معافی کا موسم
وزیر فدا علی مایا شگری
مجھ سے کسی دوست نے پوچھا ، وزیر صاحب ! حال ہی میں اخبارات میں آپ کا مضمون "ضمیر کے سوداگر” اور "سیاست،خدمت یا عبادت”پڑھا ۔کیا آپ پہلے بھی کالم لکھتے تھے ؟
میں نے اس دوست کو جواب دیا بھائی جان میں نہ کوئی کالم نگار ہوں اور نہ مضمون نویس،بلکہ یہ ایک فطری رد عمل ہے کہ جب انسان عشق میں ناکام ہوتا ہے تو شاعر بن جاتا ہے اور وہ اپنے دل کی بھڑاس اشعار کی صورت میں نکالتا ہے ۔جس میں قافیہ ردیف یا شاعری کے دیگر رموز کی پروا نہیں کرتا کیونکہ نثر کی صورت میں درد دل بیان کرنے کیلئے کافی وقت لگتا ہے اور ہر کسی کو اس کا درد دل سننے کی نہ ضرورت ہے اور نہ فرصت ۔
اس لئے ناکام عاشق کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے درد دل کی روداد اشعار کی صورت میں لوگوں تک پہنچائے۔اسی طرح ایک سیاسی ورکر جب سیاستدانوں کا اصل چہرہ دیکھ کر مایوس ہوتا ہے تو اپنا درد دل ہر کسی کو فرداََ فرداََ سنانا ممکن نہیں، لہٰذا اپنے دل کی آواز بذریعہ اخبارات لوگوں تک پہنچانے کا سہل ترین راستہ کالم نگاری ہے ۔
لہٰذا میں اپنا درد دل بیان کرنے کیلئے اخبارات کا سہارا لیتا ہوں جسے آپ کالم کہیں یا کچھ اور ۔جس طرح ذیادہ تر ناکام عاشقوں کے اشعار بے وزن اور شاعری کے رموز سے آذاد ہوتے ہیں ۔اسی طرح میرے کالم صحافتی اصول و ضوابط اور صحافتی آداب سے بالکل مبرا ہیں چونکہ الیکشن قریب ہیں ۔لہٰذا میں اپنے سیاسی تجربات سے عوام کو آگاہ رکھنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہوں تاکہ میرے تجربات سے اگر دس افراد بھی سبق سیکھ لیں اور اس قومی فریضے میں محتاط رہیں تو اسے میں اپنی کامیابی سمجھونگا۔
جھوٹے وعدوں اور سبز باغ دکھانے کیلئے ہمارے اکثر سیاستدان مشہور بھی ہیں اور ماہر بھی۔ایک انگریز ماہر نفسیات ڈیل کارنیگی اپنی کتاب \”(اردو ترجمہ میٹھے بول)\” میں لکھتا ہے کہ اگر کسی کو اپنے مقصد کی کامیابی کیلئے استعمال کرنا ہو تو مخاطب سے اپنے مقصد کو پوشیدہ رکھتے ہوئے صرف مخاطب کے مقصد کے حصول کی بات کریں۔تو مخاطب آپ کے جال میں آسانی سے پھنس سکتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ڈیل کارنیگی کے اس اصول کو پوری طرح اپنا لیا ہے۔اسی لئے ہمارے سیاستدان الیکشن سے قبل علاقے کی تقدیر بدلنے ، تمام بے روزگاروں کو روزگار دلانے ، علاقے میں دودھ شہد کی نہریں بہانے کے جھوٹے وعدوں سے لوگوں کو مائل کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام ان وعدوں میں اپنا فائدہ دیکھتے ہوئے ان سیاستدانوں کے فریب میں آکر پانچ سالوں کیلئے اپنانمائندہ چنتے ہوئے بشکل ووٹ اپنا تصدیقی مہر ثبت کرتے ہیں اور جب وہ نمائندہ منتخب ہوتا ہے تو وہ عوام کو بھول کر اپنے خفیہ ایجنڈا(ذاتی مفاد) پر کام شروع کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ پانچ سال عوام کی بے وقوفی اور اپنی چالاکی پر دل ہی دل میں مسرور رہتا ہے ۔
جب اگلا الیکشن آتا ہے تو اس نمائندے کے پاس عوام کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا تو وہ آخری حربے کے طور پر معافیوں پر اتر آتا ہے اور اخبارات تک یہ بات آتی ہے کہ میں نے اپنے ناراض کارکنوں سے معافی طلبی کر لی ہے اور کارکنوں نے مجھے معاف کردیا ہے اور آئندہ الیکشن میں بھر پور میری تائید کا فیصلہ کیاہے۔
اگر آپ نے اپنی نااہلی اور بددیانتی کا اعتراف صدق دل سے کرنا ہے اور آئندہ ان کرتوتوں سے توبہ کرنا ہے تو بند کمرے میں چند کارکنوں سے معافی طلبی کی بجائے کھلے عام سابقہ نااہلی یا بد دیانتی کا اعتراف کرتے ہوئے پہلے اپنے رب پھر عوام سے صدق دل سے معافی مانگیں ۔کیونکہ آپ چند کارکنوں کے نہیں قوم کے مجرم ہیں۔ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کی سابقہ پشیمانی اور آئندہ کی نیک نیتی کو دیکھتے ہوئے معاف کریں۔اور آپ کیلئے عوام کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کریں۔
عوام ہوشیار رہیں ۔یہ معافیوں کا موسم صرف الیکشن تک محدود ہے ۔الیکشن کے بعد اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے والے یہ دھوکے باز ہماری بیوقوفیوں کاپہلے سے ذیادہ مذاق اڑاتے ہوئے اپنے باقی ماندہ خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کام کرینگے۔
آج کل اخبارات میں یہ باتیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں کہ سیاست کے چند پرانے کھلاڑیوں نے قرآن پاک پر حلف لیا ہے کہ ہم دوبارہ دھوکے میں نہیں آئینگے اور سابقہ دور میں دھوکہ دینے والے کی مدد نہیں کرینگے۔
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔کرپشن کی انتہا، میرٹ کی پامالی ، خود یا بذریعہ رشتہ داران ذاتی مفادات حاصل کرنے والے نمائندوں کیساتھ ایسا ہی سلوک ہو نا چاہئیے۔
تاکہ آئندہ آنے والے نمائندے ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں اور عوام کو دھوکہ دینے کا سوچ بھی نہ سکیں اسی طرح قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔