کالمز

فوزیہ سلیم کو دھمکیاں کیوں مل رہی ہیں؟

Safdar Logoگلگت بلتستان کی اکلوتی خاتون نگران صوبائی وزیر فوزیہ سلیم عباس گزشتہ کئی روز سے مسلسل یہ بیانات دے رہی ہیں کہ محکمہ تعلیم کے اندر موجود کرپشن مافیہ کے خلاف کاروائی شروع کرنے پر انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ساتھ میں اس عزم کا بھی اظہار کررہی ہوتی ہیں کہ وہ اس قسم کی دھمکیوں سے ہرگز مرعوب نہیں اور ان مافیاز کو اپنے منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیں گی۔ گزشتہ دنوں سکردو شہر میں منعقدہ ایک تقریب میں غذر سے تعلق رکھنے والے نگران وزیر عبدالجہان نے بھی محکمہ تعلیم کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والوں کا قبلہ درست کرنے کے مشن میں فوزیہ صاحبہ کا بھرپور ساتھ دینے کا اعادہ کرلیا۔ انہوں نے نہ صرف محکمہ تعلیم بلکہ گلگت سکردو روڈ کی خستہ حالی پر بھی انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ سے یہ سوال کیا کہ وہ اپنے اس پانچ سالہ دور حکومت میں آخرکیا کرتے رہے۔ادھر نگران وزیرتعمیرات شیخ ناصر زمانی تو شروع دن سے ہی اپنے ماتحت محکمہ کی کارکردگی سے مایوس نظر آئے اور اپنی مایوسی اظہار بھی انتہائی دلچسپ انداز میں کرتے رہے۔ کبھی وہ اپنے ماتحت محکمہ کو’’ بریک فیل گاڑی ‘‘تو کبھی اسے ’’فالج کے مریض‘‘ سے تشبیہ دیتے رہے۔ ایک دن ایک مقامی روزنامہ کے توسط سے یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ حکومتی کارکردگی پر کھل کر تنقید کرنے پر شیخ صاحب کو اخباری بیانات دینے میں احتیاط سے کام لینے کی ہدایت دی گئی۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ سچ بولنے سے پیچھے نہیں ہٹے اوروقتاً فوقتاً حکومتی امور پر بیانات داغ کر دل کی بڑاس نکالنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور آئے روز کسی نہ کسی مسلئے کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔

فوزیہ سلیم صاحبہ کے ان بیانات کے حوالے سے قارئین کے زہنوں میں کچھ اس قسم کے سوالات جنم لے سکتے ہیں کہ انہیں محکمہ تعلیم میں موجود مافیہ کی طرف سے آخر کیونکر دھمکیاں مل رہی ہیں۔ کیا مافیہ کے وہ لوگ بے قصور ہیں اور محترمہ ان پر جھوٹے الزامات عائد کررہی ہیں؟ کیا وہ زیادہ باعزت ہیں اور محترمہ ان کی تذلیل کررہی ہیں؟ کیا وہ باکردار ہیں اور محترمہ جان بوجھ کر ان کی کردار کشی کررہی ہیں؟کیا وہ انتہائی غریب اور بے سہارہ ہیں اور محترمہ ان پر اپنا روپ جمانے کی کوشش کررہی ہیں؟کیا وہ فوزیہ سلیم کے سیاسی حریف ہیں اور وہ ان سے سیاسی انتقام لے رہی ہیں؟ ان سب سوالوں کے جوابات اگر نفی میں آرہے ہیں تو پھر یہ سمجھنا قدرے آسان ہے کہ واقعی محکمہ تعلیم کے اندر دال میں کچھ کالا ہے۔

جی ہاں دال میں کچھ نہیں بہت کچھ کالا ہے تبی توایک سرکاری محکمہ میں ملازمت پیشہ افراد کی جانب سے ایک نگران صوبائی وزیر کو اور وہ بھی ایک خاتون وزیر کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مافیہ کے پیچھے کوئی خاص طاقت تو نہیں جس کے اسرے پر وہ ایک صوبائی وزیر کو دھمکیاں دینے پر اتر آیا ہے؟میری ناقص رائے کے مطابق اس مافیہ کی بھی وہی قوت سرپرستی کررہی ہے جس کے دور حکومت میں نہ صرف محکمہ تعلیم بلکہ گلگت بلتستان کے بیشتر سرکاری اداروں کے اندر رشوت اور سفارش کی بنیاد پر ملازمتوں کی بندربانٹ کا کلچر متعارف ہوا اور میرٹ کا اس قدر قتل عام کیاگیا جو بذاد خود ایک نہ مٹنے والی بدترین تاریخ بن گئی ہے۔ اگراس بدمعاش مافیہ کے پیچھے کوئی پوشیدہ طاقت نہ ہوتی تو نگران وزیرکو بھری تقریب میں یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ’’ جس گریڈون کو ٹیچر بھرتی کیاگیا ہے اسے فوری طور پر نوکری سے برخاست کیا جائے‘‘۔ ایک پرہجوم تقریب کے دوران ایک صوبائی وزیر کے منہ سے اس قسم کے الفاظ کا نکلنا بظاہر اپنے ماتحت عملہ کو ایک حکم لگتا ہے مگر اس پر تھوڑا غور کیا جائے تو یہ ان لوگوں کے لئے براہ راست ایک پیغام بھی ہے جو اس مافیہ کی سرپرستی کررہے ہیں۔ یہ پیغام سن کر ان لوگوں کو ڈوب کر مرنا چاہیے جن کی پشت پناہی میں ایک مکرہ دھندہ کیا جاتا رہا اور ان لوگوں کے لئے بھی جن کے دور حکومت میں رشوت اور سفارش کی بنیاد پر ایک گریڈ ون کو گریڈ چودہ میں استاد بھرتی کرکے قوم کے مستقبل کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا۔

فوزیہ سلیم صاحبہ نے تومحکمہ تعلیم میں اندھیر نگری چوپٹ راج کی صرف ایک مثال بیان کردی جبکہ ایسی ہزاروں مثالیں اور بھی موجود ہیں جوکہ سابق صوبائی حکومت کے دور میں قائم ہوچکی تھیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ سب کچھ سابق وزیراعلیٰ اور ان کے حواریوں کے اشاروں پر ہوتا رہا جس کا بانڈہ چند روز قبل محکمہ تعلیم سے جبری ریٹائرڈ کئے جانے والے ڈائریکٹر شاہ مراد نے اپنے بیانات میں پھوڑ دیا تھا۔ جبکہ سابق وزیراعلیٰ پورے پانچ سال کے دوران یہ دعوے کرتے رہے کہ ان کے دور حکومت میں لوگوں کومیرٹ اور انصاف کی بنیاد پر ملازمتیں دی گئیں۔ سفارش کے حوالے سے تو وہ یہ کہہ کر لوگوں کو ٹالتے رہے کہ سفارش تو آخرت میں بھی چلتی ہے گویہ کہ وہ ایک دفعہ مرکرپھر زندہ ہوا ہو۔ 

شاہ مراد صاحب کے جبری ریٹارمنٹ سے چند ماہ قبل میری ان سے اتفاقاً ایک تفصیلی نشست رہی تھی جس دوران انہوں نے مجھے بھی وہی کہانی سنائی جو ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو سنا دی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے محکمہ تعلیم سکردو میں تعیناتی کے دوران جن اساتدہ کی خلاف ضابطہ تقرریاں عمل میں لائیں وہ صرف اور صرف اپنے سے اوپر لیول کے ایک اعلیٰ آفیسر یعنی اس وقت کے سکریٹری تعلیم اور سابق وزیراعلیٰ کی تحریری وزبانی احکامات پر ہی کیاجس کے ثبوت بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ سابق ڈائریکٹر نے اس نشست میں اور بھی اہم انکشافات کئے اور بتارہے تھے کہ پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی حکومت کے دور میں محکمہ تعلیم کے اندر ایک مضبوط گروہ کاکام ہی یہی تھا کہ وہ لوگوں سے پیسے لیکر ملازمتیں دلوائے جس میں انکے بقول سابق وزیراعلی ٰ، وزیرتعلیم، سکریٹری تعلیم اور دیگر لوگ بھی ملوث تھے۔ان گروہ کے بندے تمام اضلاع میں پھیلے ہوئے تھے اور نوکریوں کی بولیا ں لگاکرگاہک کی تلاش میں مگن تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس وقت ایمانداری اور دیانتداری کا دامن نہ چھوڑا تو سزا کے طور پر ان کا بلتستان تبادلہ کیا گیا اور ایک سازش کے تحت ان سے غیر قانونی کام کروایاگیا۔ شاہ مراد صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک وقت میں غذر میں واقع سرکاری ریسٹ ہاوس میں بھی رشوت کے عویض نوکریوں کا جمعہ بازار لگ چکا تھا اور محکمہ تعلیم کا ایک اعلیٰ آفیسر لیپ ٹاپ کے زریعے وہی سے ہی تقررنامے لوگوں کے ہاتھ میں تھمادیا کرتے لیکن ان کے خلاف کسی نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ بعدازاں میڈیاپر اپنے بیانات میں شاہ مراد صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ٹھیک ہے انہیں سرکاری ملازمت کے دوران خلاف ضابطہ کام کرنے کی پاداش میں سزا کے طور پر جبری ریٹائرڈ کیا گیا لیکن ان لوگوں کو ملازمت پر برقرار رکھنے کا کیا جواز بنتا ہے جن کے تقررنامے ان دستخطوں سے جاری ہوئے تھے۔اور سب سے بڑکر ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی جن کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے انہوں نے یہ کام سرانجام دیا تھا۔ 

بات کہا سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی ،لیکن اچھا ہوا کہ فوزیہ سلیم عباس صاحبہ کی کہانی سے شاہ مراد صاحب کی کہانی بھی یاد آئی کیونکہ شاہ مراد صاحب سے یہ میرا وعدہ تھا کہ جونہی انکے اوپر چلنے والی کیس کا کوئی فیصلہ آجاتا ہے اسی وقت میں ان کے ساتھ ہونے والی اس

نشست کا تفصیلاً تذکرہ کرونگا تاکہ پتہ تو چلے کہ اس معاشرے میں واقعی غریب، امیر،بے بس اور بااثر افراد کے لئے یکساں قانون ہے یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اگر سب کے لئے یکساں قانون ہوتا تو ابھی تک کوئی نہ کوئی شاہ مراد صاحب کے ان انکشافات کا ضرور نوٹس لے چکا ہوتا اورایک غریب آفیسر پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کاکام کروانے والے افراد کے خلاف بھی کارروائی شروع ہوچکی ہوتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔

یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرپاکستان میں ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات کرنے پر ایک پھانسی کے مجرم کے ڈیتھ ورنٹ میں توسیع دی جاسکتی ہے تو ایک سابق وزیراعلیٰ اور وزیرتعلیم کے حوالے سے انکشافات کی تحقیقات کیوں نہیں کی جاسکتی۔اگر معاشرے میں نظام کا حشریہی ہوتو پھرسیاستدان ٹارگٹ کلرز کی طرح سرکاری ملازمین سے اپنی مرضی کاکام لیتے رہیں گے اور مقصد پورا ہونے پر انہیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جائیگا۔ پھرکوئی مافیہ بن کردھمکیاں دیتا رہے گا، کوئی ان مافیاز کی پشت پناہی کرتا رہے گا ، کوئی گریڈ ون سے ٹیچر بھرتی ہوکر پڑھاتا ررہے گا، کوئی فوزیہ سلیم عباس کی طرح مافیاز کا قبلہ درست کرنے کے لئے چیختا رہے گااور کوئی شاہ مراد بن کر انصاف کے حصول کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا رہے گا ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button