتھ لے جائے اور اس ذبح کر کے لے آیئے ہاں البتہ تنا خیال رہے کہ جب آپ مرغ ذبح کریں تو اس وقت کوئی موجود نہ ہو‘‘تمام شاگردوں نے ایک ایک مرغ لیا اور ان میں سے ہر ایک نے تنہائی میں جاکر اسے ذبح کر دیا البتہ وہ شاگرد جو استاد کی نگاہ میں خاص عزت رکھتا تھا مرغ کو ذبح کئے بغیر زندہی لے آیا اور استاد کی خدمت میں آکر عرض کی ۔ آپ نے تنہائی کی جو شر ط عائد کی تھی اس کی پابندی نہیں ہو سکی جہاں کہیں بھی گیا وہاں میں نے خدا کوحاضر وناظر پایا ۔ یہ جواب سن کر استاد نے دوسرے شاگردوں سے کہا ’’اب تم سب نے اس شاگرد کو پہچانا‘‘ میرے اس شاگرد کو خداوند عالم نے ایسا نور عطا کیا ہے جو اگر کسی کے دل میں پیدا ہوجائے تو اسے سعادت اور بھلائی کا راستہ مل جاتا ہے اور وہ خدا کو ہمیشہ حاضر وناظر سمجھنے والا ہو جاتا ہے ۔ اس وقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ استاد محترم کا کہنا ماننے سے اور اللہ کی وجود پر یقین رکھنے سے اللہ تعالیٰ نے اس طالب علم کو کتنی بڑی سعات سے نوازا میرے خیال میں ہم آج تک استاد کی عظیم رتبے کو پہچاننے میں اس لئے کامیاب نہیں ہوئے کہ ہم استاد کی ایک معمولی سی ڈانٹ تک برداشت نہیں کر پاتے استاد کی ایک ڈانٹ پر اگلے روز والدین پرنسپل کے پاس شکایت لئے گھڑے ہو تے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ بچے نے کیا غلطی کی ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت صحیح سے کریں ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کریں لیکن ایک حد میں رہ کر استاد محترم سے کہیں کہ انہیں اچھی اچھی باتیں سکھائیں کیونکہ بچے والدین سے زیادہ استاد کا کہنا مانتے ہیں ۔ جب استاد کے ذریعے بچوں کی اعلیٰ تربیت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو مجھے امریکیی صدر ابراہام لنکن کا وہ خط یا د آتا ہے ۔جوکہ اس نے اپنے بیٹے کے استاد کے نام لکھا تھا اس خط میں اچھی اچھی باتیں پوشیدہ ہیں جو کہ اییک طالب علم کیلئے ضروری ہے ۔ ابراہام لنکن کہتے ہیں کہ ۔ میں مانتا ہوں اسلئے ایک دن معلوم ہونا ہی ہے کہ تمام لوگ حق پر نہیں نہ ہی تمام لوگ سچے ہیں لیکن یہ ضرور سمجھا دینا کہ برے سے برے انسان کے ذہن مین بھی ہیرو کا تصور موجود ہوتا ہے اور خود غرض سیاستدان کو بھی کوئی مخلص رہنماء ہی متاثر کرتا ہے اسے سمجھا دینا کہ جس کو سب دشمن سمجھتے ہیں اس کا بھی کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے میں مانتا ہوں اس میں وقت لگے ۔ ہو سکے تواسے ضرور سکھا دینا کہ محنت سے کمایا ہو اایک ڈالر ان پانچ ڈالروں سے بہتر ہے جو زمین پر پڑے ہوئے مل جاتے ہیں اسے شکست قبول کرنا سکھا دینا اور یہ بھی سکھانا کہ فتح کا جشن منانے کے قاعدے کیا ہوتے ہیں ہوسکے تو اسے حسد سے دور رکھنا اور زیر لب تبسم میں چھپا راز بھی سکھا دینا کوشش کرنا کہ وہ جلد ہی سمجھ جائے کہ طاقت پر غرور کرنے والا زیادہ عرصہ میدا میں نہیں رہ پاتا ۔ ہوسکے تو اسے کتابوں میں چھپے راز واسرار بھی رشناس کرانا لیکن ساتھ ساتھ آسمانوں پر اڑتے پرندوں ، سورج کی روشنی میں نہاتے سرسبز پہاڑوں میں کھلے پھولوں کی ابدی رازوں پر غور کرنے کیلئے چند خاموشی کی گھڑیاں بھی اسے دینا ، اسے سکول ہی میں سکھا دینا کہ دھوکہ دے کر جینے سے زیادہ عزت تو شکست کھا کر جینے میں ہے ۔ اسے بتانا کہ اپنے خیال پر یقین رکھے چاہے وہ ہر ایک کی نگاہ میں غلط کیوں نہ ہوں اسے شرافت کا جواب شرافت سے اور سختی کا جواب سختی سے دینا سکھا دینا تاکہ وہ ہجوم کے پیچھے پیچھے نہ چلے اسے ہر ایک بات سنناسکھانا لیکن ساتھ ساتھ ہر ایک جانچھنا ،پرکھنا بھی سکھانا تاکہ سچائی واضح ہو جائے اور صر ف خیر ہی اس کو متاثر کر سکے ہو سکے تواس کو غموں کے درمیان مسکرانے کا سلیقہ بھی سکھانا اور سکھا نا کہ آنسو بہا لینے میں بھی شرم کی کوئی بات نہیں اسے بتادینا کہ وہ مایوسی پیدا کرنے والی باتوں کو جھٹک دے اور ضرورت سے زیدہ شیریں کالمی سے بھی محتاط رہے اسلئے اپنی صلاحیتوں کی قدر وقیمت سے بھی روشناس کرانا اگر اپنی سچائی پر کامل یقین ہو تو مقابلے بھی ڈٹ کر کرے اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ تو رکھنا لیکن لاڈ پیار ہر گز نہیں کیونکہ فولاد کی آزمائش ہر حال میں آگ کے شعلے ہی کرتے ہیں اس کی مدد کرنا تاکہ اس میں وہ ہمت اسکے جواضطراب کا بروقت اظہار کرتی ہے اور اسے صبر واستقامت کا درس دینا جو دلاوری کا سبق ہے ۔
اس خط پر عمل کر کے نہ صرف ہم ایک اچھا انسان بن سکتے ہیں بلکہ ہم زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں صحیح معنوں میں زندگی جینے کیلئے ہمیں اللہ ورسولؐ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہوگا اس خط کے ذریعے ہم اپنے استا د کے حقیقی رتبے کو پہنچان سکتے ہیں اور استاد کی عزت کر سکتے ہیں کیونکہ استاد توعزت کیلئے بننے ہیں ۔