کالمز

اپریل فول

Hidayat-Ullahصبح کے ضروری لوازمات سے فراغت کے بعد دفتر کی جانب چل پڑا۔جونہی سکول گیٹ سے اندر داخل ہوا دیکھا کہ بچوں کی اسمبلی جاری تھی اور سکول کی ایک مس ڈائس پر بچوں سے مخاطب تھی اور اس کا موضوع اپریل فول تھا۔میرے منہ سے بے ساختہ نکلا بہت اچھا،وہ اس لئے کہ آج اکتیس مارچ ہے اور صحیح وقت اور ٹھیک موقعے پر مس صاحبہ آنے والے کل اپریل فول ڈے کے حوالے سے اپ ڈیٹ کر رہی تھی تاکہ یہ پھول سے بچے اس دن کے حوالے سے فول(بے وقوف) بننے سے بچ جائیں۔بچے تو ویسے بھی پھول جیسے ہوتے ہیں ایسے میں اگر وہ فول(بیوقوف) بھی بن جائیں تو پیارے ہی لگتے ہیں ۔اس لئے کہ یہ پیارے بچے فول بن کر بھی پھول ہی رہتے ہیں ۔لیکن جب بڑے پھول اور فول میں فرق محسوس نہ کریں تو پھر اپریل فول بن جاتے ہیں ۔پھول اور فول کے حوالے سے بات کرنے کو جی اس لئے بھی چاہ رہا ہے کہ مس کی تقریر کے بعد اس دن کے حوالے سے ایک بحث چھڑ گئی۔کسی نے کچھ اور کوئی کچھ کہہ رہا تھا۔ایک فول نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں اپریل فول کو جون میں منانا چاہئے۔اتنے میں ایک صاحب نے فٹ سے کہہ دیا کہ جون میں کیوں یار کیوں۔ہمیں یہ دن اکیس مارچ کو منانا چاہئے۔اس نے جواب دیا کہ اکیس مارچ کو ہمارا اپریل فول ڈے نوروز کا دن ہے نا۔شائد ایسے موقعوں کے لئے ہی یہ لفظ بولا جاتا ہوگا کہ انہیں خدا ہی سمجھائے نوروز اور اپریل فول۔کیوں آپ کو بھی ہنسی آئی۔ نہیں آپ اسس شنش و پنج میں ہونگے کہ یہ فول اس قسم کی فول سی بات کر کے ہمیں فول(بے وقوف) تو نہیں بنا رہا ہے ۔۔ اگر ہنسی نہیں آئی ہے تو رونا بھی نہیں آیا ہوگا۔اور یہی مقام ہے جہاں ہسنا اور رونا ایک ساتھ ہوتا ہے ۔یوں تو اپریل فول ڈے کے حوالے سے بہت سارے لطیفے مشہور ہیں لیکن ایک لطیفہ ایسا ہے کہ جہاں ہسنے کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی مقدار کی بھی نشاندہی کرتا ہے اور اسی سے ملتا جلتا ہے جس طرح ایک صاحب نے نوروز اور اپریل فول کو ملایا۔لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک پٹھان اکتیس مارچ کو لوگوں کو فول(بے وقوف) بنا رہا تھا۔کسی نے کہا خان صاحب اپریل فول تو کل ہے اس کے جواب میں پٹھان نے کہا کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ مناتے ہیں ۔۔ہاہاکہنے کوتو یہ دونوں نوروز اور سعودی عرب والی باتیں لطیفوں کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ان پہ غور کیا جائے تو یہ پاکستانیوں کی ذہنی مقدار کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔کہ ہم کیسے دور کی کوڑیاں ملانے میں ماہر ہیں ۔تاریخی حوالے سے اس دن کا تجزیہ کیا جائے تو جو بات اس دن کے حوالے سے ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ لاطینی زبان کے دو الفاظ Apprier (اپرائر) اور( اپریلس) Aprilis سے ماخوذ ہے جن کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا اور کونپلوں کا پھوٹنا اور یورپ اور امریکہ میں یہ دن بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔جبکہ نوروز ایک قدیم پارسی تہوار ہے جو آج کل ایران کا سب سے بڑا تہوار بن گیا ہے اور ایرانی اس دن کو نئے سال اور بہار کی آمد کے طور پر مناتے ہیں ۔بہار کی آمد کے علاوہ اور کوئی چیز نوروز اور اپریل فول ڈے میں مشترک نظر نہیں آتی۔اپریل فول منانا چاہئے یا نہیں اس پر کافی بحث ہو سکتی ہے ۔لیکن اس دن کے حوالے سے عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو شرمناک سلوک کیا وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ۔اور اس تناظر میں ا س دن کو منانا ایسا ہے کہ ہم اپنے پیارے پھول اورسچے دین مذہب اسلام کو اپنے ہی ہاتھوں مسل اور بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔آج مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمار ی ہی نادانیوں اور بے وقوفی کا صلہ ہے۔ہم جانے انجانے میں یا ماڈرن بننے کے چکروں میں دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور ایک سوچے سمجھے منصو بے کا حصہ بنتے ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کے امیج کو خراب کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ان ہی میں سے ایک اپریل فول ڈے ہے ۔اگر اس دن کی تاریخی حقیقت بیان کی جائے تو سب سے بڑی دردناک حقیقت یہی ہے کہ جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا تو اس وقت اسپین کی سر زمین پر مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ فاتح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوتی تھیں ۔جب قابض فوج کویقین ہو گیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچا ہے تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرمانروا کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مراکش چلا جائے جہاں سے اس کے آبا و اجداد آئے تھے ۔قابض فوج غرناطہ سے کوئی بیس کلو میٹر دور ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی۔جب قابض فوج مسلمان حکمرانوں کو نکال چکیں تو پھر حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کہیں کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے شہید کر دیا جائے۔ جو مسلمان بچے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر کہیں اور جا بسے اور گلوں میں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی نام رکھ لئے۔اب اسپین میں بظاہر کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا مگر اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اپنی شناخت چھپا کر زندہ ہیں۔ایسے میں مسلمانوں کو باہر نکالنے کی ترکیبیں سوچی جانے لگیں اور ایک منصوبہ بنایا گیا ۔پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں جمع ہو جائیں تاکہ ان کو وہاں بھیج دیا جائیگا جہاں وہ جانا چاہتے ہیں ۔اب چونکہ ملک میں امن قائم ہو چکا تھا اور مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔مارچ کے پورے مہنے اعلانات ہوتے رہے اسپین الحمرا کے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کئے گئے اور جہاز بندر گاہوں میں آکر لنگر انداز ہوتے رہے ۔مسلمانوں کو ہر طرح سے یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں کچھ نہیں کہاجائیگا۔ جب مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ اب ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکھٹا ہونا شروع ہوگئے اس طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا ان کی خاطر مدارت کی یہ واقعہ چھ سات سو برس پہلے کا ہے جمع ہوگئے اور دن یکم اپریل جب تمام مسلمانوں کو بحری جہاز میں بٹھایا گیا۔مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے بڑی تکلیف ہو رہی تھی مگر انہیں یہ اطمنان تھا کہ ان کی جان بچ گئی۔دوسری جانب عیسائی حکمران اپنے محلوں میں جشن منانے لگے۔

جر نیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دئے۔ان مسلمانوں میں بوڑھے،جوان،بچے ، خواتین اور کئی مریض بھی تھے ۔جب جہاز سمندر کے عین وسط میں پہنچا تو منصو بہ بندی کے تحت انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا اور یوں وہ تمام مسلمان سمندر میں ابدی نیند سو گئے۔ پھر کیا ہوا اسپین میں جشن منا یا گیا وہ اس لئے کہ انہوں نے کس طرح اپنے دشمن مسلمانوں کو بے وقوف بنایا۔اس طرح یہ دن اسپین کی سرحدوں سے نکل کر یورپ کا عظیم فتح کا دن بن گیا یعنی فرسٹ اپریل فول۔آج بھی عیسائی دنیا اس کو بڑے اہتمام سے مناتی ہے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button