محراب اورمیدان سیاست
جمہوری ممالک میں لوگ عام طور پر اپنے پسندیدہ اور محبوب افرادکو ووٹ دیتے اور انہیں اپناحاکم اور رہبر تسلیم کرتے ہیں جن کے بارے میں انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ قومی مفادات پر اپنے مفادات کو ترجیح نہیں دیں گے اور ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات کو قربان نہیں کریں گے یہ توقع اسوقت صحیح ہے
جب ووٹ دیتے ہوئے ذاتیات ،مفادات اور تعصبات سے بالاتر ہوکر ایک مخلص حاکم کو منتخب کیا ہو ورنہ جس طرح ہم دوسرے بہت سارے معاملات میں بے جا توقعات رکھتے اور نقصان اٹھاتے ہیں اس معاملے میں بھی نقصان ہونا سوفیصد یقینی ہے ، تیز چھری سے ہاتھ نہ کٹنے کی ،بریک فیل گاڑی سے حادثہ نہ ہونے کی ،گرتے ہوئے دیوار کے نیچے بیٹھ کر بچ جانے کی ،بغیر بادل بارش برسنے جیسے توقعات ایسے ہیں جنکو کوئی بھی عاقل بالغ اور شعور رکھنے والا قبول نہیں کرتابلکہ ایسے توقعات رکھنے والوں کو قرآن لفظ سفی ،بے وقوف ،نادان اور بے شعور جیسے القابات سے کوستے نظر آتے ہیں !
سرزمین بے آئین خطہ گلگت بلتستان کے پر امن وپر محبت معاشرے کے عاقل،باشعور، دانشور، مذہبی وسیاسی بصیرت رکھنے والے خواص اور ہر جھنڈے کے سایہ تلے جھوم جھوم کے نعرے لگانے والے مجھ جیسے کم فہم نادان اوربے شعور عوام ’’بے جا توقعات ‘‘رکھنے میں ایک ہی صف میں نظر آتی ہے ،نہ ماضی سے عبرت اورنہ حال ومستقبل کاکوئی لائحہ عمل ہے ! ہر الیکشن کے بعد یک زبان ہوکر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر ظلم ہوا قوم کے ساتھ ناانصافی وحق تلفی ہوئی ، کرپشن،اقرباء پروری ورشوت خوری وغیرہ کے رونا روتے ہیں لیکن یہی شکوہ کناں حضرات دردناک ماضی کو یکدم فراموش کرکے دوبارہ الیکشن کے وقت چن چن کر انہی افراد کو برسراقتدار لانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں جن سے جز غداری بے وفائی کے اور کوئی توقع نہیں رکھا جاسکتا اسی طرح نہ کردار کو دیکھا جاتا ہے نہ تعلیم کو اور نہ ہی ایمان وتقوی کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس قدر رائج ہوچکے ہیں کہ اب اس بار الیکشن سے پہلے باکردار باایمان وباتقوی ہستیوں کے وجود سے خوف زدہ ہوکر علماء و باکردار وباصلاحیت افراد کومسجد ومحراب کی چاردیواری اور نکاح و نماز جنازہ تک محدود کرنے کی کوششیں دکھائی دے رہی ہیں (یہ سوچ کوئی نئی سوچ نہیں بلکہ قائد ملت علامہ شیخ غلام محمد مرحوم کے زمانے سے چلا آرہا ہے اس زمانے میں بھی علماء کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی گئیں جس کے نتیجہ میں اس مرد مجاہد نے اس وقت کے وزیر امور کشمیر کو وہ سبق سکھا یا تھا جو اب تک نہیں بھولے اسلئے آج وہی حربہ اور تاریخ دوبارہ آزمانے کے لئے پہلے بیان پھر تردید جیسے گومگو کے حالت میں ہے)
ہاں راقم ایک حوالے سے ایسے ذہنیت رکھنے والوں کے ساتھ اتفاق کرتا ہے کہ اس سیاست میں واقعا باکردار وبا ایمان حضرات کے لئے کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ موجودہ سیاست سیاست اسلامی نہیں بلکہ یہ سیاست سیاست شیطانی ہے اور شیطانی سیاست میں الہی اور خدائی بندووں کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ خدااور شیطان کا راستہ جدا ہے جیسے دوایسے مسافر جنکی منزل الگ ہو ں وہ ایک ساتھ سفر نہیں کرسکتے ۔
حکمرانی سے متعلق پیدا کردہ غلط فہمی
بعض اوقات اہلبیت ؑ یا صحابہ کرام کے ماننے والوں کے لئے یہ بات گراں محسوس ہوتی ہے کہ ان کے ائمہ وصحابہ کرام بھی حکومت کے خواہشمند تھے اور ماضی میں حکومت حاصل کرنے کے لئے کوششیں کرتے رہے ہیں ،اس بات کو قبول کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہے کیونکہ وہ حکومت کو صرف دنیا پرستی اور عیش وعشرت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، وہ اس قسم کا مفروضہ قائم کرنے میں کسی حد تک حق بجانب ہیں کیوں کہ تاریخ میں حکمرانوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کبھی روٹی کپڑا اور مکان کبھی غربت مٹاو تو کبھی قرضہ یا لیپ ٹاپ سکیم جیسے دلفریب نعروں کے ذریعے انہیں بے وقوف بنایا گیا اور بنا ئے جارہے ہیں چنانچہ جیسے ہی بات کی جاتی ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ان کے اختیارات میں سے ایک اختیار اور ان کے حقوق میں سے ایک حق حکومت کرنا ہے تو ائمہ ؑ کے چاہنے والے ایک حد تک سنگین محسوس کرتے ہیں ،ہمارے کان میں جب بھی حکومت یا سیاست کے بارے میں سنتے ہیں تو دنیا کی مروجہ سیاست اور حکومت کا تصور ہمارے ذہنوں میں آجاتاہے جوعموما دوسروں پر حکومت کرنا ،مفادات حاصل کرنا ،دھوکہ دہی اور فریب کاری کا نام ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نہ صرف ائمہ ؑ وصحابہ کرام بلکہ ایک عام کلمہ گو مسلمان بھی اس قسم کی حکمرانی کے ہر گز خواہاں نہیں ہونگے ،لیکن ہمارے ائمہ وصحابہ کرام وبرجستہ اورباکردار حضرات ایسے حکمرانی وسیاست کے خواہاں تھے جیساکہ:
۱:۔ حضرت عمر کا وہ مقولہ جو ہر خاص وعام کو یاد ہے کہ ’’اگر نہر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرے گا تو قیامت کے دن عمر سے اس بارے میں سوال ہوگا ‘‘یہ کوئی جذباتی یا ایک شاطر مغربی سیاست سے متاثر سیاستدان کا اخباری بیان نہیں بلکہ خلیفہ وقت اور ایک احساس ذمہ داری رکھنے والا درد مند کا بیان ہے ،یہ ایک حکمران کا ضمیراور ایمان ہے ( افسوس کا مقام ہے اور عالم اسلام کے مسلمانوں کو اب بیدار ہونا چاہیے کہ خادم الحرمین کہلانے والے خلیفہ راشدین اور اسلام کے شعار بلند کرنے والے نہ صرف احساس جرم وخطا نہیں کرتے بلکہ افغانستان ،عراق اس کے بعد شام میں انسان دشمن دہشت گردوں کو مالی وجانی امداد فراہم کرکے لاکھوں انسانوں کو خون میں نہلانے ، لاکھوں بچوں کو لاوارث کرنے اور ہزاروں افراد سے چادر اور چاردیواری چھین لینے میں براہ راست شریک رہے ہیں اوراب آزادی اور خودمختاری کے خواہاں یمن کے بے گناہ شہریوں پر سرعام بمباری کرکے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ ملک اور اس کے حکمران بھی سیاست اسلامی پر نہیں بلکہ شیطانی سیاست کے غلام ہیں اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات پہ ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے مغرب وسعودی نواز حکومت ،مظلوم کے حمایت کرنے کے بجائے ظالم کے ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہیں،اور میڈیا پر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ سعودی عرب چند باغی گروہ سے جنگ لڑرہے ہیں !کیا یہ حکومت اسلامی اور منصب حکمرانی پر بیٹھے ہوئے لوگ مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں کیا یہ طرز حکمرانی فاروقی ہے ؟ایک طرف حضرت عمر اپنے دور حکمرانی میں ایک جانور کا بھوکا مرنا با عث ندامت وشرمندہ گی سمجھتے ہیں تودوسری طرف لاکھوں لوگوں کو سرعام قتل کرکے ذرہ برابر شرمندگی محسوس نہیں کرتے !اس طرح کے گھناونی اور قابل مذمت حکومت میں واقعا ایک عام شریف النفس آدمی کے لئے کوئی گنجائش نہیں )
۲:۔جناب حضرت ابن عباس حضرت علی ؑ کو جب ایک پھٹے پرانے جوتے کو گانٹھ لگاتے دیکھ کر کہا مولا اسے پھینگ دیجئے اب اس کی کوئی قیمت نہیں ہے تو آپ نے فرمایا :خدا کی قسم اگر حق قائم کرنا اور باطل کو دور کرنا مقصود نہ ہوتا تو میری نظر میں حکومت کی قیمت اس جوتے سے بھی کم تھی ! مولاؑ کا یہ مقدس فرمان کہ ’’حق قائم کرنا اور باطل کو دور کرنے کا نام حکمرانی ہے ‘‘ سالوں سے دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے والا غاصب یا جہالت ونشہ کے لعنت کے ذریعے نوجوان نسل کو تباہی کے دھانے پر لانے والے مکروہ دھندوں میں ملوث ا فراد، یا غیر مقامی پارٹیوں کے خوشنودی اور آشرباد حاصل کرنے کے لئے قدرتی ذخائر اور معدنیات کو، حقوق اجتماعی کو فروخت کرنے والا بے ضمیرا فراد، حق کو احسن طریقے سے قائم کرے گا؟ اور باطل کو دور کرے گا ؟یا وہ افراد جو خود اہل حق ہے امین ہے فہیم ہے اور مسجد ومحراب سے نماز ورزہ سے لیکر حلال وحرام تک سے آشنا ہے وہ حق کو بہتر طور پر قائم کرسکے گا؟ اور باطل کو ختم کرکے عدل وانصاف ،علم ومساوات ،محبت وامن کے ذریعے معاشرے کو ترقی کے راہ پر گامزن کرسکے گا ؟! یہ فیصلہ اب عوام ہی کر یگا کیونکہ عوام کو اب شعور آچکا ہے عوام پہلے سے زیادہ ہوشیار اور بیدار ہوچکا ہے ظلم وستم ، دھوکہ وفریب، غداروں اور بے ضمیروں سے نجات چاہتے ہیں اور دنیا پرست ٹولے سے بیزار ہوچکے ہیں اور عدل وانصاف مساوات واخوت حقوق و ترقی و حق کی بالادستی چاہتے ہیں اور باطل وناانصافی کی سرنگونی چاہتے ہیں جو صرف ایک عالم باعمل کے ہی بس کی بات ہے