تاریخ کا محروم قوم
تحریر شیخ محمد ابراہیم بہشتی شگر
دنیا اس وقت ایک گاؤ ں کا منظر پیش کررہا ہے۔ہر ایک کے دکھ درد اور خوشی سے باخبر ہے۔اگر کسی جگہ ایک پتہ بھی ہل جائے تو دنیا کے ہر فرد اس سے باخبر ہوجاتا ہے۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے اتنی ترقی اور اطلاعات سے رسائی کے باؤجود گلگت بلتستان کی اقوام کی محرومیوں سے باخبر کیوں نہیں؟
اس کی دو وجہ ہوسکتے ہیں۔1۔یا تو ان اقوام کی حقوق کے قابل ہی نہیں سمجھتا یعنی دنیا کے جنگل کے جانوروں کی حقوق کیلئے تو تنظیمیں بنی ہوتی ہے۔ان کی حقوق کیلئے آواز بلند ہوتی ہے حتی کہ دنیا کے مختلف این جی اوز ہمارے ہی علاقے میں ان جانوروں کی تحفظ کیلئے کوششیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔لیکن گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کا معاملہ آتا ہے سب کے منہ پر تالا لگ جاتا ہے۔
آخر کیوں؟؟
یاتو واقعتا دنیا کو ہماری محرومیوں کا علم نہیں ۔یعنی دنیا کو عملا لا علم رکھا گیا ہے۔
آخر کس جرم میں ؟
اس وقت گلگت بلتستان میں الیکشن کی باتیں ہورہی ہے۔ یہ الیکشن دراصل ہماری محرومیوں کو بڑھانے کیلئے ہیں۔ہمیں دکھ دینے کیلئے ہیں اور بغیر کسی نمائندے کے ہمیں ایک دوسرے سے دور کرنے اور لڑانے کیلئے ہیں۔کیونکہ اس الیکشن کے نتیجے میں ہمیں کوئی حقوق میسر ہے نہ ہی کوئی قانون سازی کا حق حاصل ہے۔کیونکہ پورا علاقہ یا ایک وزیر کے ذریعے جس کو نہ ہماری عوام نے انتخاب کیا اور نہ ہی اس وزیر کا ہماری مشکلات و ضروریات و حقوق کا علم ہے۔کیونکہ ان کا تعلق ہماری علاقے سے نہیں کیونکہ ہماری علاقہ والوں کو پاکستان کے وزیر بننے کا حق نہیں۔یا ایک مسلط شدہ چیف سیکریٹری کے ذریعے چلتا ہے۔ان کو بھی مذکورہ وزیر کی طرح ہماری حقوق یا ضروریات کا نہ تو علم ہوتا ہے اور نہ احساس ہوتا ہے۔اور چیف سیکریٹری بننا بھی وزیر کی طرح ہمارے علاقہ والوں پر ممنوع ہے۔کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں کی نظر میں ہم کسی بھی حقوق کے قابل ہی نہیں۔یہ الیکن دراصل بعض افراد کو نوازنے کیلئے ہے تاکہ ان کیلئے مراعات حاصل ہو۔اور جو کچھ تھوڑا خیرات وفاق کی طرفسے ان علاقے کیلئے دیتا ہے یہ بھی عوام کو نہ ملیں۔یہی دھوکا باز الیکشن کے ذریعے سے جو منتخب ہونے والے کھائے۔اور غریب عوام غربت میں رہے۔کوئی ترقیاتی کام نہ ہو اور ترقی کرے گا تو عوام اپنی حقوق کیلئے آواز اُٹھائے گا۔اگر مراعات مخصوص افراد کو دیں گے تو ان کو خرید سکتے ہیں۔ اور حقوق کیلئے کوئی آواز بلند نہیں کرے گا۔بالخصوص جناب زرداری حاصب بہت بڑی چالاکی سے ہماری محرومیوں میں اور اضافے کیلئے عوام کو دکھ دیکر ایک سیٹ اپ بنام وزیر اعلیٰ و گورنر اپنے پارٹی افراد کو نوازنے کیلئے متعارف کروایا۔اس سیٹ اپ سے پہلے کچھ کچھ ترقیاتی کام کہیں کہیں پر ہوتا نظر آتا تھا لیکن جب سے یہ سیٹ اپ وجود میں آیا ہے وفاق سے ملنے والی خیرات بھی اپنی افراد نے آپس میں تقسیم کرکے مختلف مقامات پر اپنے لئے جائداد بنایا۔گلگت بلتستان اس وقت تمام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں اگر کوئی مراعات کسی جگہ پر ہے بھی تو سرکاری آفیسران کیلئے ہیں اور عوام ہر طرح سے محروم ہے۔سڑکیں موت کا کنواں کا منظر پیش کررہا ہے۔ابھی تک سکردو اور گلگت کے درمیاں دریا پر پل نہیں بنایا گیا۔بلکہ دو لوہے کی پل ہے، ان سے گزرنا کتنا مشکل ہے یہ گزرنے والوں کو معلوم ہے۔کوئی بھی ٹرک بلتستان کیلئے آتا ہے تو فل لوڈ کیساتھ تو نہیں آسکتا۔ہالف لوڈ کو انہی پلوں پر پہنچتا ہے۔تو اس لوڈ کو بھی ان لوڈ کرنا پڑتا ہے۔جو کہ ٹریکٹروں کے ذریعے پل پار کرنا پڑتا ہے۔پنڈی سے سکردو تک اگر روٹ درست ہو تو زیادہ سے زیادہ 14گھنٹوں میں پہنچ جائے گا۔لیکن اس وقت انتہائی کرب کے ساتھ مسافرون کو 30گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔پہلے ایک بوئنگ جہاز اسلام آباد سے سکردو کیلئے پرواز کرتا تھا۔جبکہ زرداری اور نواز حکومت کی اس علاقے کیساتھ دشمنی نے اس جہاز کو بھی بند کردیا۔ہماری منتخب شدہ نمائندوں میں اتنی جراٗت نہیں کہ وہ پی آئی اے کی کارستانی کیخلاف آوازبلند کریں۔ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ان علاقوں کیلئے گندم سمیت دیگر اشیاء پر سبسڈی مقرر کی تھی جسے نواز حکومت نے ہمارے منہ سے لقمہ چھیننے کی کوشش کی۔مجلس وحدت المسلمین کی قیادت میں عوام نے اپنی حقوق کیلئے سکردو میں تاریخی دھرنا دیا جس کی نتیجے میں بالآخر حکومت کو اپنی ناجائز حکم واپس لینا پڑا۔کسی نمائندے نے ایک بیان دینے کی زحمت اور جراٗت نہیں کی۔لہذا میری عوام سے گزارش ہے کہ اس فراڈ الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے جب تک پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح ہمیں بھی تمام حقوق میسر نہ ہو۔کیونکہ ہماری مظلومیت اور محرومیت کی انتہاء یہ ہے کہ جب بھی کوئی قانون نافذ کرنا ہو تو اس وقت گلگت بلتستان پاکستان میں شامل ہوتا ہے جیسا کہ مارشل لاء یا نیشنل ایکشن پلان مگر وہ قوانین جس سے دیگر صوبوں کو مراعات حاصل ہونا ہو تو گلگت بلتستان کو نظر انداز کرکے آئین پاکستان سے باہر قرار دیا اتا ہے جیساکہ این ایف سی ایوارڈ وغیرہ۔لہذا گلگت بلتستان کی عوام کو آنکھیں کھولنا چاہئے۔جب تک حقوق نہ ملیں ایسے فراڈ الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔خصوصا نواز حکومت کو تو ہمارے الیکشن اور علاقے کے بارت میں کوئی حق نہیں کیونکہ انہوں نے متعدد بار اس خطے کو پاکستان کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ایسے میں وہ بھلا وہ کیسے اس خطے کی الیکشن میں حصہ لینے کا حق لیں۔اب بھی وقت ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام وقت ضائع کرنے کے بجائے متحد ہوکر حقوق کیلئے میدان میں آجائیں اور نکار لوگوں کی دھوکے میں نہ آئے۔