عوام شہید امن کے نام پر ووٹ دے کر دیکھ لیں
تحریر: رانی صنم فریادؔ
یہ 9 مارچ2003 کا افسوس ناک واقعہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان کے بانی او ر اس وقت کے ممبر قانون ساز اسمبلی و مشیر تعلیم سیف الرحمان خان کو ان کے گھر کے سامنے گولیاں برسا کر شہید کر دیا گیا۔وجہ دشمنی کیا تھی ۔۔۔؟یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اس واقعے سے چند ایام قبل سیف الرحمان خان شہید نے ایک جلوس پر حملہ کرنے کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے علاقے کو ایک بہت بڑے سانحے اور خون خرابے سے بچا لیا تھا۔جن لوگوں کی جانیں بچائی وہ نہ تو ان کے رشتے دار تھے اور نہ ہی مرحوم کے مسلک سے ان کا تعلق تھا۔سیف الرحمان خان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے اس اقدام سے خود ان کی جان خطرے میں پڑھ سکتی ہے مگر انہوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جرات و بہادری کا مظاہر ہ کیا اور علاقے کے امن کو اپنا خون دے کر بچا لیا۔ان کی اس عظیم قربانی کے باعث قوم نے انہیں شہید امن کا خطاب دیا اور شہید امن کے چھوٹے بھائی حافظ حفیظ الرحمان نے اپنے بڑے بھائی کے اس عظیم قربانی پر ان کے امن مشن کا نعرہ بلند کرتے ہوئے سفیر امن بن کر حقیقی جانشین بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔قارئین کرام! اس میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان کا ہر فرد شہید امن سیف الرحمان خان کی اس قربانی سے انکار نہیں کرتا ہے۔مگر ہم گلگت بلتستان کے عوام نے ایک بری بیماری یہ ہے کہ ہم ہمیشہ مسلکی و لسانی تعصوبات کے خول میں ہوتے ہیں۔اور یہی تعصوبات کی وجہ سے ہم کسی بھی فرد کی قربانی ہو یا اچھائی بہت جلد بھول جاتے ہیں۔تبلغی جماعت کے ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب نے گزشتہ سالوں اپنے دورے گلگت کے موقع پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا خوب کہا تھا کہ اے گلگت کے مسلمانو! اللہ کیلئے سنی ،شیعہ اور اسماعیلیہ کے فقہی اختلاف کو اختلاف تک ہی محدود رکھو اپنے ان اختلافات کو فرقہ واریت کا رنگ ہرگز نہ دو۔صحابہ کرامؓ ،خلفائے راشدینؓ ،امہات المومنینؓ اور اہل بیت اطہارؓ کی مقدس ہستیوں کے نام پر مسلمانوں کوتقسیم مت کرو۔جن مقدس ہستیوں کے نام پر تم مسلمانوں کو تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہوا ن کو تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے۔حضور پاک ﷺ کے مشکل وقت میں ان کے ساتھ دینے والوں نے تو اپنی آخرت بنا لی ہے،خدارا تم اپنی آخرت کی فکر کرو۔فرقہ واریت ہو یا لسانیت یہ تو چھوٹا سامسئلہ ہے تمہارا ایمان بگڑ گیا ہے جو کہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔اگرکوئی شخص اچھا کام کرتا ہے اور سب قوموں کی فلاح کا کام کرتا ہے تو تم وقتی طور پر ان کی تعریفیں تو کرتے ہو مگر دوسرے یا تیسرے دن ہی بھول جاتے ہو۔کسی دوسرے مسلک یا قومیت سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تم کو ان کی اچھائیاں نظر نہیں آتی یا پھر جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوا ور ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہو۔معاشرہ تو اس طرح نہیں بنتا ہے بلکہ معاشرہ بگڑ جاتا ہے اور جب معاشرہ بگڑ جاتاہے تو ہر طرف افراتفری پھیل جاتی ہے اور خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے۔قارئین کرام! یہاں مولانا طارق جمیل صاحب کی باتوں کا حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا ہر باسی خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو مولانا صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کے فرمودات کو عین قرآن و سنت کے مطابق قرار دیتا ہے۔ہماری شروعات شہید امن سیف الرحمان خان کی قربانیوں سے تھی اور مولانا طارق جمیل صاحب کی باتوں میں سو فیصد حقیقت نظر آتی ہے کہ واقعی ہم کسی بھی عظیم شخص کی عظیم قربانیوں ،ان کی خدمات اور اچھائیوں کو جلدی ہی بھول جانے میں بڑے ماہر ہیں۔مولانا صاحب کی فرمودات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔اگر ہم نے صحیح معنوں میں اپنی اصلاح کی اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس پورے علاقے میں امن ،اخوت،بھائی چارے گی ،ترقی و خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔قارئین کرام! گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 2015 کے دن قریب آرہے ہیں۔ہر سیاسی پارٹی کا یہ جمہوری حق ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے اپنی انتخابی مہم کو چلائیں۔قربانیوں ،خدمات اور اچھائیوں کے دعوے دار تو سب ہوتے ہیں،ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ پوری قوم کیلئے اصل قربانی کس نے دی ہے۔۔۔؟عزیز و قارب اور اپنے ہی فرقے کے افراد کے لئے اچھائیوں کا دعویٰ تو سب کرتے ہیں مگر رشتہ داروں سے ہٹ کر اور اپنی مسلکی عقیدے سے ہٹ کر دوسرے بھائیوں کیلئے کون اچھائی کرتا ہے۔۔۔؟قارئین کرام! شہید امن سیف الرحمان خان کی قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں ہے ہم میں ان کی اس عظیم قربانی کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرات ہونی چاہئے۔پاکستان مسلم لیگ ن نہ صرف ملک کی سب سے بڑی اور عوامی خدمت گار جماعت ہے بلکہ اس عظیم رہنما سیف الرحمان خان(شہید) کی بھی جماعت ہے جس نے گلگت بلتستان میں اس کی بنیاد رکھی۔آئیں عہد کریں کہ آنے والے الیکشن میں ہم اپنا ووٹ اس عظیم رہنما کے نام کردیں۔عوام کو یقین ہونا چاہیے کہ شہید امن کے نام پر پول کیا گیا ووٹ ہرگز ضائع نہیں ہوگا۔جی بی کے عوام کو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور شہید امن کے جانشین و سفیر امن حافظ حفیظ الرحمان خان سے بڑی تواقعات وابستہ ہیں اور اس حقیقت سے بھی کوئی انکارنہیں کرسکتا ہے کہ امن و اخوت کے سفیر حافظ حفیظ الرحمان میں جو قائدانہ صلاحیتیں ہیں وہ بہت ہی کم لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہیں۔جی بی کے عوام جہاں بھی بحث کرتے ہیں یا تبصرہ یا تذکرہ ہوتاہے تو سب سو فیصد اس بات پر متفق ہوجاتے ہیں کہ واقعی حافظ حفیظ الرحمان صاحب میں قومی سطح کے لیڈر ہونے کی صلاحیتیں موجود ہیں تو پھر ہمیں ایسے اہم لیڈوں کی قدر کرنی چاہیے اور انہیں آگے لانا ہوگا کیونکہ گلگت بلتستان بہت ہی پسماندہ خطہ ہے آگے جاکر ہمیں اس خطے کی آئینی ،سیاسی و جمہوری حقوق کی جنگ بھی لڑنی ہے۔ہمارے آباو اجداد نے 28 ہزار مربع میل کا یہ خطہ ڈوگرہ کی غلامی سے اس لئے آزاد نہیں کرایا تھا کہ ہم اپنی نسلوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھیں۔ہم مسلکی ،لسانی اور علاقائیت کے تعصوبات کے خول میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ہمیں قید کرنے والے مزے سے سیاسی و ذاتی مفادات حاصل کرتے آرہے ہیں جس کا ہم خود برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔قارئین کرام! اس سے قبل ہم نے مسلک کے نام پر علاقیت کے نام پرووٹ دے کر دیکھ لیا ہے مختلف قبائل کے سیاست دانوں کو بھی آزمایا ہے بھٹو ہو یا ڈکٹیٹر پرویز مشرف ان کے نام پر بھی آگے آنے والوں کو خوب جانچا ہے ۔نتیجہ ہمیں کیا ملا۔۔۔؟آپس کی نفرتیں،جنگ و جدل ،ملازمتوں کی فروخت، غربت و بے روزگاری یا جھوٹے اعلانات کی بھر مار۔۔۔؟کیا گلگت بلتستان کا خطہ اس طرح ترقی کرسکتاہے۔۔۔؟ اب کچھ نئے لوگ جی بی میں تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں آئے ہیں ہمیں ان سے یہ پوچھنے کی بھی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ پاکستان کے جس صوبہ خیبر پختون خواہ میں عوام نے انہیں ووٹ دے کر اقتدار دلایا ہے وہاں ان دو سالوں میں کون سی تبدیلی لائے ہیں۔۔؟ تبدیلی پہلے وہاں لا کر دیکھائے پھر یہاں تبدیلی کی بات کریں۔گلگت بلتستان کے عوام صوبہ پنجاب جیسی ترقی چاہتے ہیں۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ترقی و خوشحالی والے وژن کی تکمیل چاہتے ہیں ۔یہ سب تب ممکن ہوگا کہ آنے والے الیکشن میں جی بی کے عوام شہید امن کے نام پر ہی ووٹ دے کر دیکھ لیں۔