کالمز

نوروز نام ہے خود احتسابی کا

ایم ایم قیزل
ایم ایم قیزل

کوئی بہار سے بھلا منہ کیسے موڑسکتا ہے۔جناب یہ  بہار کا موسم ہی تو ہے جو ہر سال ایک نیا پن لے لاتا ہے۔ زمین ایک نئی زندگی پاتی ہے تو ادھر درختوں پر پھولوں کے شگوفے پھوٹتے ہیں ۔ سورج اور زمین سمیت اس پورے نظام شمسی میں ایک  ارتقاء یا تبدیلی   جنم لیتا ہے۔ سردی سے ﭨﮭﭩﮭﺮﺗﮯ ﺭﻭﺯ ﻭﺷﺐ کے ایام  بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں تو  روئے زمین پر بسنے والے تبدیلی پسند لوگ  زندگی میں آنے والی تمام تبدلیوں کو اجتماعی طور پر نوروز سے منسوب کر کے اس تبدیلی کو  مناتے ہیں۔

جناب ۱ اہل فارس  اسے عید کے طور پر برسوں سے مناتے ہیں کہتے ہیں مشہور ایرانی بادشاہ زرتشت کے دور میں نوروز کو خصوصی مقام حاصل ہوا۔ زرتشت کے دور میں نوروز چار قدرتی عناصر پانی ، مٹی ، آگ اور ہوا کا مظہر اور علامت سمجھا جاتا تھا۔  ۔مغربی چین سے ترکی تک،  ایران، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان،پاکستان کے علاقے اور شمالی عراق کے لوگ نوروزبڑے اہتمام سے منا تے ہیں

 تو کچھ لوگوں کا دعویٰ ہیں کہ مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت و وصایت کا رسمی اعلان اسی دن ہوا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس دن منجی عالم بشریت  یعنی امام مہدی کے ظہور فرمائیں گے۔  تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پہلی بار سورج کی روشنی اسی دن سیارہ زمین پرپڑی۔جناب وہ نوروز کا دن ہی تھا جس دن طوفان نوح تھم گیا۔ یہ وہی دن تھا جس دن حضر ت موسی نےعصا کا معجزہ  دیکھایا اور فرعون کے جادو گروں کو مات دی۔۔ تو جناب عالی ۱ ان دعوں کا ایک بہت بڑی لیسٹ ہے۔ ۔ ۔  ان میں کتنی صداقت ہے اس سے مجھے کوئی لین دین نہیں ۔۔ مگر جناب میں زندگی کے ہر شعبے میں وقت کے ساتھ ساتھ مثبت تبدیلی کا خواہاں ضرور ہوں ۔

 بلا کوئی کیوں نہ ہو کیونکہ زندگی ۔۔ تبدیلی کا دوسرا نام  ہی تو ہے۔ ۔ اور یہ مثبت تبدیلی ہی ہے جو مجھے اور آپ سب کے لئے وجہ مسکراہٹ ہے۔ تو دوستو مسکراتے  رہیــــــے ،خوش رہیــــــے،شــــاد رہیــــــے آباد رہیـــــــــے ۔۔

اور یہی نو روز کا پغام بھی ہے جو مجھے اور آپ کو ایک لمحے کے لئے غور و فکر کرنے کا موقعہ دیتا ہے۔یہ سوال کرتا ہے  کہ اے اہل خرد ، اے حضرت انسان، نہ جانے تو کتنے ایسے مذہبی، ثقافتی و دنیاوی تہوار ازل سے  مناتے آ  چلے ہو، مگر کچھ ہی لوگ ہیں جنہوں نے ان رسومات سے حقیقی خوشی و شادمانی حاصل کی ۔ ذرا تو یہ بتا کہ نہ جانے تیرے زندگی میں کتنے  اس طرح کے ماہ وسال آتے اور جاتے رہتے ہیں اور  اس کا تجھے احساس تک نہیں ہوتا۔ ۔ میرے عزیز تہوار اچھے کھانے ، نئے کپڑے زیب تن کرنے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے کا نام نہیں  بلکہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں پر سوچنے کا نام ہے  آنے والے سال کو کس طرح کارآمد اور قیمتی بنا سکتے اس پر کچھ  غور وفکر کرنے کا ایک موقعہ ہے۔ میرے رفیق ، یہ تہوار مادی و معنوی  خود احتسابی  کرکے سال نو کیلئے منصوبی بندی کا  نام ہے۔ یہ تہوارت  ایک فکری لمحے کا نام ہے۔ یہ ہمیں بغیر ٹہرے گزرتے وقت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی گھنٹی ہے، یہ ایک ایسی فکری لمحے کا نام ہے جو انفرادی و اجتماعی بالخصوص قوموں کی زندگی میں ایک اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتی ہیں کہ اگر زندگی کے یہ لمحات چند گھنٹوں کی مادی خوشی کی نذر ہو، فضولیات اور خرافات میں گزارے۔ اور اگر ہم اپنے گزرے ہوئے لمحات کے آئینہ میں اپنے عمل کا محاسبہ نہ کریں  تو جناب سمجھ لیجے گا۔ کہ یہ ایک لمحہ کی بھول آپ کے کارموں پر پانی پھیر سکتی ہے جبکہ اس ایک لمحے کا صیح استعمال نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر قوموں کی زندگی سنوار سکتی ہے ۔ ۔ تو بس وہی لوگ بازی لے جاتے جو ماہ وسال کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں۔ تو نوروز ایک بہترین موقعہ ہے کہ ہم خود احتسابی کر کے ایک نئی امنگوں بھری مستقبل کی طرف روان دواں ہوں

تودوستو ہم بات کر رہے تھے نوروز کی  یعنی شمسی سال کا  نیا دن یا پہلا دن جو کہ علامت ہے تبدیلی کا، بہار کی آمد کا موسم سرما کی موت اور فطرت میں خوبصورت رنگ بھرنے کا، خواب و غفلت سے انسان کے بیدار ہونے کا،سوچ و فکر کے نتجے میں جاگ جانے کا ، فطرت سے متصل ہوجانے کا،تو آیئے زندگی میں آنے والی ہر اس فطری تبدیلی کا خیرمقدم کرنے کی کوشش کرے۔ وقت کی قدر کرے، ہر لمحے کو غنیمت جان کر اسے اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسل کے لئے بیش قمیت بنائے۔

سال نو آپ اور آپ کے خاندان ۔ ملک و ملت میں خوشیوں کا بہارلے آئے، ملک و ملت میں موجود گوناگونی مثل باغ و گلشن بن جائے۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button